یہ کہانی دنیا میں نایاب ہوتے پرندے ’تلور‘ کے گرد گھومتی ہے۔ کہانی دلچسپ مگر تکلیف دہ ہے۔ متحدہ عرب امارات کے سابق حکمران شیخ زید بن سلطان النہیان نے 1977ء میں تلور کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کو محفوظ بنانے کے لئے عالمی سطح پر ایک پروگرام کا اجراء کیا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس پرندے کی ختم ہوتی نسل پر تحقیق کی گئی۔ 1989میں ابوظہبی میں تلور کی افزائش ِ نسل کا پہلا مرکز جسے ’نیشنل ایوین ریسرچ سنٹر‘ کا نام دیا گیا قائم کیا گیا۔1995ء میں تلور کی نسل کو محفوظ بنانے کے لئے بین الاقوامی سطح پر پروگرام ترتیب دیا گیا اور مراکش کے شہر مسعار میں ایک سنٹر قائم کیا گیا۔ اگلے ہی سال نیشنل ایوین ریسرچ سنٹر میں تلور کے پہلے بچے نے انڈے سے باہر آنکھیں کھولیں۔ 2004ء میں سنٹر کے اندر پیدا ہونے والے تلور کو متحدہ عرب امارات کے صحرا کی فضاؤں میں چھوڑا گیا۔ 2007ء میں سنٹر میں پیداہونے والی مادہ تلور نے جنگل میں انڈے دیے جبکہ 2009ء میں بین الاقوامی سطح پر تحقیقی مرکز میں پیدا ہونے والے تلور کو قزاقستان جہاں تلور کی سب سے بڑی آبادی پائی جاتی ہے وہاں فضاؤں میں چھوڑا گیا۔ 2012ء میں ابو ظہی ہی میں ’شیخ خلیفہ تلور افزائش ِنسل مرکز‘ کے نام سے دوسرا سنٹر قائم کیا گیا۔ 2016ء تک متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے عالمی سطح پر پچاس ہزار تلوروں کی افزائش نسل کے اعداد و شمار جاری کیے۔ 2018ء میں متحدہ عرب امارات نے ’کنزرویشن ایجوکیشن پروگرام: تلور ماڈل‘ کو متعارف کرایا تاکہ آئندہ نسلوں کو اس پرندے کے متعلق آگاہی دی جاسکے۔ ابتدائی تعلیم کی سطح پر بچوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے اسے سلیبس کا حصہ بنا یا گیا۔ اگلے سال متحدہ عرب امارات نے قزاقستان میں تلور یعنی ایک ہی قسم کے پرندے کی افزائش ِ نسل کا دنیا میں سب سے بڑامرکز قائم کیا۔ منصوبے کے قیام سے اب تک دنیا کے پندرہ ممالک میں متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے تقریباََ چھ لاکھ 29 ہزار 927 تلور وں کو مختلف صحراؤں میں آزاد کیا ہے۔ اب تک متحدہ عرب امارات کے بین الاقوامی فنڈ فار ہوبارہ (تلور) کنزرویشن نے دنیا کے قریباًچودہ ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ اِن ممالک میں امریکہ، روس، سپین، مراکش، الجیریا، اْردن، اسرائیل، عراق، سعودی عرب، یمن، قزاقستان، منگولیا، چین اور بھارت شامل ہیں۔ اصل کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ 2016ء میں شیخ زید نے ہوبارا فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کو بہاولپور کے تاریخی قدرتی جنگل لال سہانرا پارک کے قریب ’شیخ محمد بن زید کنزرویشن بریڈنگ سنٹر‘ کے قیام کے لئے فنڈز فراہم کیے۔اس سنٹر کا کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی فنڈ کے ڈپٹی چیئرمین شیخ محمد البْووردی نے دورہ کیا اور تلوروں کی سنٹر میں افزائش ِنسل کا معائنہ بھی کیا۔متحدہ عرب امارات کے حکمران اپنی ذاتی دلچسپی کے پیش ِ نظر اس نایاب پرندے کی نسل کشی کو بچانے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ اربوں روپے کی لاگت سے دنیا بھر میں تلوروں کی افزائش ِ نسل کے تحقیقی اوراْنہیں محفوظ بنانے کے ایسے ہی مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ ایک ایسا مرکز بہاولپور میں بھی واقع ہے جو ایک نیا جہان سموئے ہوئے ہے۔ پچھلے دنوں اس سنٹر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کی دیکھ بھال میجر طاہرمجید، میجر خالد لئیق اور ڈاکٹر بشارت سمیت کئی افراد کررہے ہیں۔ اِن کا اوڑھنا بچھونا، سونا، جاگنا اور آزاد ہواؤں میں سانس لیتے تلوروں، کالے ہرنوں، نیل گائے اور دیگر ایسے نایاب پرندوں اور جانوروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کی راتیں نایاب پرندوں کے ساتھ باتیں کرتے اور صبحیں اْن کی میٹھی میٹھی چہچہاہٹ سے ہوتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس طرح کے سبھی سنٹرز متحدہ عرب امارات کی مالی معاونت سے چل رہے ہیں۔ دنیا بھر سے نایاب پرندوں اور جانوروں کو یہاں چھوڑا بلکہ تاحال ساری فنڈنگ انٹر نیشنل ہوبارہ فاؤنڈیشن فراہم کرتی آرہی ہے۔ جب بہاولپور کے قریب یہ سنٹر بنایا جانے لگا تو مذکورہ تھیوری کو میڈیا کے ذریعے عوام میں نفرت پیدا کرنے کے لئے پھیلایا گیا۔ ابھی تک شاید عوام کا ایک بڑا حصہ اس کی اصل حقیقت کو نہیں جان پایا کہ جب متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے یہی تجویزبھارتی حکومت کو دی تو انہوں نے نہ صرف فوراً منظور کرلی بلکہ ساتھ ہی انہوں نے اس طرح کا کوئی بھی سنٹر پاکستان میں بنانے کی درپردہ مخالفت شروع کردی۔ بھارت آج بھی چاہتا ہے کہ متحدہ عرب امارات سمیت دیگر اسلامی ممالک پاکستان کی بجائے بھارت میں انویسٹمنٹ کریں۔ بھارتی مذموم عزائم کی معاونت بڑی حدتک ہمارا جذباتی پن کردیتا ہے اور کچھ ہمارا میڈیا نمائندگ۔کسی نے آج تک یہ سوچنے کہ زحمت گوارا نہیں کی کہ دنیا کی بہترین سہولیات میسر ہونے کے باوجود متحدہ عرب امارات کے حکمران ایک ایسے ملک سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں پہلے ہی بھوک، پیاس، غربت اور کرپشن پنجے گاڑھے بیٹھی ہے؟ اکثر کو یاد ہوگا کہ حالیہ سیلاب سے قبل صحرائے چولستان میں قحط کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی اور میڈیا حکومت پر برس رہا تھا۔ کسی نے زمینی حقائق کو جانچنے کی کوشش نہیں کی تھی۔کم لوگ جانتے ہیں کہ آج بھی روہی میں متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے انسانوں اور جانوروں کو پانی فراہم کرنے کے لئے کئی کنویں کھدوائے ہیں، کئی جگہوں پر سبزیوں کی دکانیں بنائی گئی ہیں جہاں انتہائی سستی سبزیاں روہیلوں کو میسر ہوتی ہیں۔ صحراکے اندر مساجد بنائی گئی ہیں۔ ان مساجد میں کام کرنے والوں کی تنخواہ آج بھی اماراتی حکمران ادا کررہے ہیں۔ آج بھی سلطان اربوں روپے کی فنڈنگ سے تلوروں، کالے ہرن، نیل گائے خرید کر اس سنٹر میں چھوڑتے ہیں تاکہ معدوم ہوتی نسلوں کو بچایا جاسکے۔ آج بھی ان پرندوں اور جانوروں کی دیکھ بھال اپنے بچوں کی طرح کرتے ہیں۔ حیران کن طور پر یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ہمارے اپنے ’محب ِ وطن‘ حکمرانوں اور نوکر شاہی کے کرتا دھرتاؤں نے اپنی ذاتی سفلی خواہشات کی تکمیل میں تلوروں اور کالے ہرنوں کا نہ صرف بے دریخ استعمال کیا بلکہ نسل کشی میں آخری حد تک چلے گئے۔