پاکستان کی سیاسی و عدالتی تاریخ کا سب سے بڑا تو نہیں ، مگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہنگامہ خیز مقدمہ اس وقت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بینچ پر لگا ہوا ہے۔ہمارے محترم چیف جسٹس اگلے دو ہفتے بعد اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے کے بعد رخصت ہونے والے ہیں۔ اس لئے ان کے بعد چیف جسٹس ،جسٹس گلزار احمد ہی اس کی سماعت کریں گے۔ساری لعن طعن تحریک انصاف کی حکومت ،اُن کے وزیر اعظم اور وزیر ِ قانون پر ہو رہی ہے۔ کہ اپنی نا اہلی کے سبب انہوں نے ایک سیدھی صاف آئینی کارروائی کو الجھا کر خود کو تورسواکیا ہی، مگر وطن ِ عزیز کے سب سے مقتدر ادارے کو بھی متنازعہ بنا کر کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ یہ بھی یہاں بڑی دلچسپ بات ہے کہ صدر ،وزیر اعظم کے انتخاب اور تقرری میں تو آئین ِ پاکستان میں کوئی ابہام نہیں ۔ مگر آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کے بارے میں آئین خاموش ہے۔ فوجی حکومتوں کے دور میں تو آرمی چیف اپنی مدتِ ملازمت کا خود تعین کرتے ہیں۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی مثال سامنے ہے۔ کہ جنوری سن1951سے لے کر اکتوبر 1958ء تک افواج ِ پاکستان کے سربراہ رہے۔ پھر اکتوبر انقلاب کے بعد تو وہ آرمی چیف سمیت ریاست کے تمام ہی اداروں کے کلی اختیارات اپنے پاس رکھتے تھے۔حتیٰ کہ ،فیلڈ مارشل کا عہدۂ جلیلہ بھی انہوں نے اپنے ہی حکم سے ،اپنے سر پہ سجالیا۔ ۔ ۔ گورسمی طور پر اکتوبر 1958ء سے 1968ء تک جنرل محمد موسیٰ آرمی کے سربراہ تو رہے ، مگر بحیثیت جنرل ایوب خان کے ایک نائب کی حیثیت سے ۔ جنرل ایوب خان اپنے بنائے ہوئے 1962ء کے آئین کے تحت اس بات کے پابند تھے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد ملک کی سربراہی قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کردیں گے ۔ ۔ ۔ مگر جس غیر آئینی طور پر خود انہوں نے اقتدار حاصل کیا، اسی طرح جنرل محمد یحییٰ خان نے بھی یہ اقتدار اُن سے چھین لیا۔ ۔ ۔ جنرل گل حسن خان اور جنرل ٹکہ خاں آرمی کے سربراہ ضرور رہے ۔ ۔ ۔ مگر جس خاموشی سے آئے،اُس ہی طرح رخصت ہوگئے۔ بھٹو صاحب نے جب اقتدار سنبھالا تو انہیں اس بات کا پورا اختیار تھا کہ وہ میرٹ کی بنیاد پر آرمی سربراہی کی روایت ڈالتے۔مگر ماضی کے تجربے کے سبب ، انہوں نے یہ طے کیا کہ کسی فرمانبردار چیف کو آرمی کی سربراہی سونپی جائے۔ ۔ ۔ مارچ1976ء میں جنرل ضیاء الحق کو آٹھ جرنیلوں پر فوقیت دے کر فوج کی سربراہی دی گئی۔جنرل صاحب نے جولائی 1978ء میں نہ صرف بھٹو صاحب کو اقتدار سے محروم کیا ، بلکہ اپریل 1979ء میں انہیں تختۂ دار تک پہنچا دیا۔اور پھر بڑے ٹھاٹ سے اگلے ایک دہائی حکومت کرتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق کی ناگہائی موت کے بعد میرٹ پر جنرل مرزا اسلم بیگ ہی آتے تھے۔سو وہ اس عہدے پر فائز بھی ہوئے ۔اور اگست 1991میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر بھی ہوئے۔جنرل اسلم بیگ کی جگہ جنرل آصف نواز جنجوعہ نے اگست 1991ء میں فوج کی سربراہی سنبھالی ۔مگر جنوری1993ء میں ایک پراسرار سانحے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔جنرل عبد الوحید کاکڑ کی تقرری بھی میرٹ پر ہوئی ۔اور اس کے بعد جنرل جہانگیر کرامت کی بھی ۔مگر جنرل جہانگیر کرامت کو اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جس طرح رخصت کیا۔ ۔ ۔ اُس سے انہوں نے یہ پیغام دیا کہ منتخب وزیر اعظم ہی مکمل اختیارات کا حامل ہے ۔ ۔ ۔ اور اگر آرمی چیف اُس سے اختلاف کرے گا ،تو اُسے گھر جانا پڑے گا۔جنرل جہانگیر کرامت کوئی ڈیڑھ ایک سال فوج کے سربراہ رہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جس طرح جنرل کرامت کو رخصت کیا ،اُس سے ان کا اعتماد اتنا بڑھا کہ انہوں نے اپنے تئیں فرمانبردار آٹھ جنرلوں کی بھینٹ لے کر جنرل پرویز مشرف کو آرمی سربراہ بنایا ۔ ۔ ۔ اور پھر جس طرح اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف وزیر اعظم نواز شریف کے لئے بروٹس بنے۔ ۔ ۔ اس پر ہر ہر پہلو سے اتنا لکھا جاچکا ہے کہ اس میں مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی ۔ ہمارے جنرل مشرف صاحب نے بھی اپنی مدت ِ ملازمت میں نہ صرف خود ہی اضافہ کیا،بلکہ بیک وقت تین کیپ اپنے سرپہ سجائیں۔۔ ۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا خاتمہ نومبر 2007ء میں ہوا۔ اور ان کے بعد جرنل اشفاق پرویز کیانی کو یہ منصب سنیارٹی کی بنیاد پر ہی ملا۔ ۔ ۔ مگرانہیں بھی مزید تین سال کی مزید مدت دی گئی۔جس کا جواز یہ بتایا گیا کہ ملک افغان جنگ کے سبب حالتِ جنگ میںہے۔ نومبر 2013ء کو جنرل راحیل شریف کی تعیناتی میرٹ پر تھی۔اور پھر انکی ریٹائرمنٹ بھی مقررہ وقت پہ ہوئی ۔ ۔۔ یعنی 28نومبر 2016ئ۔ جنرل راحیل شریف کے بعد ہمارے موجودہ آرمی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے میرٹ پر ہی 29نومبر 2016ء کو آ رمی سربراہی سنبھالی ۔ اور روایت کے مطابق اپنی تین سالہ مدت ِ ملازمت پوری کرنے کے بعد 29نومبر کو انہیں ریٹائر ہوجانا تھا۔ ۔ ۔ مگر ایک بار پھر،ملک کے اندر اور باہر کشیدہ صورتحال کو جوازبنا کر تحریک انصاف کی حکومت نے ان کی مدتِ ملازمت میں تین سال کا اضافہ کردیا ۔ کہ جو کوئی بہت غیر متوقع نہ تھا۔ مگر جس طرح جنرل قمر باجوہ کی مدت ِ ملازمت میں اضافہ کیا گیا،اُس نے ایک ٹیکنیکل غلطی کے سبب ایک ایسا بحران کھڑا کردیا کہ جس کے سبب آج ادارے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔یا ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ایک گمنام وکیل نے جس طرح جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں اضافے کو چیلنج کیا ہے ،اُس نے ملک میں ایک بڑا آئینی بحران کھڑا کردیا۔ہمارے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس کیس کی ابتدائی سماعت کے دوران کہا کہ ماضی میں پانچ ،چھ با ر آرمی سربراہا ن اپنی مدتِ ملازمت میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔مگر یہ کبھی چیلنج نہیں ہوا۔ اور اب یہ کیس ان کے سامنے آیا ہے ،تو وہ اِس کی سماعت کریںگے۔ بصد احترام محترم چیف جسٹس سے یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بڑے بڑے نامور چیف جسٹس آئے ۔ آخر انہوں نے جب اس کا نوٹس نہیں لیا ،تو آج آپ کس بنیاد پر یہ پینڈورا بکس کھول رہے ہیں۔آئین خاموش ہے ۔اور کہا یہ گیا کہ آرمی ایکٹ سے ہی رجوع کرکے اس مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں اضافے کو پہلی بار چیلنج نہیں کیا گیا۔اس سے قبل اسلام آباد کے ایک وکیل انعام الرحیم نے جنرل کیانی کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو چیلنج کیا تھا۔ مگر اعلیٰ عدالتوںمیں اس کی شنوائی نہیںہوئی۔اور پھر سرے سے یہ فائل ہی بند کردی گئی۔جنرل باجوہ کا کیس جس ڈرامائی طور پر سامنے آیا ہے ،اُس کا جو بھی فیصلہ آیا ،یقینا مستقبل کی سیاسی تاریخ پر اس کے گہرے اثرات پڑیں گے۔اگر جنرل باجوہ کے مدتِ ملازمت میں اضافے کے فیصلے کو برقرار نہیں رکھا گیا تو اُس سے ایک نئی تاریخی سیاسی روایت کی بنیاد پڑے گی۔مگر ذرا اس کے لئے انتظار ۔