سْنا ہے کہ ایم اے او کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر فرحان عبادتیار خان کو اپنے عہدے سے الگ کر دیا گیا۔ جس کی فوری وجہ اسی کالج کے لیکچرار محمد افضل کی خود کْشی بنی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس خود کشی کا پرنسپل کی برخواستگی سے کیا تعلق نکلتا ہے۔ تو واقعہ یوں ہے کہ مذکورہ کالج کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کی ایک طالبہ زوبیہ نسیم جو مِڈٹرم میں دوسری مرتبہ فیل ہو گئی تھی جس کی حاضریوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی اس نے نمبروں میں اضافہ کے لئے پہلے تو اپنے استاد پر زور ڈالا مگر حتمی انکار کے جواب میں چند ساتھیوں کے ساتھ مل کرانتقامی کارروائی کرنے کے بارے میں طے کرلیا۔ سو منصوبہ کے مطابق مذکورہ طالبہ نے پرنسپل کے نام ایک درخواست لکھی جس میں لیکچرار محمد افضل پر اپنے حوالے سے جنسی ہراسگی کا الزام لگایا گیا۔ یہ طالبہ بھی طالب علموں کے اس طبقہ سے ہے جو اداروں میں حصولِ تعلیم نہیں بلکہ تفریح کرنے آتے ہیںتعلیمی سرگرمیاں ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتیں۔اس نوعیت کے طلبا و طالبات کو کسی نہ کسی سطح پر مخصوص اساتذہ کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ یہ اساتذہ ایسے طالب علموں پر چھوٹی موٹی نوازشات کرتے رہتے ہیں اور صلے میں گاہے بہ گاہے حسبِ ضرورت اپنے ساتھی اساتذہ کے خلاف محاذ آرائی میں بطور سماجی طاقت استعمال کرتے ہیں۔ عموماً ادارے کا سربراہ یا تو ان کے ساتھ ہوتا ہے یاپھر ان کے شدید دبائو میں تخریب پسندوں سے چشم پوشی کا روّیہ اختیار کرلیتا ہے تاکہ ادارے کی اندرونی سیاست پر گرفت مضبوط رہ سکے۔ اب شاید آپ کے ذہن میں یہ سوال اْٹھے کہ مَیں آسٹریلیا میں بیٹھ کر لاہور کے ایک کالج میں وقوع پذیر ہونے والے ایک واقعہ کے بارے میں کیسے اتنے یقین سے رائے دے سکتی ہوں تو جناب وضاحت کرتی چلوں کہ 1990ء میں میری عملی زندگی کا آغاز بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں بطور لیکچرار ملازمت سے ہوا اور دس برس کے قریب مدّتِ ملازمت میں جہاں بے حد مہربان رفقائے کار دیکھے وہاںمنفی سوچ رکھنے والے اس کْوفی قبیلہ سے بھی واسطہ پڑتا رہا۔ یہ قبیلہ کردار کشی میں بلا کا طاق اور افسانہ سازی میں اتنا ماہر ہوتا ہے کہ مدِ مقابل کی پوری تاریخ و جغرافیہ بدل کر رکھ سکتا ہے۔ مجھے بھی یونیورسٹی جوائن کرتے ہی طویل وغیرمعیاری مزاحمت کا سامنا رہا اور جس حد سے بڑھی ہوئی ذہنی گراوٹ کو جھیلنا پڑا وہ ایک الگ داستان ہے۔ لیکن خوش قسمتی تھی کہ ہمیں ڈاکٹر مصباح العین جیسے صاحبِ علم و بصیرت اور بہادر وائس چانسلر کی رہنمائی میّسر تھی۔ ایم اے او کالج کو ڈاکٹر فرحان عبادت بطور سرپرست میّسر آئے جو شاید یا تو اپنے ادارے میں سلگتی سازشوں پر نظر ہی نہ رکھ سکے یا پھر انہی کی ایما پر حشر برپا ہوتا رہا۔ پھر اسی ہنگامہ ہائو ہْو میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک بْوڑھی ماں کے سہارے اور تین بچوں کے باپ استاد محمد افضل کی جیتی جاگتی زندگی مٹی کا ڈھیر بن گئی۔ مجھے اس موضوع پر قلم اْٹھانے میں ذرا تاخیر ہوئی جس کی وجہ مستند ذرائع سے اس دلخراش واقعہ کی جْزوی معلومات حاصل کی جا سکیں۔ سو علم میں آیا کہ مذکورہ طالبہ زوبیہ نسیم جب لیکچرار محمد افضل سے مطلوبہ ریزلٹو حاضریوں کا شیڈول حاصل نہ کر سکی تو اپنے معاون اساتذہ کے پاس جاکر اپنی پریشانی بیان کرنے لگی جو ہمیشہ موقع کی تلاش میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب تماشا سجے اور دوسروں کی عزّت اْچھال کر، آوازے لگا کر دل بھر کے لطف اْٹھایا جا سکے۔ سوشل میڈیا پر’’مِی ٹْو‘‘ کی سہولت نے یہ کام آسان کر دیا اور بالآخر مطلوبہ کہانی مرّتب پا گئی۔ زوبیہ نسیم نے حوصلہ افزائی ملتے ہی درخواست لکھی اور پرنسپل کے آفس پہنچ گئی۔ اس درخواست پر انکوائری ڈاکٹر فرحان عبادت نے ڈاکٹر عالیہ کے ذمہ لگائی۔ ڈاکٹر عالیہ نے چند ہی روز میں طالبہ سے تفصیلی گفتگو و دیگر اہم پہلوئوں پر تفتیش کرنے کے بعدلیکچرار محمدافضل لگنے والے الزام کو مسترد کردیا اور پندرہ جولائی کو اپنی فائنل انویسٹی گیشن رپورٹ پرنسپل کے حوالے کردی۔ حسّاس پہلو یہ ہے کہ جب رپورٹ آچکی تھی تو پھر ایسی کیا مصلحت تھی کہ پندرہ جولائی سے نو اکتوبر تک ڈاکٹرعبادت نے محمد افضل کو کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا۔ تقریباً ڈھائی مہینے تک اپنے رفیقِ کار کوایک اعصاب شکن اذیت سے گزارا گیا۔اس دوران کالج میں یہ تمام معاملہ پھیل چکا تھا اور محمد افضل کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ محمد افضل کوئی کمزور انسان تھا۔ ماضی میں وہ ایک درزی تھا جو اپنی دکان چلانے کے ساتھ ساتھ پڑھتا بھی رہا پھرمحض اپنی قابلیت کی بنیاد پر شعبہ تعلیم میں باعزّت مقام بھی حاصل کرلیا۔ سطحی معیارات کے اعتبار سے شاید وہ ایک غریب انسان تھا جس کے نزدیک یہ شب و روز ریاضت سے حاصل کی جانے والی عزّت ہی اس کا کْل اثاثہ تھی۔ اور جب کسی کی عمر بھر کی کمائی یوں سرِ عام لْوٹ لی جائے تو وہ مایوسی کے گرداب میں گِھر جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اْس شخص سے ڈرنا چاہے جس کو تہی داماں کردیا جائے کیونکہ وہ اگر لْوٹنے والے کی جان نہ بھی لے سکے تب بھی اپنی جان تو لے ہی لیتا ہے۔ یہی محمد افضل نے کیا اوراپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا، رخصت ہو گیا۔ایک اور سوال۔۔ کیا جس اللہ کی بارگاہ میں محمد افضل جا چکا ہے، اسی عدالت میں ایک دن اسسٹنٹ پروفیسر جدون کو نہیں جانا جس نے طالبہ زوبیہ نسیم کو درخواست کے مندرجات لکھوائے؟ کیا اسسٹنٹ پروفیسر عابد لطیف اور طاہر مسعود بھی سدا اسی جہان میں رہیں گے جو ایک نادان لڑکی کو سمجھانے کی بجائے اْکساتے رہے۔ خوف تو اس طالبہ کے لئے بھی آتا ہے کہ جو شاید ابھی کسی شورشِ طبع یا زعم میں ہو مگر کاش وہ جان سکتی کہ اس فساد پرست معاشرہ میں اس ایک عمل کے نتیجے میں اس کی تمام عمر ایک سزا کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اپنے استاد پر لگائے الزامات سے بھرا یہ حوالہ اب اسکا تعارف بن جائے گا۔ زوبیہ نسیم جیسی لڑکیاں اپنی انتہا پسندی سے اْن لڑکیوں کے لئے بھی بے انتہا مشکلات پیدا کر رہی ہیں جو اپنی تعلیم اوردیگرمسائل کے سنجیدہ حل کے واسطے گھر سے نکلتی ہیں۔۔ آثار نظر آ رہے ہیں کہ وہ دن دْور نہیں جب پاکستان کا شمار ’’می ٹْو‘‘ کا غلط استعمال کرنے والے ملکوں میں سرِفہرست ہوگا۔۔جبکہ یہاں مغرب میں جنسی ہراسگی کا قانون الزام غلط ثابت ہونے پرالزام لگانے والے فریق کو بھی کڑی سزا دیتا ہے اور بھاری ہرجانہ الگ سے ادا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ خدارا مغربی قانون کی تقلید کرنا اگر ناگزیر بھی ہو گیا ہے تو ہر پہلو سے کریں۔۔ تعلیمی اداروں کو مقتل مت بنائیں۔