مکرمی !چند روز قبل ایک دل خراش اور دل دہلا دینے والا واقعہ نظر سے گزرا جس میں ایک دماغی طور پر بیمار شخص کو پولیس نے مجرم سمجھ کر دوران تفتیش جیل میں ہی ہلاک کر دیا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے پولیس گردی کا ۔اس سے قبل بھی ساہیوال میں ایک خاندان پر دہشتگردی کا الزام لگایا گیا اور پولیس نے فائرنگ کر کے ان کو ہلاک کردیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے انسان کو جانوروں کی طرح مارنا اور وحشی درندہ بن جانا یہ دنیا کا کون سا مذہب یا کون سا قانون سکھاتا ہے مثال کے طور پر اگر وہ لوگ مجرم تھے بھی تو عدالت سے رجوع کریں جو طریقہ کار ہے اس پر عمل درآ مد کریں نا کہ خود لوگوں کو دوران تفتیش جان سے مار دیا جائے۔ صلاح الدین جس کی اے ٹی ایم مشین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ویڈیو تمام سوشل میڈیا سمیت چینلز پر بھی گردش کرتی دکھائی گئی۔ پولیس نے تو بے حسی اور درندگی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے جہاں بغیر مکمل تفتیش کے اسے جیل میں ہی ہلاک کردیا۔ اگر وہ مجرم بھی تھا یا پاگل بننے کا ڈرامہ بھی کر رہا تھا تب بھی یہ سلوک انتہائی غیر انسانی تھا اور جو پولیس افسران اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہی۔تو یہ سلوک ہمارے سسٹم پر سوالیہ نشان ہے جہاں بڑے بڑے قاتل اور مجرم رشوت دے کر بری ہو جاتے ہیں اور جھوٹے چوروں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اگر اسے تبدیلی کہتے ہیں تو ہمیں ایسی تبدیلی ہر گز منظور نہیں۔ (سدرہ اسلم )