کسی درویش نے کہا تھا کہ جب تک راستے سمجھ میں آتے ہیں تب تک واپسی کا وقت آ جاتا ہے عمران خان اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کرنے کو ہیں اور واپسی کا وقت قریب ‘ مگر منزل سے کوسوں دور ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان کو منزل کا پتہ نہیں تھا منزل کا تعین تو بقول ان کے انہوں نے اپنی جماعت کے قیام کے وقت ہی کر لیا تھا اسی لئے جماعت کا نام تحریک انصاف رکھا تھا، یہ بھی نہیں کہ ان کو راستوں کی سمجھ نہ تھی اسلام آباد کنٹینر پر 128دن وہ قوم کو یہی باور کرواتے رہے کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی منزل کا حصول بے لاگ احتساب کے راستے پر چل کر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے بھلے ہی ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا مگر قوم نے ان کو ووٹ کرپشن کے خاتمے اور دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے پر دیے تھے۔عمران کو ادارہ جاتی اصلاحات اور نظام عدل میں میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا کر احتساب کو یقینی بنانا تھا۔اسے پاکستانیوں کی بدقسمتی کہیے یا عمران خان کا المیہ کہ اقتدار کی خواہش نے ان کو اپنے مقصد پر سمجھوتہ کرنے پرمجبور کیا۔ ایک یونانی مفکر نے سمجھوتے کو ایسا پتھر کہا تھا جو اگر مقصد کی ڈھلوان سے ایک بار لڑکناشروع کرے تو اس کی منزل نامرادیوں کی گہری کھائی ہوتی ہے۔ عمران خان بھی اقتدار کے لئے ایسے لوگوں کے محتاج ہو گئے جن کے لئے عبید اللہ علیم نے کہا تھا: سوائے اپنے کسی کے بھی ہو نہیں سکتے ہم اور لوگ ہیں لوگو ہمیں ستائو مت یہ انہی سمجھوتوں کا نتیجہ ہے کہ تحریک انصاف احتساب اور انصاف کی بلند چوٹی سے لڑکتی جا رہی ہے تین سال کے اقتدار میں عمران خاں کی حکومت کا احتساب صرف الزامات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ عمران خان کے وزیر مشیر ہر روز اپوزیشن کی کرپشن کی ایک نئی کہانی سنانے بیٹھ جاتے ہیں مگر آج تک کسی ایک سیاستدان سے لوٹی ہوئی دولت کی ایک پائی بھی وصول نہیں کر سکے۔ قومی خزانہ لوٹنے والے ایک کے بعد دوسرے مقدمے میں ضمانت ملنے پر ہی خود کو بے گناہ ثابت کر رہے ہیں۔ احتساب کے نام پر اس سے بڑھ کر اور کیا ڈرامہ ہو سکتا ہے کہ عدالت نے میاں شہباز شریف کو دو اگست تک ضمانت دیتے ہوئے ایف آئی اے کو اگلی سماعت تک الزامات کی تفتیش مکمل کرکے ریکارڈ ساتھ لانے کی ہدایت کی ہے۔وفاقی وزیر شہباز شریف حمزہ اور سلمان شہباز کے خلاف 25ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام لگا رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ کی اس انکوائری میں شریف خاندان کے ذاتی ملازموں کے نام شامل ہیں۔ الزامات کے مطابق شہباز شریف اور ان کے بچوں نے چپڑاسی، کلرک، کیشیئر اور گودام منیجرز کے نام پر منی لانڈرنگ کی۔ منی لانڈرنگ میں شوگر ملز ہی کے 20ملازمین کے بنک اکائونٹ استعمال کئے ۔چپڑاسی مقصود کے نام پر 2ارب 70کروڑ، حاجی نعیم کے نام پر 2ارب 80کروڑ اور ڈرائیور کے نام پر اڑھائی ارب روپے ،چپڑاسی اسلم کے نام پر ایک ارب 75کروڑ ،کلرکس اظہر ،غلام شبیر، خضر حیات کے ناموں پر ساڑھے چار ارب کی منی لانڈرنگ کا الزام ہی نہیں لگایا جا رہا بلکہ ملک ٹرانزیکشنز کے ثبوت ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے نے شہباز شریف کے خلاف تفتیشی رپورٹ تیار کر لی ہے جو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کر دی جائے اس رپورٹ پر عدالت کا ردعمل کیا ہو گا اس کا اندازہ ایف آئی اے کی تفتیش کے انداز سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایف آئی اے نے خود میڈیا کو شہباز شریف اور حمزہ سے تفتیش کے حوالے سے معلومات فراہم کی ہیں ان کے مطابق ایف آئی اے نے شہباز شریف سے 25سوالات کئے اور بقول شہباز شریف کے انہوں نے ایف آئی اے کے سوالات کے جواب دے کر اپنی بے گناہی بھی ثابت کر دی ہے جبکہ ایف آئی کا موقف ہے کہ سابق ویز اعلیٰ نے سوالات کے جو جواب دئیے وہ کچھ ایسے تھے ایف آئی نے سوال کیا کہ اربوں روپے کی جائیداد کیسے بنائی تو شہباز شریف کا جواب تھا میری بیگمات سے معلوم کریں، سوال تھا کاروبار میں حیرت انگیز اضافہ کیسے ہوا جواب سلمان شہباز سے پوچھیں۔ سوال مہنگی گاڑیاں کہاں سے آئیں جواب میرے بھتیجوں سے پوچھ لیں۔ ان سے سوال کیا گیا25ارب آپ کے اور آپ کے خاندان کے اکائونٹ میں جمع ہوئے اور نکالے بھی گئے کچھ تو جواب دیں، ان کا جواب تھا جواب میرے وکیل دیں گے۔ جس پر ایف آئی اے نے التجا کی حضور آپ بھی کچھ فرمائیں جواب دیا مسئلہ فلسطین بہت سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ شہباز شریف کی طرح حمزہ شہباز کو بھی اپنے اکائونٹ میں آنے والے اربوں روپے کا علم نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 2008ء سے 2018ء تک ممبر قومی اسمبلی رہنے کے باوجود منی لانڈرنگ کے 2010ء کے قانون سے لاعلم تھے، ان کو فیٹف قوانین کا بھی علم نہیں تھا۔ سیاست میں اس قدر مصروف تھے کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ ان کے اکائونٹ میں اربوں روپے جمع کون کروا رہا ہے۔ ان کو تو صرف اکائونٹ سے رقم نکلوانے کا ہنر آتا ہے۔ایف آئی اے 2اگست کو اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کروائے گی۔ عدالت میں ملزمان کے وکیل اپنا مدعا بیان کریں گے تو قانونی موشگافیوں کا کھیل شروع ہو جائے گا۔ انجام باقی کے مقدمات سے مختلف ہونے کی امید اس لئے نہیں کی جا سکتی کیونکہ حکومت انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ایک اور سمجھوتے پر آمادگی ظاہر کر چکی ہے۔ انتخابی اصلاحات پر کچھ دو اور کچھ لو کے اصول کا پہلے ہی وفاقی وزیر کہہ چکے ہیں۔عمران خان اقتدار کی خواہش میں سمجھوتے کرتے کرتے اپنے اس راستے سے بھٹک چکیجو بے لاگ اور بلا امتیاز احتساب کے ذریعے خوشحالی اور ترقی کی منزل کو جاتا تھا ۔عبیداللہ علیم نے ایسے ہی سمجھوتوں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے: تم اپنے رنگ میں نہائو، میں اپنی موج اڑوں وہ بات بھول بھی جائو جو آنی جانی ہوئی