میرا نہ یہ مقام ہے اور نہ میری یہ اوقات کہ میں حوالے دیتا پھروں کہ میں نے گزشتہ چند دنوں کے کالموں میں عمران خان کو تقریر کے لئے جو مشورے دیے تھے انہوں نے ان پر من و عن عمل کیا اور نہ صرف یو این او کے درو بام ہلا کر رکھ دیے بلکہ دنیا کے ایوانوں میں ہلچل مچا دی۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ ’’مشورے‘‘ میرے ہی نہیں ساری قوم کے دل کی صدا تھے۔ اس لئے عمران خان کی تقریر کے بعد جو مجموعی قومی تبصرہ ہر طرف گونجنے لگا وہ بقول مرزا غالب یہ تھا کہ ؎ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ہم سب کے دلوں میں ظلم کے خلاف جو لاوا ابل رہا تھا’ جو آگ سلگ رہی تھی اور جوشعلے بھڑک رہے تھے ہم ان کا اظہار چاہتے تھے۔ ہم دنیا کو بھارتی مظالم اور عالمی بے حسی کا آئینہ دکھانا چاہتے تھے۔ عمران خان نے کشمیریوں کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ عمران خان نے ناصرف کشمیر کی بات کی بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی تذکرہ کیا۔ اور بالخصوص نبی آخر الزماںؐ فداہ ‘ ابی وامی کے بارے میں کی جانے والی گستاخیوں کے خلاف مسلمانان عالم کے مجروح دلوں کے جذبات و احساسات سے بھی دنیا کو آگاہ کیا۔ اس لئے اس تقریر کو ہر جگہ سراہا گیا۔ ہمیں ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یو این او کی جنرل اسمبلی کا اس کے علاوہ کوئی کردار ہے نہ کوئی فنکشن کہ یہ تیسری دنیا کے پرجوش حکمرانوں کے جذبات کے کتھارسس کا عالمی فورم ہے۔ بلا شبہ کشمیر کے بارے میں عمران خان نے زبردست تقریر کی مگر بے نظیر کی تقریر بھی آکسفورڈ کی انگریزی میں بے مثال تھی۔ اس سے پہلے بے نظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو جنرل اسمبلی میںاپنی دھواں دھار تقریروں سے دھوم مچا دیتے تھے اور نہایت نازک موڑ پر بھی جذبات کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیتے تھے جس کے نتیجے میں ہمیں 16دسمبر 1971ء کو بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ ہماری تاریخ کا یہ باب بڑا دلخراش ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے جنرل اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قاری خوشی محمد کی آواز میں تلاوت کلام پاک کروائی اور پھر ایک پرجوش تقریر کی اور مسئلہ کشمیر کو زبردست طریقے سے اجاگر کیا۔ ایک اور بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بعض محاذوں پر تقریر فیصلہ کن ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے اور بعض محاذوں پر تقریر محض ایک ضابطے کی کارروائی سمجھی جاتی ہے۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کی صدارتی امیدوار بننے کے موڑ پر پہلی تقریر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ہی باراک اوباما کو صدارتی امیدوار بنانے کی راہ ہموار کی۔ تاہم جنرل اسمبلی ایک ڈبیٹنگ سوسائٹی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ فیصلے البتہ کہیں اور ہوتے ہیں۔ بعض اور بھی دلچسپ حقیقتیں ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے دنیا کو بہت سے حقائق سے روشناس کروایا ہے جو اس سے پہلے ان کے علم میں نہیں تھے۔ جو امریکہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں اگر کوئی سوئی جتنی باریک چیز بھی ادھر سے ادھر ہوتی ہے تو اس کی امریکہ کو خبر ہوتی ہے۔ تو کیا امریکہ کو خبر نہیں کہ بھارت کشمیر میں کیا مظالم ڈھا رہا ہے۔ امریکی سیاروں اور خفیہ ایجنسیوں سے کون سی چیز چھپی ہوئی ہے۔ نیز جس عالمی ضمیر کا ہم بار بار ذکر کرتے رہتے اور اسے جگانے کی نوید سناتے رہتے ہیں وہ ضمیر اول تو کہیں موجود نہیں اور اگر ہے تو جان بوجھ کر چپ سادھے ہوئے ہے۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ سوئے ہوئے کو تو جگایا جا سکتا ہے مگر ’’جاگتے ہوئے ‘‘ کو کون جگائے۔ کہا جاتا ہے کہ بیسویں صدی میں دنیا نے بڑی ترقی کر لی ہے۔ دنیا بڑی مہذب ہو گئی ہے اور دنیا انسانی حقوق کی چمپئن بن چکی ہے مگر عملاً صورت حال وہی پرانی ہے ۔کتابوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے مگر مزاجوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسی لئے تو اقبال نے ہمیں برسوں پہلے خبردار کر دیا تھا ع عصانہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد آج کا ’’عصا‘‘ پہلے ایک مضبوط خودکفیل معیشت اور پھر ایک مضبوط فوج ہے۔ اگر آپ آئی ایم ایف کے ’’عصائے قرض‘‘ کے سہارے چل رہے ہوں گے تو پھر آپ کی گھن گرج لاکھ بلند و بالا سہی مگر اس میں وہ اثر انگیزی نہیں پیدا ہو سکتی جو عالمی مقتدر قوتوں کو بہت کچھ سوچنے اور بدلنے پر مجبور کر دے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جناب عمران خان قومی اسمبلی میں کشمیر کے بارے میں اگلا روڈ میپ کیا دیں گے۔ تاہم یہاں ہمیں رک کر قومی سطح پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے بارے میں ایسی تقاریر تو ہم گزشتہ 50برس سے جنرل اسمبلی میں کر رہے اور اپنے تئیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ تعداد اور وسائل میں کم ہونے کے باوجود ہم کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے خلاف جنگیں لڑ چکے ہیں مگر ان کا بھی کوئی فیصلہ کن نتیجہ نہیں نکلا۔ اس دوران کشمیریوں نے اللہ کی مدد و نصرت اور اپنی قوت بازو پر انحصار کرتے ہوئے سو فیصد کشمیری تحریک مزاحمت شروع کر رکھی ہے۔ اب تو عالمی میڈیا، نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ بھارت نے انسانیت سوز مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ دونوں اخبارات نے جلی سرخیوں کے ساتھ لکھا ہے کہ 8ملین لوگوں کو زندہ درگورکرنے کے لئے بھارت نے کشمیر میں 9لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے۔ صرف یاد دہانی کے لئے عرض کر دوں کہ اقوام متحدہ میںکی جانے والی غیر معمولی اور یادگار تقریروں میں ایک یاسر عرفات کی تقریر تھی۔ جو انہوں نے 1974ء میں کی تھی۔ انہوں نے اسرائیل اور صیہونیت کے خلاف ایک پرجوش تفصیلی خطاب کیا اور انہوں نے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا نہایت دلگداز ذکر کیا۔ مگر اس کے باوجود آج اسرائیل پہلے سے کئی گنابڑھ چکا ہے اور فلسطین کی مزید زمین پر قبضہ کر چکا ہے مگر اسرائیل کے بارے میں امریکی سرپرستی میں کوئی فرق نہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ کا رویہ بدلا۔ ایک یادگار تقریروینز ویلا کے صدر ہوگو شاویز کی بھی تھی جس نے اپنے خطاب میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کو کھری کھری سنائیں اور امریکی رائٹر نوم چومسکی کی کتاب مندوبین کو دکھائی کہ خود ایک امریکی نے اس حکومت کے بارے میں کیا لکھا ہے۔ سامعین نے اس تقریر کی بہت داد دی مگر کسی ملک کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ اس سب کچھ کے باوجود جنرل اسمبلی کی تقاریر کی اپنی ایک اہمیت و ضرورت ہے اور وہ ہے اتمام حجت اور وما علینا الاالبلاغ ۔ البتہ بہری گونگی عالمی برادری نے ہم پر ہمارا راستہ واضح کر دیا ہے۔ راستہ یہ ہے کہ کشمیر کی جنگ سفارتی ہو یا عملی ہم نے خود لڑنی ہے۔ اس کے لئے ہماری فوج بھی تیار ہے اور ہماری قوم بھی تیار ہے۔ البتہ ابھی تک سیاست دانوں اور حکمرانوں میں وہ اتحاد و یگانگت دیکھنے میں نہیں آ رہی جس کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ دشمن کے خلاف ہم سب ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ جناب وزیر اعظم !جرأت اظہار کے بعد اب اگلا مرحلہ جرأت کردار کا ہے۔ جرأت کردار کے لئے انا کی قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں۔ جناب عمران خان پندار کا صنم کدہ ویراںکئے ہوئے اپوزیشن کے قائدین کو گلے لگائیں اور تقریر کے بعد اب’’تدبیر‘‘ کے لئے گول میز کانفرنس بلائیں اور سب سے مشورہ کریں۔