مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ یہ نوحہ کیسے لکھوں۔کس کا ماتم کروں‘کس کو الزام دوں۔کہنے والے اپنے اپنے انداز میں تجزیے کر رہے ہیں مگر دل مطمئن نہیں ہو رہا۔اس اتوار میں سیالکوٹ میں ایک ذاتی کام سے تھا۔جس محفل میں تھا اس میں شہر کے بہت سے باخبر لوگ موجود تھے۔سب کی رائے تھی کہ فیکٹری مالکان نیک نام لوگ ہیں۔5ہزار کے قریب ملازمین ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس برانڈ کی شہرت ہے، مذہب کے بارے میں بھی مثبت رویہ رکھتے ہیں اور جو فیکٹری منیجر لقمہ اجل بنا ہے‘وہ ایک اچھا تجربہ کار منیجر تھا، دس سال سے اس فیکٹری میں کام کر رہا ہے۔ماضی میں بھی کبھی اس سے مذہب مخالف رویہ ظاہر نہیں ہوا تھا۔وہ ایسا آدمی ہی نہ تھا۔ واپسی کے سفر پر میں سوچنے لگا‘کہیں یہ کسی مخالف برانڈ کا کیا دھرا تو نہیں۔پھر میں نے اس خیال کو بھی جھٹک دیا اس بات پر تو میرا یقین ہے کہ یہ نری مذہبی جذباتیت کا مسئلہ نہیں ہے۔یقینا مجمع کو مذہب کے نام پر بھڑکایا گیا ہو گا۔ہمارے ہاں ایسا ہوتا آیا ہے۔ایک بار نہیں کئی بار۔اکثر بے گناہ لوگ مذہب کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں‘بلکہ انہیں ناموس مصطفی کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔کئی مثالیں ہیں کہ نہ صرف کہ یہ گناہ اس سے سرزد ہی نہیں ہوا ہوتا ہے بلکہ وہ دل سے ایک سچا مسلمان یا عاشق رسول ہوتا ہے۔حافظ قرآن لوگ بھی اس گھنائونے پروپیگنڈے کی بھینٹ چڑھے۔ہم مذہب سے کس طرح اشتعال دلانے کا کام لیتے آئے ہیں۔اس کی کئی ایک مثالیں دی جا سکتی ہیں۔تاہم یہ واقعہ ایسا ہے کہ جس کی ہر مکتب فکر اور ہر مزاج کے دینی حلقوں نے مذمت کی ہے ۔ مذہب کے نام پر مشتعل ہونے کے لئے کسی خاص گروہ یا جماعت سے تعلق ہونا ضروری نہیں۔غازی علم الدین شہید کسی جماعت کے رکن نہ تھے۔بس غیرت ایمانی نے جوش مارا۔ہاں یاد رہے کہ یہ واقعہ کہیں فضا میں نہیں ہوا تھا۔انگریز کا زمانہ تھا‘توہین رسالت کا کوئی قانون موجود نہ تھا(توہین مذہب کا البتہ تھا) انصاف کی کوئی توقع نہ تھی۔انگریز سامراج اپنے پورے طاغوتی کروفر کے ساتھ اس واقعے کو نظر انداز کر رہا تھا۔اس صورت میں بنیا ذہنیت دل ہی دل میں مسلمانوں کی غیرت کو چیلنج کر رہی تھی۔ ایسے میں اس طرح کے واقعے کا ہونا لازمی تھا۔یہ وہ واقعہ تھا جس کے لئے قائد اعظم اور علامہ اقبال تک آگے آئے۔اقبال نے تو یہ کہا کہ تر کھانوں کا بیٹا بازی لے گیا۔ ایک محفل میں یہ بھی سنا کہ ہم جیسے ایسے واقعات کو اچھالتے ہیں تو نتیجہ یہی نکلتا ہے۔یہ ایک احمقانہ رائے ہے۔قائد اعظم‘علامہ اقبال کی بصیرت کو نہ سمجھنے کا معاملہ ہے۔علماء میں ابوالحسنات جیسے جید علماء بھی صف اول میں تھے۔اس کا پس منظر بیان کر چکا ہوں۔توہین رسالت کا قانون اس کے بعد ہی بنانا پڑا۔یہ درست ہے ہم نے پاکستان بننے کے کئی سال بعد اس قانون میں درج سزا میں اضافہ کر دیا۔وگرنہ یہ قانون پہلے سے موجود ہے۔ سو مذہب کو الزام نہ دیجیے۔بلکہ اس بات پر غور کیجیے مذہب کے نام پر لوگوں کو مشتعل کرنے والے کون ہیں۔میں سوچنے لگا‘اس میں ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس پر ہمارے ترقی پسند لبرل‘سیکولر حلقے غور کرنے کو تیار نہیں۔ہمیشہ تشدد کے رویے کو مذہب سے جوڑ دیتے ہیں۔ ‘میں نے کراچی میں ایم کیو ایم کو پروان چڑھتے دیکھا۔پاکستان میں اس سے پہلے ایسی خوفناک درندگی روا کہیں نہ تھی۔قطع نظر اس کے کہ اس تحریک نے کیسے جنم لیا‘مرا سوال یہ ہے کہ کیا اس کے پیچھے بھی مذہب تھا۔اس وقت تو کراچی کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مذہبی تھیں۔جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام۔زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سندھی قوم پرستوں کے مقابلے میں کھڑی کی گئی۔یہ لسانی تنظیم تھی یا کیا تھی‘مگر مذہب سے اس کا دور کا واسطہ نہ تھا۔ یہاں میں ایک اور بات کرنا چاہتا ہوں اس ملک میں ٹریڈ یونین کے نام پر ایسی تنظیمیں یا جتھہ بندیاں رہی ہیں جب مالکان کے خلاف ایسی نفرت پیدا کی جاتی کہ بعض واقعات میں تو مالکان کو تیل کی جلتی کڑھائی میں ڈال کر جلا دیا جاتا اور بہت سے واقعات ہیں۔حتیٰ کہ جب بھٹو صاحب آئے تو انہیں ایسی پہلی ہی تحریک کو طاقت کے زور پر باقاعدہ کچلنا پڑا۔میں نہیں کہتا کہ ٹینک چڑھا دیے یا انہیں بکتر بند گاڑیوں تلے کچل دیا گیامگر ایک اشتراکی انقلابی کو ایسی سختی دکھانا پڑی کہ شاذہی ایسی مثال ملتی ہے۔یہ نہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ پرولتاریہ کی آمریت قائم رکھنے والے نظریاتی طور پر متشدد ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ جان گئے تھے کہ دنیا کے کئی ممالک کی طرح یہ تحریک بھی آپے سے باہر ہو رہی ہے۔ہم ایسے واقعات کا ان زاویوں سے جائزہ کیوں نہیں لیتے۔ جب کراچی میں ایم کیو ایم زوروں پر تھی تو میں نے چند مضامین میں لوگوں کی نفسیات کا جائزہ لینے کی کوشش کی تھی۔اس میں چند ایسی مثالوں کا حوالہ دیا تھا جن سے پتا چلتا کہ فسطائی رویوں کے حوالے سے کیا نفسیات کام کرتی ہے۔اس کا خیال مجھے اس بات سے آیا کہ ایم کیو ایم کی تحریک کا آغاز نچلے طبقے سے نہیں‘ مڈل کلاس سے ہوا۔ایک ممتاز نفسیات دان کی کتاب مرے سامنے تھی جو فسطائیت کی نفسیات کا جائزہ لیتی تھی۔کس طرح ایک مڈل کلاس میں حبس اور چند دوسری محرومیاں مل کر ایک متشددانہ ذہن کی تشکیل کرتی ہیں۔ مرا مطلب اس ساری گفتگو سے یہ ہے کہ اپنی آنکھیں دوسرے عوامل سے بند کر لینے کی روش ترک کر کے ہی ہم اصل حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں۔جب تک ہم یہ نہیں کر لیں‘مسئلہ حل نہیں ہو گا۔کوئی پیغام پاکستان کا قومی بیانیہ بھی کام نہیں کرے گا۔اس لئے کہ جب اصل روٹ کاز سے آنکھیں چار کرنے سے اجتناب کیا جائے گا تو ہماری بصیرت اور بصارت دونوں ہی غلط ہوں گے۔