شاہ محمود قریشی اپنی جگہ سچے ہیں ملائشیا کانفرنس کے موقع پر ہمارے دیرینہ دوست سعودی عرب نے پاکستان کو بلیک میل کیا‘عمران خان کو کانفرنس میں شرکت کا مزہ چکھانے کے لئے لاکھوں پاکستانیوں کی ملک بدری اور معاشی مفادات کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی‘ مہاتیر محمد خاموش رہے مگر طیب اردوان نے محتاط الفاظ میں برادر ملک کے ’’حسن سلوک‘‘ کا تذکرہ کیا لیکن ردعمل ظاہر کرنے کا یہ کون سا موقع ہے؟ یہ کانفرنس عربوں کے خلاف منعقد کی جا رہی تھی نہ اس کے مقاصد میں مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کا نکتہ شامل تھا‘ جموں و کشمیر کے علاوہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف بھارت و اسرائیل کے سنگدلانہ جرائم‘ بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی ریشہ دوانیوں اور اسلامو فوبیا کی مذمت البتہ کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل تھی۔ قیادت کے دعویداروں کو یہ امر ناگوار گزرا کہ عجمی ممالک مل بیٹھ کر عالم اسلام کے اجتماعی مسائل پر غور کریں اور امریکہ و یورپ کی سیاسی‘ معاشی اور دفاعی بالادستی سے چھٹکارے کے بارے میں سوچیں۔ سعودی عرب ایک زمانے میں عالم اسلام کا لیڈر تھا‘شاہ فیصل کا دل فلسطینی‘ کشمیری اور دیگر مظلوم مسلم شہریوں کے ساتھ دھڑکتا تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس بلائی تو اس کی کامیابی میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے دامے ‘ درمے‘ سخنے کلیدی کردار ادا کیا‘ اسرائیل عرب جنگ میں انہوں نے تیل کا ہتھیار استعمال کر کے امریکہ و یورپ کو چونکا دیا حالانکہ اس جنگ میں شریک مصری سربراہ جمال عبدالناصر اور شام کے حافظ الاسد دونوں شاہ فیصل کے حریف تھے اور مصری و شامی ذرائع ابلاغ ہمیشہ شاہ فیصل کے خلاف زہر اگلتے ناصر اور اسد دونوں کو اسلام اور مسلمانوں سے زیادہ عرب قوم پرستی عزیز تھی اور اسلامی اتحاد سے یک گونہ عناد۔ لیکن اخوت اسلامی کا جذبہ جواں تھا اور سعودی شاہ باہمی اختلافات کو اُمہ کے وسیع تر مفادات سے متصادم نہ ہونے دیتے ؎ اخوت اس کو کہتے ہیں ‘ چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستاں کا ہر پیر جواں بے تاب ہو جائے اب مگر شاہ فیصل نہیں‘ شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کا سعودی عرب ہے جسے ایران‘ ترکی‘ ملائشیا ‘ انڈونیشیا ‘ پاکستان اور قطر کا مل بیٹھنا گوارا ہے نہ امریکہ کی ناراضگی مول لینے کا یارا۔آڑ او آئی سی کی لی گئی جو عرصہ دراز سے مردہ گھوڑا ہے اور جس کو 5۔ اگست کے بھارتی اقدام پر سربراہ کانفرنس تو درکنار وزراء خارجہ کی سطح کا ہنگامی اجلاس بلانے کی توفیق نہ ہوئی ؎ بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں یہ خاک کا ڈھیر ہے عمران خان اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے دل پر پتھر رکھ کر اپنے ایک دوست ملک کی تحکمانہ فرمائش مانی اور مہاتیر محمد‘ اردوان سے معذرت کر لی حالانکہ یہ کانفرنس عمران خان کی مشاورت سے ہو رہی تھی اور مقصد اسلامو فوبیا کی روک تھام کے لئے سوچ وبچار کرنا تھا‘ اس وقت عمران خان کی طرح شاہ محمود قریشی بھی خاموش رہے‘ قوم کو ایک بار پھر احساس ہوا کہ مقروض کی دنیا میں عزت ہوتی ہے نہ آزادانہ رائے۔ بھکاری کا لفظ میں جان بوجھ کر استعمال نہیں کر رہا‘ اب معلوم نہیں کیوں شاہ محمود قریشی برہم ہیں اور وہ بات سربزم کہہ دی جو پچھلے سال سات پردوں میں چھپائی گئی‘مگر ابھر کر سامنے آئی دانشمندی کا تقاضا یہی تھا کہ جب ایک دوست کی تحکمانہ فرمائش آپ نے مان لی‘ کانفرنس میں وزیر خارجہ کی سطح کا وفد بھیجنے کی جرأت بھی نہ کی تو پھر خاموشی ہی بہتر ہے مگر معلوم نہیں ترنگ میں آ کر وزیر خارجہ کیوں پھٹ پڑے اور وہ بھی 5۔ اگست کے روز جب پاکستان کو دیرینہ دوستوں کی مزید اعانت کی ضرورت ہے اور پاکستان کے سیاسی نقشے کو عالمی سطح پر متعارف کرانے میں یہی دوست بھر پور کردار ادا کرنے کے قابل ہیں‘چین ‘ سعودی عرب‘ ترکی‘ملائشیا ہی گنے چنے دوست ممالک ہیں جن کی دنیا میں کسی نہ کسی بہانے سنی جاتی ہے اور جو ہندوستان پر دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں ہیں۔ جب تک ہم مالی مشکلات سے دوچار ہیں لاکھوں پاکستانی عرب ممالک میں برسر روزگار ہیں اور ہمیں زرمبادلہ کے ذخائر خاص سطح پر برقرار رکھنے کے لئے سعودی عرب جیسے دوستوں کی اشد ضرورت ہے ان کی جائز و ناجائز فرمائشیں بھی پوری کرنی پڑیں گی‘ جس طرح ہم امریکہ کی کرتے اور فخر سے پھولے نہیں سماتے۔آزاد خارجہ پالیسی کے لئے مضبوط معیشت اور خود انحصاری و خود کفالت شرط اولین ہیں جس سے ہم کوسوں دور ہیں۔ ؎ ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے بال بال قرض میں جکڑا ہے عیش و عشرت کی زندگی میں ذرہ برابر خلیل ہمیں منظور نہیں‘ اسراف ہماری عادت ہے اور نمودو نمائش معمول‘عرب ممالک اپنے ہاں مقیم پاکستانیوں کو واپس بھیج دیں تو سنبھالنا مشکل ہو جائے۔ او آئی سی ان کے بغیر بے ضرر قرار داد منظور کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ بھارت کی سفارتی پیش قدمی کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی ہمیں انہی دوستوں کی مدد درکار ہوتی ہے اور ہم دو سال کے عرصہ میں عربوں کی بھارت میں سرمایہ کاری رکوانے کے لئے جارحانہ اقتصادی منصوبہ بندی نہیں کر سکے‘ چین ایران کو چار سو ارب ڈالر سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہا ہے ہم سے ساٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں سنبھالی جا رہی‘ لیکن خواب ہم او آئی سی کا متبادل پلیٹ فارم تشکیل دینے اور سعودی عرب سے صاف بات کرنے کے دیکھ رہے ہیں‘ مقروض معیشت آزاد خارجہ پالیسی کی متحمل نہیں اور منگتا کبھی بھی حق انتخاب نہیں رکھتا‘ یہی سچ ہے‘ تلخ سچائی۔ ؎ مانو نہ مانو جانِ جہاںاختیار ہے ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں