وفاقی وزیر اسد عمر کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے اجلاس میں بڑے فیصلے کئے گئے ہیں۔کورونا پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا گیا ہے ،جس کے مطابق تعلیمی‘سیاحتی شعبے اور ریسٹورنٹس 24مئی سے 7جون تک بتدریج کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔5فیصد سے کم کورونا کیسز والے اضلاع میں تعلیمی ادارے 24مئی کو کھلیں گے۔ دوسری جانب کورونا نے مزید 104زندگیوں کے چراغ بجھا دیے ہیں جبکہ 3252نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ کورونا کی حالیہ لہر نے بڑی تباہی پھیلائی ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں کئی پورے پورے خاندان موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں۔ اب بھی بھارت میں یومیہ چار سے ساڑھے چار ہزار لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ کورونا کی حالیہ لہر نے بھارت میں اس قدر قہر کیوں برپا کیا، اس کی بڑی وجہ کمبھ میلے میں ایس او پیز کی خلاف ورزی ہے۔ہندو یاتریوں کو اس بار متنبہ بھی کیا گیا تھا کہ وہ کمبھ میلے کا انعقاد مت کریں لیکن انہوں نے جواباً کہا کہ گنگا ماں ان کو وائرس سے محفوظ رکھے گی، لہذا وہ اپنا مذہبی تہوار ملتوی نہیں کریں گے،اس برس 8لاکھ افراد نے کمبھ میلے کے موقع پر گنگا میں اشنان کیا۔ جس سے وائرس نے ملک بھر میں پنجے گاڑھے۔ کمبھ میلے کے بعد پھیلنے والی تباہی کے بعد ہی ریاست اترکھنڈ نے مئی میں ہونے والے سالانہ چاردھم یاترا کو منسوخ کیا۔ اب تو بڑے بڑے ہندو بھی اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ کمبھ میلے کے بعد کورونا کی تباہی آئی ہے۔لیکن انتہا پسندوں سے خطرے کے باعث وہ سر عام اس کا اظہار نہیں کر رہے ،چپکے سے کئی دانشوروں نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے۔ایک ٹی وی اینکر خاتون نے جب اپنے پروگرام میں یہ کہا تو اگلے ہی دن اسے قتل کر دیا گیا۔اگر دنیا کے دیگر ممالک کا جائزہ لیا جائے تو چین جیسے ملک نے ایس او پیز کی پابندی کر کے ہی اپنے ہاں کورونا پر قابو پایا ہے۔ اسی طرح عرب ممالک نے بھی اپنے لوگوں پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں، جس کے باعث آج ان ممالک میں کورونا کیسز کنٹرول میں ہیں۔ یورپی یونین کے بیشتر ممالک نے سخت لاک ڈائون اور ایس او پیز کی پابندی یقینی بنا کر کورونا کو بڑھنے سے روکا ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی 5فیصد سے کم کورونا کیسز والے اضلاع میں 24مئی کو جبکہ 7جون سے تمام تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیمی سرگرمیاں شروع ہونی چاہئیں لیکن اگر ہم نے ایس او پیز کی پابندی نہ کی تو پھر خدانخواستہ بھارت جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ بھارت میں بھی پہلے کورونا کیسز کنٹرول میں تھے لیکن وہاں پر سیاسی جلسوں اور مذہبی تہواروں نے یہ کورونا پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ این سی او سی نے عوامی سہولیات کو مدنظر رکھتے یہ فیصلہ کیا ہے لیکن ہر پاکستان کو ایک ذمہ دار شہری کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے،اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنانی چاہیے۔ تعلیمی ادارے، کاروباری سرگرمیاں اور سیاحتی مقامات کو کھولنے کا مقصد لوگوں کو بے روزگار ہونے سے بچانا ہے لیکن اگر عوام نے ماضی کی طرح ایس او پیز کی خلاف ورزی کی تو پھر حکومت کو سخت اقدامات کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ہم سب کی اس میں بہتری ہے کہ تعلیمی اداروں‘ شادی ہالز‘ ریسٹورنٹس‘ ٹرانسپورٹ‘ مزارات‘ سینما گھر‘ پارکس اور جم خانوں میں ایس او پیز پر سخت پابندی یقینی بنائیں۔ پابندی کے باعث ہی ہم کورونا جیسی موذی وبا کو شکست دے سکتے ہیں۔اس لئے کورونا ایس او پیز اور این سی او سی گائیڈ لائنز کی روشنی میں تمام اداروں میں کام شروع کیا جائے اس کے باعث ہم کورونا کو شکست دے سکتے ہیں۔ حکومت نے ملک بھر میں 8مئی سے لے کر 16مئی تک لاک ڈائون کے نفاذ کا اعلان کیا تھا اس دوران ہر طرح کی سرگرمیاں معطل رہیں۔ جس کے باعث کورونا کیسز میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن جن جگہوں پر ایس او پیز کی خلاف ورزی کی گئی وہاں پر کیسز زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں۔ صرف صوبائی دارالحکومت لاہور میں 28افراد سمیت پنجاب بھر میں 63افراد جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ ملک بھر میں 104افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد سے اب ایک بار پھر کورونا کیسز میں تیزی آ چکی ہے۔ اس لئے عوام الناس سے اپیل ہے کہ جب تک اپنی مدد آپ کے تحت ایس او پیز کی پابندی کر کے اپنے آپ کو محفوظ نہیں رکھیں گے، تب تک کورونا کو پھیلنے سے روکنا ناممکن ہے۔ انتظامیہ بھی چیک اینڈ بیلنس کو سختی سے برقرار رکھے کیونکہ جب بھی ادارے ایک ساتھ کھلیں گے تو لازمی طور پر ایس او پیز کی خلاف ورزیاں ہونگی ۔اگر انتظامیہ نے ماضی کی طرح جرمانے عائد کئے، لوگوں کو سزائیں دیں ،تو ہی ہم اس وبا کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں ۔اگر انتظامیہ نے بھی آنکھیں بند کر لیں تو مسائل پیدا ہونگے۔ لہٰذا بڑی بڑی مارکیٹوں ‘ شاپنگ سنٹروں ‘ فیکٹریوں اور کارخانوں پر چیکنگ کا سلسلہ جاری رکھیں تاکہ لوگ انتظامیہ کے ڈر سے ہی ایس او پیز پر پابندی یقینی بنائے رکھیں۔ خدانخواستہ اگر ہم نے سستی، تساہل اور کام چوری سے کام لیا تو پھر مسائل پیدا ہونگے جن سے نبردآزما ہونا ہمارے بس کی بات نہیں ہو گی۔