جس وقت صدر ٹرمپ وزیر اعظم عمران خان سے تاریخی ملاقات میں اس امید کا اظہار کررہے تھے کہ پاکستان افغانستان میں لاکھوں جانیں بچانے کا سبب بن سکتا ہے، عین اسی وقت طالبان پکتیا میں ایک اہم فوجی چوکی کی فتح کا جشن منا رہے تھے۔ اس حملے میں اسلحے کی بڑی مقدار طالبان کے قبضے میں آگئی تھی۔ بچے کچھے فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے ۔ چھ افغان فوجی مارے گئے تھے جبکہ طالبان کے جانی نقصان کا اسکور صرف ایک تھا۔ ظاہر ہے یہ اپنی نوعیت کا اکلوتا حملہ نہیں تھا۔ اسی دن طالبان نے باٹی کوٹ ننگرہار میں ایک پولیس چوکی پہ حملہ کرکے پولیس کمانڈر ہدایت اللہ سمیت چار پولیس اہلکار ہلاک کر دیئے ۔ باقی پولیس اہلکاروں نے خو د کو اسلحے سمیت طالبان کے حوالے کردیا۔صدر ٹرمپ نے جس وقت عمران خان سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی جھونک میں کہا کہ وہ چاہتے تو افغانستان کا قضیہ دس دن میں نمٹا سکتے تھے لیکن وہ دس لاکھ جانوں کا ضیاع نہیں چاہتے تو عین اسی وقت طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد افغانستان کے مختلف صوبوں میں طالبان کی کامیاب کاروائیوں کی تفصیلات بتا رہے تھے۔صدر ٹرمپ کا جھونک میں دیا گیا بیان کوئی اتفاقی بیان نہیں ہے۔ امریکہ کے لئے لاکھوں انسانوں کا قتل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ یہی ترکیب بآسانی افغانستان میں آزما کر قصہ تمام کرسکتے ہیں ، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ صدر ٹرمپ احمق ہرگز نہیں ہیں جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے۔ وہ ہر حا ل میں اس قضیے سے امریکہ کی جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن ظاہر ہے ان کی تجویز قابل عمل نہیں ہے اور افغانستان کمبل بن کر انہیں چھوڑ نہیں رہا۔ درحقیقت انہوں نے محض ایک تجویز پیش کی ہے جس سے طالبان کا خاتمہ ممکن ہے لیکن اس تجویز پہ عمل ممکن نہیں۔ غالبا اسی وجہ سے امارات اسلامی افغانستان کے ترجمان نے جو مذمتی بیان جاری کیا وہ اتنا شدید نہیں تھا جتنا کہ ہونا چاہئے تھا۔ اس کے برخلاف وہ ایک متوازن اور معتدل جواب تھا۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو خاک میں ملانے کا خواب چنگیز خان، سلبنت برطانیہ اور سوویت یونین کو خاک میں ملا چکا ہے لیکن افغان قوم آج بھی سربلند کھڑی ہے۔امریکہ نے افغانوں کو ملیامیٹ کرنے میں کون سی کسر چھوڑی ہے؟گزشتہ اٹھارہ سا ل میں امریکہ افغانوں پہ وسیع تباہی کے تمام ہتھیار،بشمول بموں کی ماں کہلانے والا مہلک ترین بم بھی استعمال کرچکا ہے۔اٹھارہ برسوں کی ہلاکت آفرینی اور استبداد بے ثمر اور اس تاریخی حقیقت سے چشم پوشی کا ثبوت ہیں کہ افغانستان کو جارح سلطنتوں کا قبرستان کیوں کہا جاتا ہے۔صدر ٹرمپ کو غیرذمہ دارانہ بڑھکوں سے گریز کرتے ہوئے اصل مسئلے کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور ناکام پالیسیوں اور غیر عملی اقدامات کی جگہ حقیقت پسندانہ حل نکالنا چاہئے۔ آگے چل کر انہوں نے اس حقیقت پسندانہ حل کی وضاحت بھی کردی ہے جو اور کچھ نہیں بلکہ امارات اسلامی یا طالبان کی جانب سے پیش کردہ امن پلان تھا جسے تمام افغان قوم کی حمایت حاصل ہے۔بات درست بھی تھی۔یہ محض سفارتی اور سیاسی جواب تھا۔ اصل جواب کابل پکیتا ننگر ہار غزنی اور فرح میں دیا جارہا تھا۔مفتوح وائٹ ہاوس میں بیٹھا بڑھکیں مار رہا تھا اور فاتح وفود کی صورت میں ساری دنیا کے دورے کرتے پھر رہے تھے۔ میں نے ان مذاکرات کے آغاز میں ہی لکھا تھا کہ صدر ٹرمپ افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں اور وہ طالبان کے مطالبات پورے کرنے کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔ بات اس نکتے پہ اٹک گئی ہے کہ امریکہ افغانستان میں موجود اپنے عسکری اڈوں میں سے کچھ کو مستقل کرنا چاہتا ہے۔ظاہر ہے اس کی تزویراتی مجبوریاں ہیں۔میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر امریکہ کے اس مطالبے کو طالبان تسلیم کرلیں تو بے شک انہیں نظریاتی ٹھیس پہنچے گی لیکن پاکستان اور افغانستان دونوں کے حق میں یہ بہتر ہوگا۔ اب معاملات بہت آگے نکل آئے ہیں۔ افغانستان میں اسرائیل سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اس کی فوج وہاں امریکہ کے ساتھ ایک مستقل دفاعی معاہدے کے تحت موجود ہے۔اس کے علاوہ نجی عسکری کمپنیوں میں اسرائیلی کمپنیاں بھی موجود ہیں۔ یہ طالبان ہی نہیں پاکستان کے لئے بھی ناقابل قبول صورت حال ہے۔اس کی وجہ محض پاکستان اور اسرائیل کے درمیان روایتی سردمہری ہی نہیں مشرق وسطی میں گریٹر اسرائیل کی تیزی سے بنتی ہوئی صورت بھی ہے۔اس پیچیدہ صورتحال میں فی الحال طالبان برتر پوزیشن پہ ہیں اور وہ اس طرح ملکوں ملکوں مذاکرات کرتے پھر رہے ہیں جیسے افغانستان عملی طور پہان کے زیر کمان ہو۔ افغان حکومت کے ساتھ ان کے مذاکرات کی کوئی حیثیت ہے نہ وہ یہ کرنا چاہتے ہیں۔عمران خان اس وقت طالبان کی طرف کھڑے تھے جب پاکستان میں مشرف نے مکمل طور پہ پاکستان کو امریکی راہداری کا درجہ دے دیا تھا اور ہم اس جنگ میں ایک شرمناک فریق کا کردار ادا کررہے تھے۔ عمران خان کے نسلی پس منظر اور افغان جنگ میں ان کے اصولی موقف کی وجہ سے طالبان میں ان کا ایک خاص مقام پایا جاتا ہے۔ ان کی عزت میں اس حقیقت نے اضافہ کیا ہے کہ و ہ برسراقتدارآنے کے بعد زیادہ شد ومد سے اپنے موقف پہ نہ صرف ڈٹ گئے ہیں بلکہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ تو سترہ سال سے کہتے آرہے ہیں کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ان کی اس جرات مندی کے طالبان ہی نہیں صدر ٹرمپ بھی قدردان ہیں جو صدر بننے سے قبل افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاکے حامی رہے اور اوباما انتظامیہ کو اس بات پہ لتاڑتے رہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں تو ہم اپنے فوجیوں کو کیوں مرنے کے لئے بھیج رہے ہیں اور کیوں ٹریلین ڈالر وہاں جھونک رہے ہیں۔ صدر بننے کے بعد بھی ان کا موقف وہی ہے لیکن پینٹاگون کے عقاب انہیں اس قصے سے نکلنے نہیں دے رہے اور طالبان کے ساتھ ایسی شرائط رکھنا چاہ رہے ہیں جن پہ وہ راضی نہ ہوں یا کم سے کم انخلا کا مسئلہ پانچ سال تک ٹل جائے۔ طالبان تو اس وقت بھی ماننے والے نہیں تھے جب ان کا حلقہ رسوخ قندھاراور اس کے گردونواح تک محدود تھا۔ رہ گئے عمران خان یا پاکستان تو طالبان پہ ان کا اثر بس اتنا ہے کہ وہ عزت و توقیر کے ساتھ ان کی بات سن لیں۔ کرنا انہیں وہی ہے جو وہ کررہے ہیں یعنی ایک طرف مذاکرات اور دوسری طرف جہاد ۔ جس کی برکت سے وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔ اس تمام قصے میں پاکستان کے لئے خوش خبری یہ ہے کہ وہ اس سے زیادہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں جتنا وہ ماضی میں کرچکا۔ یہ بات صدر ٹرمپ جانتے ہیں۔اس لئے ڈو مور کا کوئی امکان نہیں ہے البتہ اس صورتحال نے پاکستان کو یوں وقار عطا کیا کہ افغانستان میں سترہ سال سے جاری امریکی جارحیت کے خلاف احتجاج کرنے والا اپوزیشن لیڈر آج ملک کے سربراہ کی حیثیت سے صدر ٹرمپ کو پوری جرات کے ساتھ کہتا ہے کہ میں تو پہلے دن سے یہی کہہ رہا تھا کہ تم غلط تھے۔