کبھی غور کیجئے گا، آپ کسی کام میں محو ہیں، وہ کوئی اسائنمنٹ ہو سکتی ہے، کوئی پریکٹیکل یا آپ کی فیلڈ سے جڑ ی کوئی اہم ذمہ داری ۔ کام کے دوران آپ اچانک کسی ایسے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں،جہاں سے آگے کا راستہ آپ کو دکھائی نہیں دیتا۔ آپ پھنس جاتے ہیں۔ فرسٹریشن بڑھتی ہے ۔ کام یک دم رک جاتا ہے، اور آپ اپنے فون کی جانب بڑھتے ہیں اور فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے اپنا دھیان کسی اور جانب مرکوز کر لیتے ہیں۔ کام یوں ہی ادھورا پڑا رہ جاتا ہے ۔ کچھ دیر بعد آپ اپنے کام پر واپس نظر ڈالتے ہیں ۔ آپ کا ردھم تب تک ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔ آپ دوبارہ صفر سے اپنا کام شروع کرتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ جوں ہی کوئی مشکل مرحلہ ، کسی بھی کام کے دوران، آپ کے رستہ میں آتا ہے، آپ کیوں فوراً اپنے فون کی جانب لپکتے ہیں؟ اِس کائنات ِ آب و گل میں حضرتِ انسان کو یوں تو کئی اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،البتہ ماہرِ نفسیات، نفسیاتی پہلوئوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، سوچ کے دو مختلف زاوئے پیش کرتے ہیں، ایک کو ’’گروتھ مائنڈ سیٹ ‘‘کہا جاتا ہے اور دوسرے کو ’’فِکسڈ مائنڈ سیٹ‘‘ جو لوگ گروتھ مائنڈ سیٹ کے حامی ہوتے ہیں ، اِن کے ہاں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ڈپریشن، انگزائیٹی، اور ہر مشکل مرحلہ وقتی ہوتا ہے اور انسان اُن سے باآسانی باہر نکل سکتا ہے، کیوں کہ انسان اِتنا مضبوط ضرور ہے کہ مشکلات سے نپٹ کر اپنے سفرِ حیات کو جاری و ساری رکھ سکے۔ فِکسڈ مائنڈسیٹ کے حامل لوگ اِس کے برعکس پائے جاتے ہیں۔ مشکل وقت سے نبردآزما ہونے کی بجائے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیتے ہیں، کہ ’’ اب تو کچھ نہیں ہو سکتا‘‘۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ جو لوگ گروتھ مائنڈ سیٹ کے ساتھ زندگی میں چلتے ہیں، اِنہیں اپنی صلاحیتوں پر یقین ہوتا ہے۔ یہ خود اعتماد ہونے کے ساتھ ساتھ مثبت سوچ کے حامل بھی ہوا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کسی بھی مشکل وقت میں گھبرا کر کسی ایسی چیز کا سہارا نہیں لیتے جو مستقبل میں ان کے لیے پریشانیوں کا سبب بنے ۔ البتہ دوسری جانب فِکسڈ مائنڈسیٹ والے لوگ ہر عمل کے حوالے سے عموماً منفی سوچ رکھتے ہیں۔ ہر مشکل مرحلے کو دیکھ کر گھبراہٹ کا شکار ہوجانا اور پھر اس گھبراہٹ میں غلط فیصلہ کر لینا ، ان کی زندگیوں میں اکثر دیکھا جاتا ہے۔ پریشانی کا آنا یا کسی دکھ اور تکلیف میں انسان کا مبتلا ہونا ، یہ ہر شخص کی زندگی کی کہانی ہے، البتہ بنیادی فرق یہاں واضح ہوتا ہے کہ آپ کسی مسئلہ سے کیسے نمٹتے ہیں۔ ایک اور بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ کہ ایک انسان میں دونوں ہی مائنڈسیٹس کی ٹینڈنسی پائی جا سکتی ہے۔ فرق صرف اسکی شرح کا ہوسکتا ہے کہ آپ کی سوچ کا جھکائو کس طرف زیادہ ہے۔ ضروری نہیں جو شخص کسی ایک مرحلہ میں فکسڈ مائنڈ سیٹ کا مظاہرہ کرے، وہ ہر امتحان میں اسی سوچ کے ساتھ فیصلہ کرتا پھرے۔ آغاز میں جو ایک مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی، وہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ آپ کبھی اپنی زندگی میں بھی غور کیجئے گا کہ جب ایسا مرحلہ آپ کے کسی کام کے دوران آئے تو آپ کیا کرتے ہیں۔ عموما گروتھ مائینڈسٹ ایسے مراحل میں اپنا دھیان کسی اور طرف بٹانے کی بجائے ، اسی کام کو جاری رکھنے پر ابھارتا ہے، کیوں کہ ان کے لا شعور میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہـ’یہ بھی گزر جائے گاـ‘‘۔ ماہر امراض نفسیات نے یوں تو کئی ایسے علاج ڈھونڈ رکھے ہیں جو لوگوں کے ہاں پائے جانے والی فکسڈسوچ کو بدلنے میں مدد دے سکیں۔ البتہ اس تبدیلی میں جو بنیادی محرک ہے ، وہ اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ آپ مشکل میںہیں، اس مشکل کی وجہ سے فرسٹریٹ ہو رہے ہیں، لیکن آپ کو یقین ہے کہ یہ سب وقتی ہے اور آپ اس پر "over-come" کرلیں گے۔ ایسے کیسز کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ حالات کا مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں، جس کے باعث مشکل وقتوں میں کوئی چور دروازہ ، یعنی "escape route" کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ اور میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مشکل راستوں پر آسان راستون کو چننا ، ہمیں وقتی دشواریوں سے تو بچا لیتا ہے ، لیکن آنے والے وقتوں میں بڑی مصیبتیں ہماری منتظر ہوجاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی دشواری کو سر پر سوار کنے کے بجائے، اس کو مختلف حصوں میں بانٹ کر، اس سے مرحلہ وار نمٹنا ، اس سوچ کے ساتھ کہ اپنی بہترین کوشش کر کے باقی سب رب پر چھوڑ دینا زندگی کی بہت سی منازل کو آسان کردیتا ہے۔ گھبراہٹ انسانی حس ہے، اس نے محسوس ہونا ہی ہے، تاکہ آپ اس گھبراہٹ کے سبب کچھ کر نہ گزریں۔ پہاڑ کو سر کرنا اور پہاڑ کو سر پر سوار کرنا ، دو مختلف زاویہ ہیں، ان زاویوں کے اختلاف کو سمجھنا لازم ہے۔ فہمیدہ ریاض کہتی ہیں: کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے وہ تم کو خوف دلائیں گے جو ہے وہ بھی کھو سکتا ہے اس راہ میں راہزن ہیں اتنے کچھ اور یہاں ہو سکتا ہے کچھ اور تو اکثر ہوتا ہے پر تم جس لمحے میں زندہ ہو وہ لمحہ تم سے زندہ ہے یہ وقت نہیں پھر آئے گا تم اپنی کرنی کر گزرو جو ہوگا دیکھا جائے گا