ہمارے خطے کا جیوپولیٹیکل( جغرافیائی سیاسی)منظرنامہ تیزی سے بدلتاچلا جارہا ہے،رجائیت پسند طبقے کا خیال ہے کہ اس تیزی سے بدلتے منظر نامے کی بدولت وہ پاکستان کے جیو سٹریٹیجک(تزویراتی)نقطہ نظر میں تبدیلی کو محسوس کررہے ہیں۔بعض یہ یقین رکھتے ہیں کہ مذکورہ تبدیلی بڑے پیمانے پرجیو اکنامک( جغرافیائی معیشت) کے گردگھوم رہی ہے،اگر ایسا ہی ہے تو یہ بہت واضح نظریاتی تبدیلی ہوگی۔لیکن ہمارے ریاستی اداروں کے بیانات میں اس تیزی سے بدلتے منظرنامے کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا،یا شاید وہ اس کو مختلف طریقے سے دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے خراب معاشی اشارے ایسے خیالات کو وزن نہیں دیتے ہیں کہ ریاست اپنے جیوسٹریٹجک یا جیو اکنامک نقطہ نظر کو مستحکم کرنے کے لیے ایک مخصوص حد تک جتن کررہی ہے۔ یہاں تک کہ پاک چائنااقتصادی راہداری (سی پیک) ، جو ملک کی کمزور معیشت کے لئے گیم چینجر کی حیثیت سے مثال بنا کرپیش کی گئی تھی ، ریاستی اداروں کی عدم توجہی کا شکار ہوگئی ہے۔تاہم ، جو طبقہ پاکستان کے جیوسٹریٹجک طرز عمل میں تبدیلی دیکھ رہا ہے وہ محض معاشی سے متعلق دلائل پر قابض نہیں ، بلکہ یہ خاص طور پر افغانستان کی طرف ریاست کے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی طرز عمل پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ افغانستان کے امن عمل میں پاکستان کا کردار بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے معاہدے کو ممکن بنانے میں پاکستان کی مددگار کے طور پر وسیع پیمانے پر تعریف کی گئی۔ لیکن اس عمل اور مدد سے بھی پاکستان کے جیو سٹریٹیجک( تزویراتی) نقطہ نظر میں کسی تبدیلی کی جھلک محسوس نہیں ہوتی ، بلکہ اس کے بجائے اپنے دیرینہ مؤقف کی حمایت نظر آتی ہے؛ یہ طویل عرصے سے اس پہلو پرزوردے رہی ہے کہ طالبان اور دیگر افغان اسٹیک ہولڈرز کے مابین مذاکرات کامیاب کروانا افغانستان کے لئے ایک قابل عمل حل ہے۔ پاکستان نے لا تعداد وجوہات کی بنا پر امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات میں سہولت پیدا کی ہے:اول یہ کہ امریکا نے مذاکرات سے متعلق پاکستان کے مؤقف کو تسلیم کیا، مزید یہ کہ روڈ بیلٹ اور سی پیک نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ چین اس کلیدی بیلٹ کے معاملے میں کسی بھی قسم کا تنازعہ نہیں چاہتا۔ اسی طرح، پاکستان کی سیکورٹی کے خدشات کے ساتھ ساتھ اپنی عالمی عکاسی کی جدوجہد اہم عوامل ہیں،تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سٹریٹجک نظریہ اس عمل میں تبدیل ہوتا نظر نہیں آ رہا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کو متعدد اسٹریٹیجک چیلنجز کا سامنا ہے۔یہ چیلنج تب سے مزید پیچیدہ ہوتے محسوس ہو رہے ہیں جب بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا۔ پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے سامنے اور متعلقہ جملہ پلیٹ فارم پر خاص طور پر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے اس مسئلے کو اٹھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔پاکستان کی اس ضمن میں کی جانے والی مساعی کے مفید نتائج برآمد ہو ئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا او ر انسانی حقوق کی تنظیموں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے ہونے والے مظالم کو سنجیدگی سے لیا ہے۔تاہم ، پاکستان اس قدر دنیا بھر سے سیاسی اور سفارتی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکاکہ جس کی وجہ سے ،پاکستان بھارت کو کشمیر میں ہونے والے وحشیانہ طرزِ عمل پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرسکتا۔چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے مؤقف کی بھرپور حمایت کی تھی لیکن چین کی یہ بھرپورحمایت بھی بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لئے کافی نہیں تھی۔ تاہم پاکستان کی مساعی کو اس وقت حقیقی دھچکا لگاتھا، جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سربراہی میں مسلم بلاک نے اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کے پلیٹ فارم کو کشمیر کے لیے استعمال کرنے سے روک دیا تھا۔ پاکستان جنوبی ایشیا کوبہت کم اہمیت دیناہے یا پھر یوں کہیے کہ پاکستان کے نظریاتی ڈھانچے کے فریم ورک میں جنوبی ایشیا فٹ ہی نہیں بیٹھتا۔ البتہ پاکستان کے ساتھ ایشیائی ممالک کے تعلقات خطہ کے سیاسی اور جغرافیائی مفادات کے حوالے سے اہم اثاثہ ہیں۔ بجائے اس کے کہ مستحکم اصلاحاتی ڈھانچہ متعارف کروایا جائے پاکستان امید و بیم کی فضا میں معاشی بحالی کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مقتدر حلقوں کے اقدامات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کی خطہ میں جغرافیائی اہمیت پر ہی انحصار کئے ہوئے ہیں۔ جو ان کے خیال میں عالمی سرمایہ کاری اور امداد کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کے لئے کرشماتی اثر دکھا سکتی ہے۔ جوہری طاقت اور مضبوط فوج اس اعتماد کو بڑھوتی بھی دے رہی ہے۔اس سوچ کا مرکز افغانستان ہے جس کے ذریعے پاکستان عالمی حمایت کشید کر رہا ہے۔ افغانستان پاکستان کے لئے بھارتی پس منظر میں ہی اہم نہیں بلکہ اس کی پاکستان کے لئے سٹرٹیجک اہمیت بھی ہے اور امریکہ اس بات کو مزید ابھار رہا ہے۔ پاکستان کا افغان امن عمل میں کردار کی وجہ سے پاکستان کی عالمی سطح پر اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان طالبان اور امریکہ کے درمیان عدم اعتماد کو کم کرے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرتا جائے مگر بدقسمتی سے پاکستان کی یہ مدد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی طرح بھی معاون ثابت نہیں ہو رہی۔ دوسرے پاکستان کی امریکہ اور چین کے تعلقات میں توازن قائم کے چکر میں سی پیک پر توجہ متاثر ہو رہی ہے جو پاکستان کے معاشی بحران سے نکلنے کے لئے واحد اور اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان افغان صورتحال کو موثر انداز میں اپنے حق میں استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ جس کی وجہ سے مبصرین کے خیال میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے بلیک لسٹ کرنے کا خوف ہے اور ایف اے ٹی ایف ہی پاکستان کو امریکہ کی افغانستان کے حوالے سے بھر پور مدد کے لئے مجبور کر رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف ہی وہ خطرناک عنصر ہے جو افغانستان امن منصوبے کے بدلے میں پاکستان کو فائدہ اٹھانے سے باز رکھے ہوئے ہے پاکستان کو امریکہ اور چین کے تعلقات میں توازن قائم رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان کی امریکہ سے تعلقات کے نشیب و فراز کی پرانی تاریخ ہے مگر اب اس صورتحال کو مزید برقرار رکھنا مشکل ہے۔ کیونکہ اب پاکستان کے چین سے جیولولیکل جیواکنامیکل اور سٹرٹیجک معاملات کی نوعیت تبدیل ہو چکی ہے گزشتہ دو برس سے ابھرنے والا یہ تاثر کہ پاکستان امریکہ سے اپنے تعلقات کی سردمہری ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ‘بیجنگ اور اسلام آباد کے تعلقات میں حائل آ رہا ہے اور سی پیک کی رفتار میں سستی اس خطے کو مزید گہرا اور مشکوک بنا رہی ہے۔ حاصل گفتگو یہ کہ پاکستان اپنی جغرافیائی اور سیاسی ترجیحات کوموزونیت کا جتن کر رہا ہے اور جیوسٹریٹجک معاملات میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں کر پا رہا پاکستان کی جیوسٹرٹیجک ڈاکٹرائن پاکستان کی معاشی مشکلات اور ہمسایوں سے تجارت میں جوہری تبدیلیاں لا سکتی ہے۔ پاکستان کے میگا پراجیکٹ اور توانائی کے منصوبوں کی تعمیر کی رفتار کو بڑھایا جا سکتا ہے بس اس کے لئے پاکستان کو تھوڑی سی ہمت کرنا ہو گی۔ سی پیک اور افغانستان سے جڑے رہنا اور معاشی اصلاحات اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے مگر اس سب کچھ کے لئے آئوٹ آف باکس فیصلے کرنے کی جرأت اور بہادر لیڈر شپ کی ضرورت ہو گی۔ جیو سٹریٹجک اہمیت کی عینک سے معاشی بحالی کی کوششوں کو ڈاکٹرائنل شفٹ نہیں کہا جا سکتا۔