کورونا وائرس کی وجہ سے غریب اور دیہاڑی دار طبقات کے لئے سہولت کی خاطر وزیر اعظم نے تعمیراتی شعبے اور اس سے منسلک صنعتوں کو کام کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے تعمیراتی شعبے کو صنعت کا درجہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے اس کے لئے خصوصی پیکیج کی نوید بھی سنائی۔ اس پیکیج کے تحت تعمیراتی شعبے پر فکسڈ ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ بے گھر پاکستانیوں کے لئے روبہ عمل نیا پاکستان منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے والی تعمیراتی کمپنیوں کو ٹیکس کی مد میں 90فیصد تک چھوٹ دی جائے گی۔ کوروناوائرس کو روکنے کے لئے لاک ڈائون کی وجہ سے ہر قسم کے کاروبار اور آمدورفت متاثر ہوئی ہے۔ میڈیکل سٹور ‘ دودھ دہی کی دکانیں‘ کریانہ کی دکانیں اور ورکشاپس کو مخصوص اوقات میں سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے تاہم ایک کروڑ کے لگ بھگ دیہاڑی دار افراد کی بڑی تعداد تعمیراتی شعبے سے روزگار حاصل کرتی ہے۔ ہر شہر اور قصبے میں دیہاڑی داروں کے کئی اڈے ہیں جہاں وہ دن ڈھلنے تک کسی کام کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کے لئے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مزدور اڈے پر جمع ہوں تو قانون نافذ کرنے والے ادارے حفاظتی تدابیر پر عمل کرانے کے لئے انہیں منتشر کر دیتے ہیں۔گزشتہ پندرہ روز میں وزیر اعظم نے جب بھی کورونا کے انسداد کے لئے حکومتی اقدامات کی بات کی انہوں نے دیہاڑی دار طبقے کی مشکلات کو خاص طور پر پیش نظر رکھا۔ بسا اوقات مکمل لاک ڈائون نہ کرنے پر وزیر اعظم کو اپوزیشن اور اپنے ہی رفقا کی تنقید برداشت کرنا پڑ رہی ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ سخت لاک ڈائون کے نتیجے میں بالائی طبقات سے کہیں زیادہ نچلے اور مزدور طبقات متاثر ہوں گے اس لئے وفاق اور صوبائی حکومتیں عوام سے رضا کارانہ طور پر گھروں میں رہنے کی درخواست کر رہی ہیں۔ دوسری طرف کراچی جیسے شہر میں کئی جگہ پر لوگ حکومتی پابندیوں کو توڑ کر سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ یہ سب مزدور طبقات ہیں۔ یہ صورت حال وزیر اعظم کے ان خدشات کی تائید کرتی ہے کہ اگر ان لوگوں کو امداد پہنچانے اور ان کے روزگار کا انتظام نہ کیا گیا تو بھوک سے بے حال لوگ ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے حال ہی میں مختلف شعبوں کے لئے 1200ارب روپے کا امدادی پیکیج جاری کیا ہے‘ اس پیکیج میں 200ارب روپے غریب اور دیہاڑی دار طبقات کی امداد پر خرچ ہوں گے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میںدیہاڑی دار افراد کی تعداد 67لاکھ ہے۔ کورونا وائرس نے ان تمام کاروباروں کو متاثر کیا ہے جن سے دیہاڑی دار افراد کو روزگار میسر آتا ہے۔ سب سے زیادہ دیہاڑی دار وہ مزدور ہیں جو تعمیراتی شعبے میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جنہیں ریاست کی طرف سے کوئی بنیادی سہولت فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔ ان کا روزگار‘ رہائش ‘ خوراک‘ علاج اور تعلیم کے معاملات حکومتوں کی دلچسپی کا مرکز نہیں بنے۔ یہ عشروں کی محرومیاں ہیں جو نچلے طبقے کو ریاست سے بد ظن کرتی ہیں اور وہ کئی بار قانون کو بالائی طبقات کے مفادات کا محافظ قرار دے کر اسے توڑنے پر بضد ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم ان خدشات کے پیش نظر دیہاڑی دار افراد کی ضروریات پر بھر پور توجہ دے رہے ہیں۔ حکومت نے مستحق اور غریب افراد کے لئے موبائل ایپلی کیشن تیار کی ہے جس پر ہر ضرورت مند خود کو جسٹر کراسکتا ہے۔ رجسٹرڈ افراد کو ان کے گھروں پر حکومتی رضا کار خود امداد فراہم کرنے پہنچیں گے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ تعمیراتی شعبے کو کھولنے سے کورونا پھیلنے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے‘ عوام ازلی لاپرواہ اور غیر سنجیدہ ہیں‘ نگران اداروں کو ایمانداری سے کام کرنے کی عادت نہیں‘ ممکن ہے معمولی مفاد کے عوض حکومت کی جانب سے ترتیب دیے گئے ایس او پیز کو نظر انداز کیا جانے لگے۔ ایسا ہوا تو کورونا کے مریض ان علاقوں کو متاثر کرنے لگیں گے جہاں گنجان آبادی ہے اور ایک کمرے کے گھر میں مقیم دس بارہ مکینوں کے لئے قرنطینہ ہونے کی سہولت نہیں۔ لہٰذا تعمیراتی شعبے کو کھولنے کی اجازت دیتے ہوئے ضروری ہے کہ کام کرنے والے افراد‘ ان کی نگرانی اور کام والی جگہ کے متعلق موثر رہنما اصول طے کر لئے جائیں۔ کوشش کی جائے کہ ان اصولوں پر سختی سے عمل ہو۔ تعمیراتی شعبے کو کھولنے سے بلڈنگ میٹریل‘ گڈز ٹرانسپورٹ‘ ہارڈویئر اور دوسرے شعبے بھی سرگرم ہو جائیں گے۔ روپے کی گردش ہونے سے جامد معیشت کا پہیہ جزوی طور پر سہی حرکت کرے گا۔ عالمی اداروں نے تازہ رپورٹس میں بتایا ہے کہ رواں برس پاکستان کی جی ڈی پی2.9سے کم ہو کر 1.5فیصد تک جا سکتی ہے۔ یقینا کورونا کی وبا چند ہفتوں یا دو تین ماہ میں ختم ہو جائے گی۔ معمولات زندگی بحال ہونے لگیں گے لیکن اس وقت ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔کورونا کے خاتمہ کے بعد ملک کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ مستقبل کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے آج حکمت عملی ترتیب دینا چاہیے۔ دیہاڑی داروں کی اچھی خاصی تعداد مارکیٹوں‘ منڈیوں‘ سٹیشنوں‘ بس اڈوں اور ریڑھی بانوں کی شکل میں بھی موجود ہے۔ تعمیراتی شعبے کے مزدوروں کے لئے جس سہولت کا فیصلہ کیا گیا ہے اس سے ملتی جلتی کوئی مدد دوسرے دیہاڑی داروں کو بھی ضرور فراہم کی جانی چاہیے۔