اگر آپ گھر بنانے کا ارادہ رکھتے ہوں تو یہ بھی ذہن میں رکھیے گا کہ ایک ہوتی ہے تعمیر اور دوسری حسرتِ تعمیر۔ آپ حسرت کو خواہش کا انجام سمجھیے، یہ وہی خواہش ہے جس کے بارے میں غالبِ نکتہ سنج نے کہا تھا ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘ میں کوئی فلسفہ بیان کرنے نہیں جا رہا بلکہ سادہ اور معصوم لوگوں کو کچھ تعمیر کے حوالے سے بتانا چاہتا ہوں۔ آپ اسے بیتابی سمجھیے۔ شاید اس تحریر سے کسی کا فائدہ ہو جائے۔ آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ تعمیر کے محکمے میں آپ کو تخریب زیادہ ملے گی کیوں نہ سب سے پہلے آپ کو ایک تعمیر کا نہایت ہی دلچسپ واقعہ سنا دیا جائے۔ جب میں اقبال ٹائون میں رہتا تھا تو ہمارے محلے میں ایک اجاڑ اور ویران مکان برسوں سے خستہ حال پڑا تھا۔ مشہور یہ تھا کہ اس میں آسیب کا ڈیرہ ہے، بچے بھالے ادھر جانے سے گھبراتے تھے کہ کہیں کسی جن سے ملاقات نہ ہو جائے۔ ایک روز ایک شخص نے آ کر اس گھر کا زنگ آلود تالہ کھولا۔ محلے داروں کی خوشی دیدنی تھی کہ چلو ان کے بچوں کا خوف ختم ہو جائے گا کہ گھر آباد ہونے جا رہا ہے۔ اگلے ہی روز وہ گھر مسمار ہونا شروع ہوا سب لوگ اطمینان محسوس کر رہے تھے۔ چند ہی روز میں مکان کا ملبہ ریڑھیوں پر جانے لگا۔ پھر یہاں خالی زمین کا قطعہ رہ گیا۔ کئی ماہ گزر گئے، محلے دار حیران کہ نئی تعمیر نہیں ہو رہی۔ پھر کچھ عرصہ بعد وہاں ایک شخص آیا، شاید باہر کے ملک سے آیا تھا اور سب سے پوچھتا پھر رہا تھا کہ یہاں اس کا ایک عدد مکان تھا؟ آپ یقیناً سمجھ گئے ہونگے کہ یہاں لوگ مکان تو کیا ملبہ بھی بیچ جاتے ہیں۔ مکان بنانے کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ مکان بناتے ہیں تو آپ کسی تجربہ پر پہنچتے ہیں مگر اس تجربے کا آپ کو قطعاً فائدہ نہیں ہوتا کہ مکان کونسا آپ نے روز بنانا ہے۔ آپ کے ساتھ جو ہوتی ہے وہ ہو چکی ہوتی ہے۔ اصل میں، میں اس تجربے سے دو تین مرتبہ گزر چکا ہوں۔ میں ٹھیکے پر کام نہیں کرواتا کہ اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے کہ ٹھیکے دار کا حصہ نکالیں۔ ایک یہ زعم کہ اللہ نے مجھے بھی تو دماغ دیا ہے مگر تجربہ دماغ سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ یکسر اناڑی ہیں اور دیہاڑیوں پر کام کروانا چاہتے تو پھر آپ کو تیار رہنا چاہیے کہ یہ مستری مزدور آپ کو پاگل کر دیں گے۔ آپ سے ایڈوانس بھی مانگیں گے، کام بھی نہیں کریں گے۔ آپ اپنے حساب سے چلائیں گے۔ مجھے یاد ہے ہمارے ایک دوست اپنے مستریوں اور مزدوروں کے وعدوں کا شکار ہوئے تو غصے میں مزدوروں کے اڈے پر چلے گئے اور ایک سٹول پر کھڑا ہو کر ان کو للکارنے لگے کہ وہ ان کے سامنے آئیں۔ وہ ان پر ایف آئی آر کٹوا دیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ آپ کوخارجہ معاملات میں زیادہ چوکس رہنا پڑتا ہے آپ کو اینٹ والا بھی لوٹے گا اور ریت والا بھی۔ اینٹ اگر آپ خود خریدتے ہیں تو آپ ان لوگوں کی ہیرہ پھیریاں دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے، آپ کی اینٹ آئے گی۔ گھوڑیاں بنائی جائیں گی اور آپ کو گھوڑیوں میں پڑی اینٹیں گنوا بھی دیں گے مگر بعد میں پتہ چلے گا کہ اینٹ تو چار ہزار کم ہے۔ درمیان میں خول چھوڑ دیا گیا تھا اور باہر سے گھوڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ دوسرا ان کی کوشش ہوتی ہے اینٹیں رات گئے لائیں تا کہ خریدنے والا نیند ہی میں ہو، بلکہ وہ نیند سے اٹھے ہی کیوں؟ آپ اول درجے کی اینٹ دیکھیں گے مگر آپ کو پہنچے گا ’’دڑا‘‘ یعنی ملی جلی اینٹ۔اس ٹھگ بازی میں سب سے مشہور منڈی سٹاپ ہے جہاں ٹرالیوں والے اپنے شکار کا انتظار کرتے ہیں۔ اینٹیں اتارنے والے اس فن میں ماسٹر ہیں کہ بے ایمانی سے کیسے اینٹیں گننی ہیں، کچھ کام اس سے بھی آگے ہیں۔ مثلاً ہمارے قریب کہیں ایک ٹرالی اینٹوں کی اتاری گئی۔ کچھ دیر بعد ایک اور ٹرالی آ کر وہ اینٹیں اٹھانے لگی۔ کسی نے پوچھا تو کیا جناب ڈرائیور بے وقوف ہے یہ اینٹیں تو اگلے محلے میں اتارنا تھیں۔ گویا پوری ٹرالی اٹھا لی گئی۔ مالک کو اگلے روز پتہ چلا پوری ٹرالی ہی چوری ہو گئی۔ آپ اینٹ اور بجری وغیرہ کے لیے کسی ایجنٹ دکاندار سے بات کر لیں تو آپ کا نقصان کم ہو جائے گا۔ بچ تو آپ کہیں بھی نہیں سکتے۔ آپ کے مستری اور مزدور بھی اکثر آپ کو ریفر کرتے ہیں کہ ریت یہاں سے منگوا لیں اور اینٹ اور سیمنٹ فلاں جگہ سے، کوشش یہ کریں کہ خود پر اعتماد کر کے خود جا کر مستری اور مزدور اڈے سے لے کر آئیں۔ آپ بھی سیاست چلیں اور ایک آدھ مستری اور مزدور کو اپنا مخبر بنا لیں اور یوں لیبر ایکا نہ کر سکے۔ خاص بات یہ کہ اگر آپ کے پاس نگرانی کا وقت ہے تو آپ دیہاڑی والا سلسلہ چلا سکتے ہیں وگرنہ آپ کی غیر موجودگی میں جی بھر کے آرام کریں گے۔ آپ سے چائے کا مطالبہ کریں گے۔ چائے پلانے میں کچھ حرج نہیں مگر وہ چائے پینے میں کافی وقت لگائیں گے۔ ان کو کام لگانا ایسے ہی ہے جیسے جن کو قابو کرنا۔ تھوڑی سی احتیاط اور صبر بھی ضروری ہے وگرنہ ہمارے دوست واجد امیر کی طرح آپ کو کہنا پڑے گا: یہی تو ہوتا ہے عجلت میں گھر بنانے سے کہیں کا روڑہ کہیں پر لگانا پڑتا ہے مستری بھی تو سوتر اور ساہل پر چلتا ہے وگرنہ آپ اسے اندھا سمجھیں۔ ان کے ساتھ رہ کر آپ دھیان دیں تو آپ کو بھی پتہ چل جائے گا۔ بائی اور سیرو کسے کہتے ہیں۔ پونا آدھا اور ڈیلی کیا ہوتی ہے۔ یہ اصطلاحات تعمیر کا حصہ ہیں۔ وہ ’’گو‘‘ بھی کرتے ہیں یعنی بانس اور پھٹے لگا کر کام کرتے ہیں۔ میں نے مستری سے پوچھا کہ اسے ’’گو‘‘ کیوں کہتے ہیں؟ کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ چور چوری کرتے وقت ایک جانور گو کو اوپر پھینکتا ہے جو اوپر پنجوں کے ساتھ چمٹ جاتی ہے پھر اس سے بندھے ہوئے رسے سے چور اوپر چڑھ آتا ہے۔ گویا گو کو پکڑ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سن کر مستریوں نے ہمیں استاد مان لیا۔ آپ ان کی خدمت ضرور کریں وگرنہ اور کچھ نہیں تو آپ کا مسالہ ہی ضائع کر دیں گے۔ ان کی بھی عزت نفس ہوتی ہے، کئی تو کام چھوڑ کر بھی چلے جاتے ہیں اور آپ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کو آپ کا ان کے پاس کھڑے رہنا ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر ان پر آنکھ رہنا بھی تو از بس ضروری ہے۔ کام کرنے والے کو ضرور انعام دیں۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ ایک تعمیر کردار کی بھی ہوتی ہے۔ وہیں غالب یاد آتا ہے کہ ’’مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘ اسی طرح معاشرے کی بھی تعمیر ہوتی ہے جس کی اکائی فرد ہے۔ وہی کہ: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں پھر تعمیر کے حوالے سے میر نے تو یکتا شعر کہا تھا: مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے آپ کے سب اندازے دھرے رہ جاتے ہیں اور آپ کے اکائونٹ سے پیسے ختم ہو جاتے ہیں۔ کام بڑھانا مستری کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔