اکیاسی سالہ جگ داس اپنی آنکھوں میں جانے کیا کیا سپنے لے کر سرحد پار گیا تھا ،اس کا خیال تھا کہ وہ ہندو ہے اور اسے ہندوستان ہی میں رہنا چاہئے وہ سمجھتا تھا کہ ہندوستان میں اسے بہت مان عزت اور اعتماد ملے گاوہ اپنے ہوا دار گھر میں راج کپور کی فلمیں دیکھے گا پرانے ٹیپ ریکارڈر پر مکیش کے گانے سنے گا اور چائے کے پیالے بھر بھر کر پیئے گا،جب وقت ہوگا تو مندر میں پوجا پاٹ کرے گا جب من کرے گا بنارس کا رخ کرے گا گنگا میں نہائے گا اور اپنے پاپ بہا کر صاف ستھرا ہوجائے گا،وہ بوڑھی آنکھوں میں یہ خواب لے کربال بچوں کے ساتھ صوفیوں کی دھرتی سندھ سے چلا اور بھارت پہنچ گیاوہ سمجھ رہا تھا کہ اسے بھارت میں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور اسکے ہم مذہب اسکی بھرپور مدد کریں گے لیکن بھارت آنے کے بعد اسکے سارے خواب سراب ثابت ہوئے اسے اور اس کے گھر والوں کو جے پور شہر کے قریب ایک مہاجرکیمپ میں دھکیل دیا گیا،ان سے بار بار تفتیش کی گئی پوچھ گچھ ہوتی رہی لیکن شک دور نہیں ہوا،جگ داس اپنے ہم مذہبوں کا یہ مزاج دیکھ کر پہلے پہل تو بہت حیران ہوا اور پھر عادی ہو گیا،خدا جانے اب جگداس زندہ بھی ہوگا کہ نہیں جب تک زندہ تھا تب تک جے پور کے اس غلیظ گندے مہاجر کیمپ میں وہ ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں پڑا اپنے سامنے ننگ دھڑنگ پوتوں پوتیوں کو خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہتاتھا،اسکے سامنے ان کا مستقبل ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکاتھا وہ زبان سے تو کسی کو کچھ نہیں کہتا لیکن شکووں شکائتوں کی دیوار سے جھانکتا افسوس صاف کہہ رہا ہوتا ہے کہ کاش وہ یہ فیصلہ نہ کرتا۔ اے ایف پی دنیا کے معتبر ترین خبررساں اداروں میں سے ہے اس نے بھارت میں پناہ کے متلاشی پاکستانی ہندوؤں کے بارے میں 31 جولائی2017ء میں ایک رپورٹ جاری کی جس میںاے ایف پی کے نمائندے عاطف توقیر نے جے پور کے اس کیمپ کا دورہ کیا اوروہاں پاکستان سے نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں سے ملاقات کی ،عاطف توقیر جگداس سے بھی ملا‘ سنولائی ہوئی رنگت اور جھریوں بھرے چہرے والے جگداس نے عاطف توقیر سے دکھی لہجے میں کہا’’یہاں کام ہے نہ گھر ہے،پیسے ہیں نہ کھانا ہے وہاں ہم کھیتوں میں کام کرتے تھے یہاں ہمیں پتھر کوٹنے پڑ رہے ہیں‘‘۔جگداس کی افسردگی کو رپورٹ کرتے ہوئے اے ایف پی کے نمائندے نے لکھا کہ جگداس کہتا ہے ہمارے لئے اب بھی تقسیم ہند مکمل نہیں ہوئی ہندو اب بھی اپنے ملک آناچاہتے ہیں لیکن وہ جب یہاں آتے ہیں توانہیں کچھ نہیں ملتا‘‘۔ ٹھیک دو سال بعدبوڑھے جگداس کی اداس آنکھوں سے اشکوں کی صورت میں ٹپکنے والے اس شکوے کی تصدیق بھاگ چند کرتا ہو املتا ہے، بھاگ چند ان پاکستانی ہندو مہاجروں میں سے ہے جو ہندوستان کو اپنی منزل سمجھ کر سرحد پار گئے ،دنیا کے معتبر اخبارات میں سے ایک نیو یارک ٹائمز نے پانچ اکتوبر 2019ء کو ان تارکین وطن کے بارے میں ہلا دینے والی رپورٹ شائع کی بتایا کہ پاکستان سے بھارت جانے والے ہندوؤں کو بھارتی معاشرہ جذب کرنے سے انکاری ہے ،ذات پات میں بٹے ہندو معاشرے میں انہیں کوئی جگہ نہیں ملتی ،وہ اپنے بھاگوان کو چھو نہیں سکتے پوجا پاٹ نہیں کر سکتے یہ تو دور کی بات ان کے ہاتھ تو ان مندروں کا گھنٹا تک نہیں بجا سکتے جو انکے ذات کے لئے نہیں ہیں وہاں براہمنوں کا بھگوان اور شودروں کا اور ہے۔ بھارت میں ذات پات کی تقسیم کا شکار ہونے والوں میں بھاگ چند بھی شامل تھابھاگ چند ان پاکستانی ہندوؤں میں سے تھا جو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے بھارت پہنچا اسے وہاں جودھ پور کے ایک کیمپ میں رکھا گیا اس کیمپ میں گزرنے والے چند دنوں میں ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ بھیانک غلطی کر بیٹھا ہے،بھاگ چندنے نیویارک ٹائمز کے نمائندے کے سامنے اعتراف بھی کیااورکہا کہ بعض دفعہ آپ جوش میں کوئی فیصلہ کر بیٹھتے ہیں اور پھر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ حقیقت کتنی مختلف ہے ،بھاگ چندکے ان جملوں کے پیچھے وہ تلخ سچائیاں تھیں جن کا سامنا اسے وہاں صبح شام کرنا پڑتا ہے،اس نے بتایا کہ ہندوؤں کے ہندو استھان میں آکر مجھے اپنی اوقات کا پتہ چلا مجھے میری ذات کی وجہ سے مندر جانے کی اجازت نہیں کہ وہ اونچی ذات والوں کا ہے،میرے دوست کو صرف اس بات پر بری طرح تشدد کیا گیا اورمار مار کر ادھ موا کر دیا گیا کہ اس نے براہمن ذات والوں کے کنویں سے پانی پی کر اسے ناپاک کر دیا تھا 2014ء میں پاک سرزمین کی جگہ بندے ماترم پڑھنے کا فیصلہ کرنے والے بھاگ چند نے صاف سے کہا کہ یہ فیصلہ میرے لئے بہترین نہیں تھا شائد میرے بچے آنے والے برسوں میں اسے ایک اچھا فیصلہ کہہ سکیں ۔ ان چشم کشا رپورٹس کے بعد بھارت کا ہندوؤں کا’’ ہندواستھان‘‘ بننا کس حد تک ممکن ہے یہ جاننے کے لئے کچھ زیادہ فہم کی ضرورت نہیں ،بھارت اصل میں براہمنستان ہے یہاں براہمنوں کی چلتی ہیء اور ان ہی حکومت ہے،ایک غلط فہمی یہ بھی دور ہوجانی چاہئے کہ بھارت میں ہندو مذہب کے ماننے والے اکثرئت میں ہیں ہاں یہ درست ہے کہ وہ نچلی ذات والے اکثریت میں ہیں جنہیں براہمن انسان ماننے کو بھی تیار نہیںلیکن انہیں اپنے اقتدار کے لئے انہیں اپنے ساتھ ملا لیتا ہے 1941ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی آبادی 39کروڑ تھی جن میں 64فیصد ہندو اور24فیصد مسلمان تھے6فیصد سکھ اور عیسائی بستے تھے،ان اعدادو شمار میں سب سے حیران کن سچ 70فیصد نچلی ذات کے ہندوؤں کی آبادی کا تھا ،ہندوستان کی چونسٹھ فیصد ہندوآبادی میں یہ شودر ذات کے ہندو قطعی غالب اکثریت میں تھے ،اس مردم شماری کے مطابق 39کروڑ کی آباد ی میں 27کروڑ30لاکھ ہندو تھے اور ان میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی تعداد19کروڑ10لاکھ تھی جبکہ 6کروڑ 96لاکھ کھشتری اوربراہمن صرف ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ تھے جو ہندوستان کے اصل حاکم بننے چلے تھے آج بھارت کی آبادی ایک ارب34کروڑ ہے اور یہ تقریبا اسی ترتیب سے قلیل اوراقلیت میں ہوتے ہوئے اکثرئت پر راج کر رہے ہیں ۔ جگداس کی بوڑھی آنکھوں سے ٹپکنے والے اشک اور بھاگ چند کی افسردگی آج بھی نظریہ پاکستان کی سچائی کی گواہی دے رہی ہے اوریہ ان پاکستانیوں کے سامنے کسی ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کی طرح کھڑاہے جو پاکستان کی تقسیم کو علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت قرار دے کر کف افسوس ملتے دکھائی دیتے ہیں جو پاکستان میں پانچ ستارہ ہوٹلوں کے گرم ٹھنڈے ہالز میں اقلیتوں کے دکھ میں ٹسوے بہاتے اور رپورٹیں جاری کرتے ملتے ہیںوہ پاکستان کو ایک انتہا پسند گھٹن زدہ ماحول والا ملک ثابت کرنے میں پورا زور لگاتے ملتے ہیں ان سے کوئی گلہ نہیں کہ معاملہ پیٹ کا ہے بات تو آج کے نوجوانوں کے سمجھنے کی ہے کہ نظریہ پاکستان اٹل سچائی اور ضرورت تھی اورآج اسکی گواہی جودھ پور اور جے پور میں بیٹھے جگداس کے اشک اور بھاگ چندکی افسردگی بھی دے رہی ہے۔