ہماری طرف سے یہ بہت اچھی بات کہی جاتی رہی کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں نکل سکتا‘مذاکرات ہی سے مسئلہ حل کرنا ہو گا لیکن اسے شومئی قسمت کے لئے یا ہماری سچ بات کی ناقدردانی کہ طالبان نے مسئلے کا فوجی حل نکال لیا اور پورے افغانستان پر‘سوائے وادی پنج شیر کے قبضہ کر لیا۔ہم نے کہا تھا کہ طالبان کا ملٹری ٹیک اوور قبول نہیں کریں گے لیکن ہمارا یہ انتباہ بھی نظرانداز کر دیا گیا اور طالبان نے وہی ٹیک اوور کر لیا جو ہمارے خیال میں انہیں نہیں کرنا تھا یا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اب ہمیں دیگر کئی الجھنوں کے ساتھ اس الجھن کی سلجھن بھی درکار ہے کہ طالبان کو کیا نام دیا جائے‘کس نام سے پکارا جائے۔عرصہ گزرا وہ مجاہدین تھے۔پھر رت بدلی‘ڈالروں نے دل گد گدایا اور ہم نے انہیں دہشت گرد قرار دے ڈالا۔ٹی وی چینلز پر چاک و چوبند تجزیہ کار نمودار ہوئے، جس نے انہیں دہشت گرد اور خارجی قرار دینے میں ایڑی ٹوپی کا زور لگا دیا(چوٹی زیر نظر منظر نامے میں موجود نہیں تھی) اب وہی کھیپ انہیں مجاہدین قرار دے رہی ہے اور اذا جاء نصراللہ کی آیت مقدسہ کا حوالہ بھی دے رہی ہے۔رنگ بدلنے میں دیر ہی کیا لگتی ہے۔بہرحال ریاستی یعنی مملکتی یعنی حکومتی سطح پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔وفاقی وزیر فواد چودھری کو وزیر اعظم نے اس اشو پر اہم ذمہ داری سونپ دی ہے شاید وہ مسئلے کا حل نکال سکیں۔شاید کیا‘یقینا وہ نکال ہی لیں گے‘ان کی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جا چکا ہے۔ وہ ایسی ہستی ہیں جس نے اپنی وزارت سائنس کے زمانے میں اس حقیقت کا انکشاف کیا تھا کہ خلائی سائنس کا سب سے بڑا عالمی ادارہ ناسا امریکہ نہیں‘پاکستان کی ملکیت میں ہے۔ ٭٭٭٭ صورت حال بظاہر تسلی بخش نہیں ہے لیکن یہ باطن ہے۔مقتول کمانڈر احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود نے وادی پنج شیر میں طالبان کے خلاف مزاحمت شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔شنید ہے کہ ان کے پاس دس ہزار کی اپنی تجربہ کار فورس پہلے ہی موجود ہے جس نے سوویت حملے کی کامیاب ترین مزاحمت کی تھی اور اب تو یہ بھی اطلاع ہے کہ افغان ایلیٹ فوج کے بھگوڑے دستے بھی ان کے ساتھ مل گئی ہے۔احمد مسعود نے کہا کہ ان کے پاس بہت اسلحہ ہے۔ صوبہ بغلان میں تو طالبان کے خلاف بغاوت بھی شروع ہو گئی ہے۔طالبان بہت سمجھدار ہو گئے ہیں‘امید ہے یہ سمجھداری بھی کر ہی ڈالیں گے کہ فی الحال پنج شیر کو نظرانداز کر دیں۔پنجابی محاورے کے مطابق فی الحال ان سوئے ہوئے شیروں کو سوتا ہی رہنے دیں۔سوئے ہوئے تو وہ بھی نہیں ہیں لیکن بس محاورتاً عرض کر دیا ہے۔جب تک وہ وادی کے اندر ہی ہیں‘انہیں سوتا ہوا سمجھنے میں کوئی خرابی نہیں۔قیاس غالب یہ ہے کہ احمد مسعود دیوار کو ٹکرّ نہیں ماریں گے۔ ٭٭٭٭ وزیر اطلاعات فواد چودھری کے ذکر سے یاد آیا‘حکومت نے پچھلے دنوں جو فہرست جاری کی تھی‘اس کے ساتھ ایسا نقشہ بھی جاری کر دیا تھا جس میں مقبوضہ ہی نہیں‘آزاد کشمیر کو بھی بھارت کا حصہ دکھا دیا تھا۔اس پر ایک ٹی وی شو میں بہت مقبول میزبان یعنی اینکر پرسن نے احتجاج کیا اور فواد چودھری کو بھی یاد کیا۔چودھری صاحب تشریف لائے اور ایسے کسی نقشے کے جاری کرنے سے انکار کر دیا۔میزبان نے سکرین پر وہ نقشہ چلا دیا۔ اس پر وزیر موصول جھلائے اور کہا‘آپ بھارت کی محبت میں مبتلا ہیں۔اب اس جواب پر کیا تبصرہ کیا جائے۔ہاں برسبیل تذکرہ یہ یاد دلا دینا موجب سزا نہیں ہونا چاہیے کہ کچھ ہی عرصہ قبل وسط ایشیا میں ہونے والی ایک کانفرنس میں یہی نقشہ سٹیج پر آویزاں کیا گیا تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ یہ نقشہ پاکستانی حکومت کی طرف سے آیا ہے‘اس کا منظور شدہ ہے۔ اس خبر کی تردید نہیں آئی۔اپوزیشن نے کچھ شور شرابا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ مثبت رپورٹنگ میں دب کر رہ گیا۔اب جو نقشہ سامنے آیا ہے۔اس کی تردید بھی نہیں آئی۔وضاحت بھی نہیں‘معذرت کا تو خیر سوال ہی کہاں۔ سوال یہ ہے کہ زیادہ اہم کیا بات ہے؟نقشہ جاری ہونا یا اس کی تردید بھی نہ ہونا۔آپ کا کیا خیال ہے؟ ٭٭٭٭ احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکمران اتنے تسلسل سے جھوٹ بولتے ہیں کہ سچ لگنے لگتا ہے۔ احسن صاحب الٹ بات بول گئے۔سیدھا بول یہ ہے کہ حکمران اتنے تسلسل سے سچ بولتے ہیں کہ جھوٹ لگنے لگتا ہے۔ مثال حاضر ہے۔حکومت مسلسل یہ سچ بول رہی ہے کہ اس کی پالیسیوں کی بدولت معیشت بحران سے نکل آئی‘خوشحالی کا سفر شروع ہو گیا۔ دیکھیے کتنا کھرا سچ ہے اور پھر دیکھیے کہ عوام اس ’’سچ‘‘ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔سچ ہے‘سچ اتنے تسلسل سے نہیں بولنا چاہیے۔ ٭٭٭٭ پی ڈی ایم کا مردہ زندہ کرنے کی پھر ایک کوشش ہو رہی ہے۔شاید چوتھی یا پانچویں‘کتنی اہم خبر ہے لیکن لوگ اہمیت ہی نہیں دے رہے۔وہی شیر آیا‘شیر آیا والا ماجرا ہو گیا ہے۔ لیکن ’’شیر آیا والے ماجرے کے آخر میں سچ مچ شیر آ جاتا ہے۔اللہ عمران خاں کی نیک پاک ایماندار عوام دوست‘ریلیف بار حکومت کو نظر بد سے بچائے۔