دو دن پہلے آصف علی زرداری کی گرفتاری کوئی بڑی،سنسنی خیز یا انہونی خبر نہ تھی، یہ تو ہونا ہی تھا، اپنی اس گرفتاری سے تو خود زرداری صاحب نے بھی سکھ کا سانس لیا ہوگا، پتہ نہیں کب سے دھڑکا لگا ہوگا کہ نجانے کب پکڑا جاؤں ؟ یہ دھڑکا تو انہیں چین سے سونے بھی نہیں دیتا ہوگا، اصل تھرلنگ اسٹوری تو ان کی گرفتاری کے دوران جاری قومی اسمبلی کا اجلاس تھا،جو بعض لوگوں کے خیال میں طے شدہ ایجنڈے کے عین مطابق ہوا اور توقعات سے بڑھ کر کامیاب رہا، اس اجلاس میں حکومت کی فتح مندی کا سہرا کوئی کسی کے سر باندھ رہا ہے اور کوئی کسی کے، لیکن اصل رازدان اس کا ساراکریڈٹ ذہین فطین جناب میاں شہباز شریف کو دے رہے ہیں، وہ کسی سے چھٹی لئے بغیر دو ہفتوں کیلئے میڈیکل چیک اپ کیلئے برطانیہ گئے تھے،جہاں انہوں نے دو ماہ گزاردیے، کسی حلقے میں ان کی غیر حاضری میں طوالت پر شور نہ مچا، فردوس عاشق اعوان اور فواد چوہدری جیسے لیڈر اسے ڈیل یا مک مکا مشہور کرنے کی کوشش کرتے رہے، پھر اچانک اعلان ہوا کہ عزت مآ ب سابق وزیر اعلی پنجاب گیارہ جون کو وطن واپس تشریف لا رہے ہیں، اس اعلان پر پر شہباز شریفی حلقوں نے حکومتی حلقوں کے خوب لتے لئے، حکومتی ترجمانوں کے پاس شرمندگی کے سوا کوئی جواب نہ تھا، فردوس عاشق اعوان نے یہ کہہ کر منہ سے پسینہ پونچھا کہ اگرشہباز شریف واپس آ ہی رہے ہیں تو اپنے ساتھ اسحاق ڈار کو بھی لیتے آئیں، اسحاق ڈار نواز شریف کیمپ کے آدمی ہیں، اگر وہ پنجاب کے سابق وزیر خزانہ ہوتے تو شہباز شریف سچی مچی انہیں بھی ساتھ لے ہی آتے، ہم بات کر رہے تھے شہباز شریف کے واپس آ جانے کے اعلان کی، اس سے پہلے کہ گیارہ جون آتی چار دن پہلے ایک اور چھکا مار دیا گیا، اب کہا گیا کہ وہ گیارہ نہیں نو جون کو ہی لینڈ کر جائیں گے، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں تصور کیا گیا کہ وہ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں اور گیارہ جون کو وفاقی بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے وہ بجٹ اجلاس میں حکومت کو تارے دکھنا کیلئے نو جون کو ہی لوٹ آئے ہیں، لیکن یہ کیا ہوا؟ شہباز شریف نے تو دس جون کو ہی تارے دکھا دیے، مگر کس کو؟ دس جون کو جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈبل بنچ نے آصف علی زرداری کی جعلی بنک اکاؤنٹس کیس میں ضمانت مسترد کی تو اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا، زرداری صاحب تو فیصلہ محفوظ ہوتے ہی عدالت سے کھسک کر گھر پہنچ گئے تھے، مگر فیصلے کے بعد نیب کی ٹیم انہیں گرفتار کرنے کیلئے زرداری ہاؤس میں جا داخل ہوئی، یہ وہ لمحات تھے جب ایوان میں اپوزیشن لیڈر اور سابق خادم اعلی کا خطاب شروع ہوا، انہوں نے اسپیکر سے اس شخص کے پراڈکشن آ رڈرز جاری کرنے کا مطالبہ کیا جسے بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ہی انہوں نے مسٹر ٹین پرسنٹ کا بین الاقوامی خطاب عطا ء کیا تھا، جس کی انتڑیوں سے وہ عوام کا لوٹا ہوا پیسہ برآ مد کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے، بس یہی چار لفظ تھے پراڈکشن آ رڈر جاری کرنے کے مطالبہ کیلئے، اس کے بعد شہباز شریف نے ایوان میں زیر بحث موضوع ہی تبدیل کر دیا، انہوں نے اپنے اور اپنی حکومت کے کارنامے گنوانا شروع کئے،اپنی بے گناہیاں بیان کرنا شروع کیں ، آ صف علی زرداری ان کے ذہن و دماغ سے محو ہو چکے تھے، انہوں نے شیخ رشید اور ان کے محکمے کے لتاڑے لئے، کیا یہ وقت تھا فواد چوہدری پر پھبتیاں کسنے کا؟ شہباز شریف کا دوغلا مصالحتی رویہ ان کا کسی کام نہ آیا۔ اگلے روز منگل کو ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت بھی مسترد ہو گئی اور نیب نے انہیں حراست میں لے لیا۔ شہباز شریف کو سہولتیں دینے کے پیچھے کون ہے؟ یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ عمران خان بحیثیت وزیر اعظم ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ کسی طور مصالحت نہیں چاہتے۔ ایک اڑتی ہوئی غیر مصدقہ خبر یا دعویٰ یہ بھی ہے کہ نواز شریف نے جیل سے مریم نواز کے موبائل سے ان کے ساتھ رابطہ کیا اور انہیں وارننگ دی کہ اگر وہ پھر واپس لندن لوٹ جاتے ہیں تو خاندان میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔ اب دیکھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی اعلیٰ قیادت جیلوں میں پہنچ چکی ہے تو شہباز شریف اپوزیشن کے ممکنہ احتجاجی تحریک میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ آصف زرداری جن کے پراڈکشن آ رڈرز کا پیر کے روز اپوزیشن مطالبہ کر رہی تھی ان کا بیٹا انہیں نیب کی گاڑی میں بٹھا کر واپس ایوان میں پہنچ چکا تھا، بلاول بھٹو کو خطاب کی دعوت دینے کی بجائے مائیک فواد چوہدری کے حوالے کیا گیا، شاید فواد چوہدری کو آ صف زرداری سے قربتوں کے دن یاد آ ئے ہوں گے، انہوں نے مختصر سا غیر جذباتی خطاب مکمل کیا تو اسپیکر صاحب نے ایوان کا سب سے بڑا ہتھیار شیخ رشید کے سپرد کردیا، ان کے اس فیصلے پر پیپلز پارٹی والوں کا احتجاج شروع ہوگیا۔ (جاری ہے) ، ڈائس کا گھیراؤ کر لیا گیا اور مسلسل نعرے بازی کی گئی، اس دوران دو تین بار شیخ رشید نے بولنا شروع کیا، شیخ رشید کی آ واز پیپلز پارٹی کے احتجاج پر بھاری تھی، وہ شہباز شریف کے الزامات کا جواب دینا چاہتے تھے، جواب انہوں نے دے بھی دیا اور ان کے جواب دینے کی تصدیق خود جناب اسپیکر نے بھی کردی، لیکن اس کے باوجود مائیک بلاول بھٹو کو دینے کا اعلان نہ کیا گیا، اسپیکر صاحب دس منٹ تک دومنٹ دو منٹ کا ورد کرتے رہے، مسلہ حل نہ کیا، شاید یہی پیر کے اجلاس کا ایجنڈا تھا کہ بلاول تقریر نہیں کرے گا، دوران خطاب شیخ رشید نے نہ صرف یہ اعلان کیا کہ اگر آ ج شیخ رشید تقریر نہیں کرے گا تو پھر تقریر بلاول بھی نہیں کرے گا، شیخ رشید نے حکمیہ انداز میں اسپیکر سے مخاطب ہوتے ہوئے انہیں ایڈوائس کیا کہ اجلاس ملتوی کر دیا جائے، ہوا بھی ایسے ہی، اس آ خری منظر کو دیکھنے والوں کا خیال ہوگا کہ بلاول کی تقریر نہ ہونے کا اعزاز شیخ رشید کو ملنا چاہئیے، ایسا قطعی نہیں ہے، اگر جناب شہباز شریف اس دن ایوان کے پندرہ قیمتی منٹ اپنی تعریف و توصیف میں ضائع نہ کرتے تو شاید ایوان کی کارروائی کا انجام مختلف ہوتا، لوگ شک نہ کریں تو پھر پک بھی کیسے کریں؟ کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی امامت میں اپوزیشن کے اجتماعی استعفے آ سکتے ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا مولانا صاحب کوئی شہباز شریف سے مختلف چیز ہیں؟ جو لوگ شہباز شریف پر این آ ر او کا الزام لگاتے ہیں وہ یہ کیسے سوچ رہے ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی استعفوں یا احتجاجی تحریک کے حوالے سے آ سانی سے ایک پیج پر آ جائیں گے، ن لیگ پنجاب میں احتجاجی تحریک کی بات ضرور کرتی رہے گی لیکن اگر بلاول بھٹو سندھ سے جتھے لے کر پنجاب پہنچ بھی جاتے ہیں تو ان کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو ماضی میں شریف برادران بینظیر بھٹو کے ساتھ کرتے رہے ہیں، پچیس جولائی دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد بنائے گئے نئے نظام حکومت کو ڈھانے کے لئے صرف مہنگائی کا جن کافی نہیں ہے، ابھی لوگ تھکے ضرور ہیں، ٹوٹے نہیں ہیں، انہیں اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کا تختہ الٹانے سے ڈالر اور سونا پرانی قیمتوں پر واپس آ جائیں گے اور آ ئی ایم ایف کی مانی گئی شرائط کے الفاظ سفید ہو جائیں گے، کیونکہ ان شرائط پر تو عمل بھی ہو چکا، جس کے گھر میں آ ٹا بھی نہیں ہے اس کے خالی کنستر کی تلاشی بھی لی جا رہی ہے،لوگ خالی کنستروں کے منہ کھولے سوچ رہے ہیں اعتبار کس پر کریں؟ ہمیں اپوزیشن قیادت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے لیکن معروضی حالات کی نفی کرکے نہیں، یقینی طور پر پاکستان کی جمہوری تاریخ میں یہ پہلی حکومت ہے جس نے اپنے قیام کے نو ماہ گزرنے سے بھی پہلے پاکستانی عوام میں طبقاتی تضاد کی جڑیں جتنی مضبوط کیں، پچھلی حکومتیں ستر سال میں بھی اتنا بڑا کارنامہ انجام نہ دے سکیں، وہ لوگ جو آ سانی سے کم از کم دو وقت کی روٹی کھا لیا کرتے تھے، راتوں رات اس سے بھی گئے، جو ایک روپے سے دو آ نے دوسروں میں بانٹ دیا کرتے تھے وہ خود خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ گئے، دیہاڑی دار مزدوروں کی بے روزگاری میں کئی سو گنا اضافہ ہو گیا، غریبوں کی تعداد پہلے ہی لا تعداد تھی،اب حالت یہ ہے کہ سفید پوش لوگ سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے بھکاریوں پر رشک کرنے لگے ہیں، اب وہ وقت ہے جب انقلابات کی شروعات ہوتی ہیں، حالات جیسے بھی ہیں یہ ہمارا پاکستان ہے، طوفانوں میں گھرا ہوا پاکستان، اس کی بربادیوں کا ذمہ دار کوئی ایک فریق کوئی ایک ادارہ نہیں ہے، جس کا جتنا بس چلا اس نے اسے اتنا ہی کاٹ کھایا، لوگ جمہوریت اور سیاست کی سر بلندی کیلئے جانیں قربان کرتے رہے لیکن اس کی مکمل نگہبانی میں ناکام رہے، اس بات کا مٹھی بھر دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا، چند لوگ غیروں کے آ لہ کار بن گئے، کچھ لوگ چھوٹے چھوٹے مفادات کی تکمیل کیلئے وطن عزیز کا نقشہ ہی چاٹتے رہے، آ ج پھر وہی حالات ہیں، ملکی وحدت خطرے میں ہے، اکائیاں سیاست کا محور بنتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں، ہمیں روایتی سیاست اور سیاسی تضادات و مفادات سے علیحدگی اختیار کرنا ہوگی، ملک اور ملک کے حالات سب کیلئے یکساں ہیں، نتیجہ بھی یکساں بھگتنا پڑے گا، اس بات کا سب سے زیادہ ادراک حکومت کو ہونا چاہئیے، حکومت کو اپوزیشن کے خلاف اپنا لہجہ بدلنا ہوگا، کیونکہ نہ کوئی مسلم لیگ میں غدار ہے نہ پیپلز پارٹی میں۔۔۔۔۔ غدار تو اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ انہوں نے ریاستی اداروں کو بھی کھلم کھلا چیلنج دینا شروع کر دیا ہے، تمام ریاستی ادارے بھی یاد رکھیں کہ ساری سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادتیں محب وطن ہیں اور اپنے اداروں کے ساتھ کھڑی ہیں،آ خری گزارش یہ ہے۔۔۔۔۔ادارے بھی ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کی حدود و قیود کا خیال کریں، وکلا برادری ٹکڑوں میں بٹنے کی بجائے چیف جسٹس پاکستان کے اس اعلان پر اعتبار کرے کہ حکومت کسی جج کو نہیں ہٹا سکتی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دوسرے دو ججوں کے خلاف ریفرنسز پر سپریم جوڈیشل کونسل کا حتمی فیصلہ سورج کی نئی کرنیں بکھیر سکتا ہے، ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کریںگے تو اندھیرے کبھی نہیں چھٹیں گے۔۔۔