گزشتہ سال پنجاب حکومت نے منصوبہ بنایا تھا کہ صوبہ کے تمام چھتیس اضلاع کے سرکاری اسکولوں میں چھتیس ہزار نئے کلاس رومز بنائے جائیں گے۔ یہ بہت اچھا پراجیکٹ تھا۔ اسکولوں کی استعداد میں اضافہ ہوجاتا۔ لاکھوں زیادہ بچوں کو داخلہ مل جاتا۔ لیکن خبر آئی ہے کہ اس سال منصوبہ میں کٹوتی کردی گئی ہے۔ اب صرف بارہ ضلعوں میں نئے کلاس رومز بنائے جائیں گے۔ وجہ بتائی گئی ہے فنڈز کی قلت۔ مطلوبہ رقم بھی مقامی وسائل کی بجائے برطانوی ترقیاتی ادارہ ڈیفیڈ سے گرانٹ بھی جائے گی۔ افسوس‘ اکیس کروڑ آبادی کے ملک کا یہ حال ہے کہ اسکے پاس اسکولوں کے کمرے تعمیر کرنے کیلیے وسائل نہیں‘ اسے ایک غیرمسلم ملک سے خیرات لینی پڑرہی ہے۔ کیا واقعی ہماری ریاست اتنی غریب اور گئی گزری ہے؟ کم سے کم‘ حکومت کے شعبہ تعلیم کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں پنجاب میں سرکاری اسکولوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہے۔ اساتذہ کی ہزاروں آسامیاں برسوں سے خالی پڑی ہیں۔ ملک میں سوا دو کروڑ سے زیادہ غریب بچے اسکول نہیں جاتے۔ جو بچے سرکاری اسکولوں میں جاتے بھی ہیں ان کو انتہائی غیرمعیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ متعدد سروے بتاتے ہیں کہ ان اسکولوں میں پانچویں چھٹی جماعت کے طالبعلم بھی تقسیم کا سادہ سا سوال حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔اردو زبان میں ایک پیراگراف نہیں لکھ سکتے۔لیکن کیا یہ وہی ملک نہیں ہے جہاں حکومت نے کراچی‘ پشاور اور لاہور کے بہترین‘ ماڈرن‘ انٹرنیشنل ایئرپورٹس بنائے ہیں‘ سینکڑوں ارب روپے خرچ کرکے موٹرویز کا جال بچھایا ہے۔ پورے جنوبی ایشیا میں صرف پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں موٹرویز موجود ہیں۔ اسی ریاست نے سینکڑوں ارب روپے خرچ کرکے شہروں میں تیز رفتار میٹرو ٹرانسپورٹ بنائی ہے۔ تو پھر تعلیم سے اتنی بے اعتنائی کیوں؟ عرصہ دراز سے ارباب دانش کہہ رہے ہیں کہ پاکستان تعلیم کے شعبہ پر اپنی مجموعی قومی دولت یا جی ڈی پی کا صرف دو سے اڑھائی فیصد خرچ کرتا ہے جو بہت کم ہے۔ بین الاقوامی معیار ہے کہ کم سے کم چار یصد خرچ کیا جائے۔ ورلڈ بنک کے مطابق 2017 میں پاکستان نے تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا 2.8 فیصد خرچ کیا جبکہ ملائشیا نے4.8 فیصد۔ دونوں ملکوں میں فرق صاف ظاہر ہے۔ ایسے ممالک بھی ہیں جو تعلیم پر اپنی دولت کا چھ سات فیصد بھی خرچ کرتے ہیں۔ رواں مالی سال کمیشن اپنے ترقیاتی بجٹ کی رقم خرچ ہی نہیں کرسکا۔ سنگا پور اکاون لاکھ آبادی کا چھوٹا سا ملک ہے۔ اسکی قومی یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ تقریبا ڈیڑھ سو ارب روپے ہے جو ہماری تمام سرکاری جامعات کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ اپنے مطلب کی بات ہو تو حکمران بھاری سود پر قرضے لیکر بھی کام مکمل کروالیتے ہیں لیکن عوام کا مفاد ہو تو وسائل کی عدم دستیابی کا رونا رونے لگتے ہیں۔ اسکول بنانے ہوں تو ورلڈ بنک‘ ایشیائی ترقیاتی بنک اور ڈیفیڈ سے امداد مانگنے لگتے ہیں۔ لاہور میں پانی کے ٹیوب ویل تک جاپان کے ترقیاتی ادارہ جائکا کی خیرات سے نصب کیے جاتے ہیں۔ ملک میں ہوا کی آلودگی مانپنے کے آلات پہلی بار جاپان کی امداد سے لگائے گئے۔ جب ریاست اپنی ذمہ داری ادا نہ کرے تو معاشرہ کے عام لوگوں یا سول سوسائٹی کو آگے بڑھ کر ضروری کام کرنے چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ مفلوک الحال ہے لیکن قوم بحیثیت مجموعی غریب نہیں۔ ہم ایک سال میں تقریباً 90 کروڑ ڈالر کے موبائل فون درآمد کرتے ہیں۔ ملک کی سڑکوں پر تیس لاکھ کاریں دوڑتی پھرتی ہیں۔ بڑے شہروں کے مہنگے ریستورانوں میں شام کے وقت بیٹھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ شادی بیاہ‘ مرنے جینے اور سالگرہ کی تقریبات میں پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے خوشحال لوگ کنجوس بھی نہیں۔ ان میں مال خرچ کرنے کا حوصلہ بھی ہے۔ جن کاموں کو امیر لوگ اچھا اور نیک سمجھتے ہیں ان پر دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ ہر برس بقرہ عید پر اسی نوے لاکھ جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ کم سے کم اڑھائی تین سو ارب روپے تو خرچ آتا ہے۔ رمضان اور محرم میں سینکڑوں ارب روپے کا کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ ملک کے ہر محلہ میں لوگوں نے شاندار مساجد تعمیر کی ہیں۔ امیر اور متوسط طبقہ کے لوگ ہر سال سینکڑوں ارب روپے مقدس مقامات کی زیارات‘ عمرہ اور حج جیسی بابرکت عبادات پر صرف کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم بچوں کے اسکول بنانے کیلیے غیرملکی امداد کے طلبگار رہتے ہیں۔ پنجاب ہی نہیں پورے ملک میں تعلیم اور صحت کے زیادہ تر منصوبے غیر ملکی امداد سے بنائے جاتے ہیں۔ یہ سوچ ہمارے معاشرہ میں جڑ ہی نہیں پکڑ سکی کہ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں بنانا بھی بڑے ثواب کا کام ہے‘ بڑی نیکی ہے۔ اللہ تعالی اسکا بھی اجر دے گا اور ملک و قوم بھی ترقی کریں گے۔اگر مسلمان علم کی اہمیت کو سمجھیں تو تعلیمی ادارے قائم کرنے کو بھی عبادت سمجھ کر انجام دیں اور کافروں سے عطیات نہ لیں۔ ہمارے ہاں ساٹھ فیصد لوگوں کی آمدن280 روپے فی کس روزانہ سے بھی کم ہے یعنی انتہائی غریب ہیں۔ یہ تین وقت کا مناسب کھانا بھی نہیں کھاسکتے۔ علاج معالجہ اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرنا تو دور کی بات ہے۔ ایسے تمام لوگوں کے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنا ہر صاحب حیثیت مسلمان کو اپنا فرض سمجھنا چاہیے۔ جسطرح لوگ جذبہ ایمانی سے مساجد تعمیر کرواتے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی عبادت ہے اسی طرح لوگ مسلمان بچوں کی تعلیم کے لیے جگہ جگہ اسکول بھی بنوادیں تو کروڑوں خاندانوں کا بھلا ہو۔ ان کی محتاجی ختم ہوجائے۔ یہ سوچ ہمارے معاشرہ میں جڑ ہی نہیں پکڑ سکی کہ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں بنانا بھی بڑے ثواب کا کام ہے‘ بڑی نیکی ہے۔ اللہ تعالی اسکا بھی اجر دے گا اور ملک و قوم بھی ترقی کریں گے۔ن کی محتاجی ختم ہوجائے۔ کسی خاندان کا ایک بچہ بھی تعلیم حاصل کرلے تو پورا گھرانہ غربت کی دلدل سے باہر نکل آتا ہے۔ جدید زمانہ کا تقاضہ ہے کہ صرف تعلیم یافتہ افراد ہی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اپنی سلامتی اور خود مختاری قائم رکھنے کیلیے ضروری ہے کہ قوم کے افراد جدید تعلیم سے آراستہ ہوں۔ تعلیم کا فروغ ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔اسکو ہماری ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔