پنجاب ڈیلیور نہیں کرر ہا اور پنجاب کی وجہ سے تحریک انصاف پر دبائو بڑھ رہا ہے ، فواد چودھری صاحب سے منسوب ارشاد تازہ نظر سے گزرا تو میر یاد آگئے: کوئی دم کل آئے تھے مجلس میں میر بہت ا س غزل پر رلایا ہمیں ضبطِ گریہ کی کسی محفل میں خود احتسابی کا لمحہ مبارک سہی ، ، سوال مگر یہ ہے خود وفاق کے رخ روشن پر کارکردگی کے کتنے ہیرے موتی لعل جڑے ہیں؟ پنجاب میں وسیم اکرم پلس کی کارکردگی تو قابل اطمینان نہیں لیکن وفاق میں کپتان کی کارکردگی کون سی چشمِ غزلاں بنی ہوئی ہے؟دونوں کے طرز حکومت میںاس کے سوا آخر کیا فرق ہے کہ وفاقی وزیر کو اس بات کی آزادی ہے وہ وسیم اکرم پلس کے خلاف پوری فرد جرم مرتب کر دے لیکن پنجاب کی پوری کابینہ اس گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتی کہ دل ہی دل میں جناب وزیر اعظم کی کارکردگی پر سوال اٹھا لے؟ حکومت پنجاب کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں تو وفاق کی کارکردگی پر کون سے مشاعرے ہو رہے ہیں؟چپ چاپ سے، سادہ سے ہمارے وزیر اعلیٰ کے درجنوں ترجمانوں میں سے کوئی ہے جو کہہ سکے: ’’ د یکھ اے غنچے ، یہاں خندہ زنی خوب نہیںــــــ‘‘؟ خود احتسابی اور اصلاح احوال کی خواہش اگر بیدار ہو رہی ہے تو اس کا مخاطب جزو کو کیوں بنایا جا رہا ہے ، عقل کا تقاضا ہے کہ اس کا مخاطب کُل ہونا چاہیے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی جناب وزیر اعظم کی نگاہ انتخاب کا اعجاز ہے ورنہ میرٹ مرحوم پر جناب عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کا طعنہ دینے کی ہمت کس میں تھی؟مے خانے میںیہ کفر چشمِ ساقی ہی نے توپھیلایا ہے، رند تو اتنے باذوق نہ تھے۔بے تابی دل کے جتنے دیوان چاہے عثمان بزدارکی کمزور کارکردگی کے نام کر دیجیے لیکن ایسا بھی کیا بے بسی کہ مرکز کے نام ملک الشعراء ایک مصرعہ بھی نہ کہہ پائیں؟بتائیے تو سہی ، کارکردگی اور اہلیت کے باب میں وفاق کو پنجاب پر اور وفاقی وزراء کو صوبائی وزراء پر کتنے درجے کی ٖفضیلت حاصل ہے ۔ اگر خود احتسابی کی مشق ہے تو ادھوری اور ناقص۔لیکن کیا یہ خود احتسابی ہی ہے، اس کا جواب اثبات میں دینا مشکل ہے۔ کیا خبر یہ پنجاب میں اقتدار کی داخلی کشمکش کا اعجاز ہو اور یاروں نے اپنے دھڑے کے وسیع تر مفاد میں عثمان بزدار کے خلاف ایک اور فرد جرم عائد کر دی گئی ہو۔اس صورت میں یہ سوچنا وزیر اعظم صاحب کا کام ہے کہ پنجاب میں مسلسل ایک صف بندی کیوں ہے اور اس کے پیچھے کون کون سی شخصیات ہیں ۔ ازراہ مروت وہ چاہیں تو اس نکتے پر بھی غور فرمایا جا سکتا ہے کہ عثمان بزدار پر ان کا مسلسل اصرار ان کی جماعت کو مطمئن کیوں کر پا رہا ؟ تاہم اگر یہ خود احتسابی ہی ہے اور اس کی شان نزول داخلی کشمکش نہیں بلکہ خیر خواہی ہے تو اس ابر رحمت کا رخ وفاق کی سوکھی زمین کی طرف کیوں نہیں ہو رہا۔معیشت کی جس پرشکوہ عمارت کے ملبے تلے خلق خدا سسک رہی ہے اس کا افتتاح وفاقی وزیر قبلہ اسد عمر نے رکھا تھا جن کی معاشی بصیرت کے فضائل ہمیں عشرہ بھر سنائے جاتے رہے۔مہنگائی کے جس سونامی نے ہنستے بستے شہروں کا رخ کر لیا ہے اس کی شان نزول اسد عمر ہی کے تعویز ِ طلسم میں درج تھی کہ اے اہل وطن ہم نے آئی ایم ایف سے قرض نہیں لینا اس لیے اس مہنگائی کو جی جان سے قبول کر لیجیے۔ نونہالان انقلاب نے یہ سنا تو بغلیں بجانے لگے کہ مہنگائی تو اچھی ہوتی ہے۔آج آئی ایم ایف بھی ہے ، قرض بھی ہے ، کشکول بھی ہے اور مہنگائی کا عذاب بھی۔سوال اٹھا توارشاد ہوا: انہوں نے مہنگائی کو مصنوعی طریقے سے روکا ہوا تھا ، ہم اسے قدرتی شکل میں لا رہے ہیں۔اب عالم یہ ہے کہ لوگ کرپشن سے بڑا عذاب مہنگائی کو قرار دے رہے ہیں۔’’ نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا‘‘۔ جب زوال آتا ہے ، سونامی کی شکل میں آتا ہے۔ پھر سبھی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ اس میں پھر کمال کا کوئی جزیرہ آباد نہیں کیا جا سکتا۔جن پالیسیوں نے ملک کو یہاں تک لا پہنچایا ان میں پنجاب ، اس کے وزیر اعلیٰ یا اس کی کابینہ کا کیا کردار؟ علم و فن کے یہ جھرنے تو وفاق سے پھوٹ رہے ہیں۔ بے ضرر سے ہمارے بزدار صاحب کو تو سینگوں پر لیا جا رہا ہے لیکن مرکز میں کیا ہو رہا ہے؟ لوگوں کی حسرتیں لہو رو رہی ہیں اور ایوانوں میں مبارک سلامت کا شور ہے کہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ ــ’’ہے بجائے شورِ ماتم ، غل مبارکباد کا‘‘۔واہ صاحب واہ، پہلی مرتبہ صاحب پہلی مرتبہ۔ پنجاب میں تبدیلی کا آفتاب ہو یا وفاق میں تبدیلی کا ماہتاب ، دونوں کی چمک نظروں کو خیرہ کیے دی رہی ہے۔دونوں کی ترک تازی کا میدان سوشل میڈیا ہے۔زمین پر کیا ہو رہا ہے اس سے دونوں ہی بے نیاز ہیں۔بھولے بھالے سے وزیر اعلیٰ کے درجنوں ترجمان ہیں، جو بے چارے پریشان حال دہائی دیتے پھرتے تھے ۔لیکن نامہ اعمال میں ہے کیا جس کی وہ ترجمانی کریں؟ دعوی مگر یہ ہے کہ عثمان بزدار صاحب شیر شاہ سوری ثانی ہیں۔ بد خواہوں کے رخسار پر دھول پڑے ،اب ہے کوئی پٹواری جو اس کا انکار کرے؟ وفاق کا مخاطب بھی خلق خدا نہیں ، سوشل میڈیا ہے۔ مہنگائی کے روگ سے ، بجلی کے بلوں سے ، مہنگی ادویات سے لوگ لہو رو رہے ہیں اور بارگاہ وفاق سے اعلان ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر حکومت کی کار کردگی زیادہ سے زیادہ اجاگر کی جائے۔سوال وہی ہے : کون سی کارکردگی ؟ کیسے کارکردگی؟ کاہے کی کارکردگی؟یہ جو کچھ ہو رہا ہے کیا اسے کارکردگی کہا جائے گا؟بس اقوال زریں ہیں، بے روح سے ، بے معنی ہے ۔اول اول دکھ ہوتا تھا ، حیرت یہ ہے اب حیرت بھی نہیں ہوتی۔اس حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے کبھی لوگوں میں امید باقی تھی ، اب تو حسرت بھی نہیں رہی۔کبھی لوگ سوال کرتے تھے عمران خان قطر سے واپس کب لوٹیں گے ، اب ان کی قطر سے واپسی غیر اہم ہو چکی ہے ۔ زیادہ اہم سوال اب یہ ہے کہ ارطغرل بے قونیہ سے واپس کب آ رہے ہیں؟