نام اسکا تطہیر فاطمہ بنت پاکستان لیکن یہ مقدمہ تطہیر بنام پاکستان ہے جہاں آج بھی لوگ جھوم جھوم کر اولاد نرینہ کی د عا پرآ مین کہتے ہیں۔ بچپن میں جب مسجد میں یہ دعا کی جاتی تھی تو خیال ہوتا تھا کہ یہ کوئی خوبصورتی یا صحتمند اولاد کے لئے عربی یا فارسی کی اصطلاح ہے۔بڑے ہو کر پتہ چلا کہ یہ نر سے ماخوذ ہے اور اسکا مطلب ہے کہ صرف بیٹا پیدا ہو۔ آج تک کہیں بھی بیٹی کے لئے اس طرح کی دعا نہیں سنی۔مجھے گھر میں جو ماحول ملا اس میں بیٹی کا جو مقام ہے ، جو شفقت اور توجہ اسکے حصہ میں آتی ہے اسکے پیش نظر کبھی کبھی افسوس ہوتا تھا کہ میں بیٹی کیوں نہیں ہوں۔اور یہ تاسف اس وقت شروع ہوا جب ہم دو بھائیوں کے بعد تین بہنیں پیدا ہوئیں۔ ہمارے ایک قریبی عزیز نے والد صاحب کو کہا کہ بھائی صاحب تین بیٹیاں پیدا ہو گئی ہیں یہ تو مناسب نہیں ہے۔والد بزرگوار نے بہت ناگواری کا اظہار کیا اور کہا کہ بیٹا پیدا ہوتا ہے تو سات رحمتیں نازل ہوتی ہیں جب بیٹی پیدا ہوتی ہے تو رب ذوالجلال ستائیس رحمتیں نازل فرماتے ہیں۔تم مجھے کفران نعمت کا سبق دے رہے ہو۔یہ معلوم ہونے کے بعد ڈیپریشن مزید بڑھا اور کچھ احساس کمتری کا شکار سا ہو گیا کہ خدا کے ہاں بھی بیٹیاں ہم سے بہتر مخلوق ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور علم کی ترویج نے اس بات کو آشکار کیا کہ واقعی بیٹیاں ہم سے بہتر مخلوق ہیں۔اس لئے جب میری شادی ہوئی اور پہلے بچے کی آمد متوقع تھی تو بیگم سے پہلے پہل تکرار اسی بات پر ہوتی تھی کہ پہلی بیٹی ہونی چاہئے لیکن بیگم کا اصرار ہوتا کہ پہلے بیٹا ہو اور دوسری بیٹی ہو۔ بیگم صاحبہ کی اپنی منطق تھی۔انکے خیال میں سب سے بڑا فرد بھائی ہی ہونا چاہیے۔ جبکہ میرا خیال تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ لڑکیاں زیادہ ذمہ دار ہوتی ہیں۔یہ تکرار چلتی رہی پہلے دو بیٹے پیدا ہوئے اور بیٹی کی آس میں تیسرا بھی بیٹا ہی پیدا ہوا۔ راضی بہ رضا ہو کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ صحتمند اور بہترین اولاد سے نوازا۔ تطہیر فاطمہ کا جب یہ جملہ سنا کہ مجھے میرے باپ کا نام نہیں چاہئے۔ اس نے اپنا نام تطہیر بنت پاکستان رکھ لیا۔کانپ کر رہ گیا، کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک بیٹی ایسی کٹھور ہو۔ جبکہ روایتی طور پر بیٹی باپ کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ دل کڑا کر کے سپریم کورٹ میں چلنے والے اس مقدمے کی تفصیلات پڑھنی شروع کیں تو معلوم ہوا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ تطہیر کا والدشاہد ایوب ہے جو حیات ہے ،اپنے شجرہ نسب سے بیٹی کا نام ہی خارج کر چکا ہے۔ اس نیتطہیر کی والدہ فہمیدہ سے شادی کی،1998 میں ان کی علیحدگی ہوگئی۔شاہد ایوب کے دعوے کے مطابق پشاور میں خاندان کے جرگے نے اس سے کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔اور اس نے جرگے کے فیصلے پر اپنے جگر کے ٹکڑے سے نہ صرف کوئی تعلق نہیں رکھا بلکہ اس کی کفالت کی قانونی ذمہ داری سے بھی فرار اختیار کیا۔ جب دوسری شادی سے اولاد پیدا ہوئی اور خاندان تشکیل پایا تو موصوف نے تطیہیر فاطمہ کو اپنے خاندان کا حصہ ماننے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ میںشاہد ایوب کا موقف تھا کہ وہ 2002 میں بیٹی سے ملے تھے او رنادرا کے پاس اپنی بیٹی تطہیر کا نام لکھوانے کی کوشش کی تھی لیکن نادرا نے ان کا نام بلاک کر دیا۔ شاہد نے کیا کوشش کی اس سے قطع نظر تطہیر کا مقدمہ ہی اور ہے۔ میں انھیں والد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہوں ، وہ جس نے کبھی میرا نام نہیں لیا۔ ان کے خاندان کے شجرے میں میرا نام ہی موجود نہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں باپ کہاں ہے؟ کیا یہی تمھاری ماں ہے۔ میں نے سماجی سطح پر ذلت سہی ہے۔تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اپنا نام ’تطہیر بنت پاکستان‘ لکھا ہے اور یہی دراصل اس کا مطالبہ بھی ہے کہ وہ 22 برس کی عمر میں اپنے دستاویزات میں ولدیت کے خانے سے اپنے والد شاہد ایوب کا نام ہٹا دینا چاہتی ہیں۔ تطہیر کی والدہ نے اسکی بہترین پرورش کی اور وہ خود کہتی ہیں کہ آج وہ جو بھی ہیں اپنی ماں کی وجہ سے ہیں۔ تطہیر اور ان کی والدہ کو شکایت ہے کہ جب میٹرک میں انھیں فارم ب بنانے کی ضرورت تھی تو والد نے انکار کیا تھا۔ پھر جب گریجوایشن میں انھوں نے 2014 میں والد کو خود فون کیا تو والد نے صاف انکار کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ پہلے اپنی والدہ کے خلاف تھانے میں درخواست دو کہ وہ اچھی خاتون نہیں تو میں تمھارے لیے سوچوں گا۔ تطہیر اب گریجوایشن کر چکی ہیں۔ وہ نیشنل سطح پر سپورٹس میں بھی حصہ لیتی رہی ہیں جن میں جوڈو کراٹے اور تیراکی شامل ہیں لیکن شناختی دستاویزات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ پائیں، اور اب اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر جانا چاہتی ہیں لیکن ان کے پاس موجود شناختی کارڈ پر ان کے والد کے گھرانہ نمبر نہ ہونے کے باعث ان کا پاسپورٹ نہیں بن پا رہا۔ سپریم کورٹ اس بارے میں کوئی صائب فیصلہ ہی صادر کرے گی لیکن یہ ایسا مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ مجھے خود اس بات کا تجربہ ہوا جب ایک جاننے والے کی بیگم کا شناختی کارڈ صرف اس لئے نہیں بن رہا تھا کہ اس کی شادی اٹھارہ سال سے پہلے ہو گئی تھی۔ اسکا نام نادرا کے ریکارڈ میں اپنے و ا لدین کے ساتھ رجسٹر تھا۔ شادی کے بعد اکلوتا بھائی رہ گیا تھا جو بہن کی طرف سے جائیداد میں حصہ مانگنے پر ناراض تھا۔نادرا کی شرط تھی کہ وہ خاندان کا سربراہ ہے جب تک وہ نہیں آئے گا آپکا شناختی کارڈ نہیں بن سکتا۔تین چار سال کی تگ و دو کے بعد وہ اپنے خاوند کے نام کے ساتھ شناختی کارڈ بنوا پائیں اس میں بھی نادرا کے ہمارے ایک دوست نے ذاتی توجہ سے مسئلہ حل کرایا۔ ہمارے عقیدے کے مطابق قیامت کے روز ہر فرد کو اسکی ماں کے نام سے پکارا جائے گا۔تو دنیا میں اگر ماں کے نام سے بچے کی پہچان ہو گی تو کیا فرق پڑ جائے گا۔