کاروبار بند نہیں ہوتا۔ کاروبار کائنات بہت خاموشی سے اپنے اتار چڑھائو سمیت مائل بہ سفر رہتا ہے۔ نبض کائنات ہر وقت سریع الحرکت نظام کی دسترس میں ہے۔ اظہار ہوتا ہے تو زاویے ذرا مختلف نظر آتے ہیں۔ اگر بصیرت کی روشنی ذرا مدھم ہو تو بہت بڑا فرق واقع ہوتا ہے۔ ضعیف البصیرت بے چارے ٹامک ٹوئیوں کا نام تجزیہ رکھتے ہیں۔ بے مقدور رصدگاہوں سے ساتویں آسمان کی خبر ٹٹولنے کی غیر مفید مشق آزمائی ان کا وسیلۂ نان مرغن ہے۔ الفاظ کے تیر قلم کے کمان سے اڑانا سب بے وقعت وقار قرار پایا ہے۔ اس لیے روز کی نئی مشق میں الفاظ‘ محاورے‘ مترادفات اور دیگر ادبی صنائع کو ایک پٹاری میں جمع کر کے گندم کے ساتھ بھوسہ فروشی کا دھندہ اہل قلم کا وطیرہ عام بن چکا ہے۔ فن کار‘ اہل فن‘ فن پرور‘ فن فروش اپنی مصروفیات میں ملی مسائل پر تبصرہ اور اپنی بصیرانہ رائے سے کبھی نہیں چوکتے لیکن درد و گداز اور سوز و الم میسر ہو تو الفاظ کی قیمت میں وزن محسوس ہوتا ہے۔ جو بے چارے ووٹ کے گداگر اور اقتدار کی شیرینی کے رسیا ‘ قلمکاروں کو عارضی نوکری پر رکھتے ہیں۔ قوم کے کتنے بڑے ہمدرد ہیں کہ روپے کے اشرافیہ اور قلم کے اشرافیہ کو دور جدید کی اصطلاح میں یک ورقی پر جمع رکھتے ہیں۔ گویا یہ بھی ایک سبیل اتفاق قومی اشرافیہ کی ہے اور وہ جو اشرافیہ کا نام لے لے کر غربا بچوں کو ڈراتے ہیں۔ وہ بھی اس اتحاد کی تیسری تکون ہیں کہ اشرافیہ کے ایک مشہور طبقے نے ان کی سرپرستی کی ہے۔ کچھ سمجھ دار اور درد سے باخبر اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ان موضوعات کو تازہ رکھا جائے جن موضوعات کی ضرورت قوم کو ہر دور میں رہتی ہے۔ قوم کا ایک اہم اور ہر عصر نو پر محیط مسئلہ تعلیم ہے۔ یہ مسئلہ ہرپہلو سے قابل اصلاح اورلائق ترقی رہتا ہے۔ قوم کی علامت قومیت کو توانا اور تازہ رکھنا بھی ایسے اہل دانش کا فطری فریضہ ہے جو قلم کے تقدس اور کمال سے آشنا ہوں۔ شکر خدا کہ بہت سے درد آشنا اپنی نگارشات کو قومی امور پر مثبت انداز سے پیش کرتے ہیں۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ تعلیم سے متعلق سرکاری محکموں میں اصحاب الرائے‘ رائے قام نہیں کرتے اور نہ ہی ترتیب خیال کا جھنجٹ پالنے کا تکلف فرماتے ہیں۔ وہ تو فائل کے فاعل مجرد اور ناقل محض ہوتے ہیں اور کھل جا سم سم کہہ بند ہو جا سم سم کہنا جانتے ہی نہیں۔ اب غلغلہ اٹھا ہے کہ وسط اگست میں بچوں اور بڑوں کی درسگاہیں کھل جائیں گی اور باقاعدہ سرکاری اشارات نے اسے مقام افواہ سے اٹھا کر مقام رنجیدگی اور سنجیدگی تک پہنچا دیا ہے۔ ذرا بڑے ارباب حکم نے کچھ گوارا نہ فرمایا کہ بتا دیتے کہ وبائے آسمانی کا منہ کب بھرے گا۔ حاکم اعلیٰ نہایت متانت سے قوم کو اطلاعاًخبردار کرتے ہیں کہ اگست میں یہ وبائے ناگہانی چڑیل بن کر اودھم مچائے گی۔ خیر اہل بصیرت اور صاحبان فکر و نظر دیکھ سکتے ہیں۔ کہہ بھی سکتے ہیں‘ کچھ اور بالکل بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ زبان سرکار درجہ حکم ہوتی ہے۔ زبان اور حکم کے راستے میں عقل حائل ہو تو عقل کو شمار میں نہیں لایا جاتا۔ عقل اشارہ کرتی ہے کہ ذرا ماضی کا تجربہ بھی نظر کے سامنے رہے تو عقل پر جنون شوق کا اندھیرا غالب آ جاتا ہے۔ تعلیم امور کی اصلاح اورقانون نو کی تدوین کے وقت حضرت جنون معتبر اور عقل بیدار کمزور قرار پاتے ہیں۔ ہر لمحہ مستقبل میں تعلیم کا مسئلہ بے آبرو ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ تعلیم کے قتل کو کسی جذباتی مسئلے کی آڑ میں ایسے فریبانہ انداز سے گم کرتے ہیں: دامن پہ کوئی چھینٹ‘ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کروہو اب ایسی کرامت ہوئی کہ کرامات کے قائلین انگشت بدنداں ہیں کرامات کے اضافے پر خوش‘ کہ دور فریب میں بھی کرامت دینی میسر آئی اور منکرین کرامت سیخ پا کہ اپنی خرابیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کیسا اقدام کیا ہے کہ: رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی سب واقفان حال اپنے احاطہ علم میں یہ خبر مطمئن رکھتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل نمبر 3 میں یہ تحریر ہے کہ ریاست کے ہر فرد کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے بہرہ مند کرنا ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن خوانی سے لے کر احکامات قرآن اور سنت و سیرت کی کماحقہ آگاہی جس سے ریاست کے شہری میں اخلاقی اور قانونی علم کی صلاحیت پیدا ہو جائے نہایت ضروری ہے۔ تو اب ریاست اہتمام کرے گی تعلیمی اداروں میں ایسی تعلیم و تربیت کا،جس سے یہ شعور و عمل کردار فرد میں اتر آئے۔ یہ بہت خوش آئند اور اطمینان بخش توقعات ہیں۔ گزشتہ دنوں گورنر پنجاب نے پنجاب کی چنیدہ جامعات کے سربراہان کی ایک مشاورتی جماعت تشکیل دی اور بعد ازمشاورت حکم دیا کہ اب کسی بھی یونیورسٹی کے منتھی فارغ التحصیل کو مکمل قرآن شریف معہ ترجمہ پڑھنا لازمی ہے۔ یعنی اس کی فراغت علمی و فنی کے لیے یہ شرط لازمی ہے۔ جناب گورنر کے اس حکم پر طائفہ معترفین نے اپنے اپنے رنگیں چشموں سے نئے نئے رنگ تلاش کئے اور گورنر صاحب کے طرز حکم پر اپنی سی کہی۔ خیر یہ تو ان کا میدان باطن ہے جہاں پر ان کی اپنی تمنائوں کے بادل ہیں جو برستے ہیں اور یہ چارہ گر گرجتے خوب ہیں۔ انہیں حکم گورنر سے نہیں کسی اور خفیہ درد سے شکایت ہے۔ قرآن کی تعلیمات کا کوئی بھی مرحلہ عموماً اور سرکاری اداروں میں خصوصاً بہت حساسیت اور احتیاطکا تقاضا رکھتا ہے۔ سب سے اہم گزارش تو ہے مشاورتی کونسل سے جو روئوسائے جامعات پر مشتمل تھی کہ آپ نہایت تجربہ کار اور صاحب بصیرت لوگ ہیں۔ آپ کے اداروں میں قرآنیات اورتعلیم و تدریس کے شعبہ سے متعلق تجربہ کار اساتذہ بھی موجود ہیں۔ (جاری ہے)