پہلے ایک شعر: تھوڑی سی وضعداری تو اس دل کے واسطے تونے تو اس میں وہم بھی پلنے نہیں دیا اپوزیشن کے اتحاد سے مجھے اردو ادب کی کانفرنس کا وہ سیشن یاد آیا جس میں ثمینہ راجا‘ فاطمہ حسن اور میں خاص طور پر ضیا محی الدین کو سننے کے لئے گئے۔ ادیبوں اور شاعروں سے بھرے ہوئے اس ہال میں ساری نظریں اس بے مثل پرزنٹر پر تھیں اور سب ہمہ تن گوش تھے۔ ضیا محی الدین نے ابن انشا کی تحریر پڑھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک عمر رسیدہ باپ نے اپنے تین بچوں کو بلایا جو ہر وقت جھگڑتے رہتے تھے اور اس بزرگ کو انہیں تنبیہ کرنا تھی یا اتفاق کا سبق دینا تھا۔ بابا نے انہیں ایک لکڑی لانے کے لئے کہا اور اس کے بعد اسے توڑنے کا حکم دیا۔ وہ ناخلف بچہ لکڑی ذرا موٹی لے آیا جسے توڑنا ممکن نہیں تھا۔ دوسرے بیٹے کو بلایا تو اس سے بھی یہ لکڑی نہ ٹوٹی۔ تیسرے نے زور لگایا تو اس کا گھٹنا ٹوٹ گیا۔ تینوں بیٹے آپس میں کہنے لگے کہ ہمارا والد پاگل ہو گیا ہے اس کا دماغ جل گیا ہے ۔ بابا جی نے یہ سنا تو کہنے لگا’’شکر ہے میرے بیٹے کسی بات پر تو متفق ہوئے‘‘ کچھ اسی طرح کا اتفاق اب کے اپوزیشن میں پایا جاتا ہے۔ اب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ’’اپنے اپنے بے وفائوں نے کیا یکجا ہمیں ’’بے وفا تو کوئی نہیں‘ دشمن بہرحال کھلا ہے۔ اب بتائیے کہ اپوزیشن کرے تو کرے کیا۔ لوگ بھی تو کسی حال میں جینے نہیں دیتے پہلے کہہ رہے تھے کہ اپوزیشن کی جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ ہر ایک جماعت پر الزام تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ملی ہوئی ہے اور دوسرے کو بے یارو مدد گار چھوڑ دینا چاہتی ہے۔ سینٹ کے چیئرمین سے لے کر صدر کے الیکشن تک ایسے ہی تھا‘ حتیٰ کہ عمران خاں کی حکومت قائم کرنے تک یہ سب کچھ جو ہوا اسے پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے ٹیکن فار گرانڈ لیا کہ یہ تو ان کا حق تھا۔ اس کے بعد انہوں نے سوچا کہ اب کرنا کیا ہے۔ بس یہیں ان کو یاد آیا کہ کرپشن ختم کرنی ہے اور کرپشن کا دوسرا نام ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہے۔ پھر کیا ہوا کہ دو ’’نابغہ روزگار‘‘ چنے گئے جو اس مشن کو مشین گن بن کر پورا کریں گے۔ فواد چودھری اور فیاض الحسن چوہان کو سامنے لایا گیا۔ یہ دونوں اصحاب عام سی بات بھی کریں تو لگتا ہے گالی دے رہے ہیں۔ لہجہ ایسا ہے مگر وہ عام سی بات تو کرتے ہی نہیں۔ ایک کو نرگس سے معافی مانگنا پڑ گئی۔ خیر جو بھی ہے دونوں نے دونوں جماعتوں کے بڑوں کی ناک میں دم کر دیا۔ پہلے تو وہ اسے عام اور معمول کی بات سمجھے مگر جب اوپر سے ان کی عملی تائید آئی تو پریشانی بڑھی۔ دوسری طرف سے ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ سیاسی چال چلی گئی شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر ہی نہیں پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین ماننا پڑا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی صورت تنگ آمد اور بجنگ آمد کی ہو گئی۔ وہی جو پنجابی میں کہتے ہیں کہ ’’آپ نہیں یا گاہک نہیں‘‘ کچھ پسپائی حملہ آوروں کو بھی اختیار کرنا پڑی کہ اتنا بڑا رسک لینے کا متحمل کوئی بھی نہیں ہو سکتا کہ سندھ کارڈ کھیلے جانے کے آفٹر افیکٹس برداشت کر سکے۔ بہرحال یہ قومی مفاد میں تھا۔ عدلیہ کا رول بہتر رہا کہ حکومت کی عجلت پسندی اور غیر محتاط چالوں کو غلط قرار دے دیا گیا۔ساتھ ہی ساتھ سیاسی جھٹکوں کے باعث دونوں بڑی جماعتوں کا دماغ ٹھکانے پر آ گیا۔ ان کی یادداشت بھی قدرتی طور پر واپس آ گئی کہ کوئی میثاق جمہوریت بھی ہوا کرتا تھا۔ بات یوں ہے کہ آپ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتفاق و اتحاد پر حیرت زدہ کیوں ہیں‘ یہ عین فطری اتحاد ہے۔ پوسٹیں لگائی جا رہی ہیں۔ نصرت بھٹو اور بے نظیر کی قابل اعتراض تصاویر جہاز سے پھینکنے والوں سے پیپلز پارٹی کو اتحاد’’مبارک‘‘ بھائی جان خود بے نظیر نے میثاق جمہوریت کیا تھا آپ جو بھی کہیں کہ اتحاد کرپشن بچانے کے لئے ہوا یا مزید کرپشن کرنے کے لئے لیکن ایک بات تو سوچنے کی ہے کہ اپوزیشن بہرطور پر جمہوری ہی نظام یا کسی بھی نظام میں ضروری ہے۔ اگر حکومت اپنے آپ کو اچھا ثابت کرتی ہے اور ڈیلیور کر پاتی ہے تو اپوزیشن خود بخود ختم ہوتی جائے گی۔ دونوں پارٹیوں کا موجود رہنا عمران خان اور جمہوریت کے لئے ضروری ہے اگر دو کارنر ہوتے ہیں تیسرے کو کارنر کرنا کچھ مشکل نہیں ہو گا۔ کیا کہوں: کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آگے ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں یہ بات ہوا میں اڑا دینے والی نہیں ہے‘ اب تو اس میں پردہ داری بھی نہیں رہی۔ کیا کروں ادب اور شعر کا معاملہ ہی ایسا ہے‘ سیاست پیچھے رہ جاتی ہے۔ بہرحال اچھا نہیں کہ سب کچھ عیاں ہو جائے اور یہی اچھا نہیں ہوا۔ سیاستدانوں کو سوچنا ہو گاکہ وہ بدنام کیوں ہو جاتے ہیں یا کسی کو انہیں بدنام کرنے کا موقع کیوں ملتا ہے۔ نہ جانے ہمارے اندر تشکیک کیوں ہے خود کالم نگاروں اور اہل دانش میں بھی اگر کوئی غلط بات پر چپ رہتا ہے تو جون ایلیا کا شعر پڑھ دیتے ہیں: بولتے کیوں نہیں مرے حق میں آبلے پڑ گئے زبان میں کیا اور اگر کوئی سچی باتیں عمران خان یا پی ٹی آئی کے بارے میں کہہ دیتا ہے تو کہتے ہیں اس کے پیسے بند ہو گئے ہیں۔ کہنا تو یہ چاہیے کہ ہم تنقید سنیں گے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے نواز شریف کے معاملے میں ہم اس تشکیک کے باعث کہتے ہیں کہ خاموش رہنے کا نتیجہ نکل آیا۔ اصل میں وہی نتیجہ چاہتے ہیں جو ہم نے سوچ رکھا ہے اگر اپوزیشن میں اتفاق ہو گیا ہے تو اچھی بات ہے چلیے کسی بات پر تو اتفاق ہوا ہے۔ یہ تو لوگ فیصلہ کریں گے کہ ان کے درمیان اتفاق بہتر تھا یا نفاق ۔ تھوڑی سی لچک ضروری ہے وگرنہ ٹہنی ٹوٹ بھی سکتی ہے راستہ صاف کرنا اور بات ہے‘ راستے سے کسی کو صاف کرنا مختلف بات ہے آخر میں دو شعروں کے ساتھ اجازت: حسرت وصل ملی لمحہ بیکار کے ساتھ بخت سویا ہے مرا دیدہ‘ بیدار کے ساتھ چشم غمناک لیے سینہ صدچاک سیے دور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ