آج علی الصباح جناب عثمان بزدار کے فیض سے جناب فیض احمد فیض کی ایک نہایت مرصع غزل یاد آئی’’دائرہ سیاست کی تلخی کو غزل کی شیرینی سے دور کرنے کے لیے پہلے کچھ اشعار گنگنا لیتے ہیں۔ رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے رندکا، ساقی کا، مے کا، خم کا، پیمانے کا نام ہم سے کہتے ہیں چمن والے، غریبانِ چمن تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام پاکستان و ہندوستان میں انگریزوں کے زمانے سے پٹواری ایک نہایت اہم عہدے یا منصب کا نام ہے۔ کہنے کو پٹواری کا گریڈ اور اسے سرکار سے ملنے والی تنخواہ معمولی ہوتی ہے مگر اوپر کی کمائی کا کوئی شمار نہیں۔ زرعی زمینوں کا حساب کتاب رکھنے والے کو برصغیر پاک و ہند میں پٹواری کہا جاتا ہے۔ پٹواری کے قلم میں وہ قوت ہوتی ہے جو بڑے سے بڑے کالم نگار یا بڑے سے بڑے منصف کے قلم میں بھی نہیں ہوتی۔زمین کی ملکیت کے کسی تنازع کا عدالتی فیصلہ ہوتے ہوتے بعض اوقات دہائیاں بیت جاتی ہیں اور نسلیں بدل جاتی ہیں مگر پٹواری بیک جنبش قلم ایسی کرشمہ سازی کرتا ہے کہ مالک کو مزارع اور مزارع کو مالک بنا دیتا ہے۔ بڑے بڑے جرنیل حکمران اور سیاست دان بسا اوقات پٹواری کی ان کرشمہ سازیوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لیے پٹواری کے ساتھ ہمارے دیہاتی معاشرے کا محبت، نفرت کا ملا جلا تعلق دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے پٹواری کی ان چیرہ دستیوں سے نجات دلانے کے لیے اس کے عہدے کا نام بدلنے کا فیصلہ کیا ہے اب پٹواری، ویلج آفیسر کہلائے گا۔ اس کا گریڈ بڑھا دیا جائے گا اور اس کی تربیت کا انتظام و اہتمام بھی ہو گا۔ جناب عثمان بزدار کی طبیعت بظاہر شاعرانہ نہیں لگتی مگر ان کے شاعرانہ اقدامات کسی اور ہی کہانی کی غمازی کرتے ہیں۔ کچھ مدت پہلے انہوں نے پنجاب پولیس کی گہرے سبزی مائل خاکی رنگ کی وردی کو ہلکے نیلے رنگ کی وردی سے بدل دینے کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کی تھیوری یہ تھی کہ ہلکے رنگوں کی یہ شاعرانہ وردی پولیس کے بارے میں سافٹ امیج اجاگر کرے گی۔ اب انہوں نے پٹواری کا فرینڈلی امیج ابھارنے کے لیے اس کا نام ’’ویلج آفیسر‘‘ تجویز کیا ہے۔ ’’میری زمین‘‘ کو شاملات کہہ کر سرکاری ملکیت ثابت کر دینا اور سرکاری زمین کو ’’میری زمین‘‘ ثابت کر دینا پٹواری کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس پر کوئی زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ گزشتہ 72برس میں پٹوار یا پولیس کلچر میں بے شمار کاوشوں کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جناب بزدار کی ناموں اور وردیوں کی کاسمیٹک تھیراپی سے کتنی تبدیلی آئے گی اور یوں بھی پی ٹی آئی کی حکومت کا محبوب و مرغوب نعرہ ’’تبدیلی‘‘ ہے۔ آج سے کئی دہائیاں قبل قدرت اللہ شہاب نے اپنی شہر آفاق آپ بیتی ’’شہاب نامہ‘‘ میں بھی ایک پٹواری کا ذکر کیا تھا۔ یہ غالباً 1950ء کی دہائی میں جھنگ کے علاقے کا واقعہ ہے جہاں وہ ڈپٹی کمشنر تھے۔ یہ واقعہ سنانے سے پہلے میں اپنی ینگ جنریشن کو یہ بتا دوں کہ جناب قدرت اللہ شہاب کون تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے ادب اور بیورو کریسی کی شاہراہوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انہوں نے ہمارے معاشرتی و سماجی زندگی کے نقوش کہنہ کو آئین نو سے بدلنے اور خلق خدا کی خدمت کے لیے جدید تصورات کو رائج کرنے کی بھرپور مساعی کی۔ بیورو کریسی کے اعلیٰ سے اعلیٰ مراتب پر فائز ہونے کے باوجود ان کی شخصیت میں عجز و انکساری، صبر و استقامت، فرض شناسی، حب الوطنی، دیانتداری اور سب سے بڑھ کر خود شناسی اور خدا شناسی نمایاں تھی۔ ادبی دنیا میں بھی انہیں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ انہوں نے 1940ء میں آئی سی ایس میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ادب اور بیورو کریسی ساری زندگی شہاب صاحب کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ان کا پہلا افسانہ 1938ء میں ’’چندراوتی‘‘ کے نام سے شائع ہوا ان کا شاہکار ناولٹ ’’یاخدا‘‘ 1948ء میں پہلی مرتبہ کراچی سے شائع ہوا۔ یہ ناولٹ تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھا گیا تھا تاہم جس کتاب نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا وہ ان کی ضخیم آپ بیتی ’’شہاب نامہ‘‘ہے جو ان کی وفات کے ایک سال بعد 1987ء میں مکتبہ سنگ میل لاہور نے شائع کی تھی۔ اسی ’’شہاب نامہ‘‘ میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں ’’ایک بڑھیا نے میرے دفتر کے کئی چکر لگائے اور اہل کاروں نے ’’صاحب میٹنگ میں ہیں‘‘ کے معروف بہانے سے اسے مجھ تک نہ پہنچنے دیا۔ ایک روز بڑھیا کی مجھ تک رسائی ہو گئی۔ میں نے نہایت غور کے ساتھ اس کی بپتا سنی۔ اس نے بتایا کہ فلاں موضع میں فلاں قطعہ اراضی اس کی ملکیت ہے وہ کئی مرتبہ پٹواری کے پاس انتقال کے لیے جا چکی ہیں مگر پٹواری بغیر کچھ لیے دیئے اس کی سننے کو تیار نہیں۔ میں نے بڑھیا کو سرکاری جیپ میں بٹھایا اور پٹواری کے دیہاتی دفتر میں جا پہنچا۔ پٹواری نے مجھے پہچان لیا اور خاصا گھبرایا میں نے اسے بڑھیا کا کام بتایا تو پٹواری نے روایتی حربہ استعمال کیا کہ سر آپ مطمئن ہو جائیں تعمیل ہو گی۔ میں نے کہا کہ نہیں ابھی اسی وقت میرے سامنے انتقال رجسٹر پر چڑھائو۔ اس نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق فوراً کام کر دیا۔ بڑھیا کے انگوٹھے لگوائے بڑھیا کو ہم نے جیپ میں بٹھایا۔ واپسی پر بڑھیا بچشم نم مجھے دعائیں دیتی رہی۔ اس نے اپنے دوپٹے کے پلو میں بندھے ہوئے 14آنے کھولے اور نہایت شفقت کے ساتھ میری ہتھیلی پر رکھ دیئے اور کہا ’’پتر!میرے کول ایہہ پیسے ہی ہئین‘‘ اس شفقت کے سامنے میں نے ہتھیار ڈال دیئے ساری زندگی کی یہ واحد رشوت ہے جو میں نے لی ہے‘‘۔ قدرت اللہ شہاب کے زمانے سے لے کر آج بزدار صاحب کے زمانے تک اس پٹوار کلچر میں کوئی فرق نہیں آیا۔ صرف ویلج آفیسر کہنے سے پٹواری اور پٹوار خانے کا نظام نہیں بدلے گا۔ جب تک ٹھوس بنیادوں پر تعلیم و تربیت اور منصوبہ بندی کے ساتھ تبدیلی نہیں لائی جائے گی۔ اس وقت تک وردیوں اور ناموں کی تبدیلی سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ نہ جانے ان دنوں عثمان بزدار کے کون مشیر ہیں۔ ہر روز بزدار صاحب کے نام سے عالمی معاملات، قومی سیاست اور اپوزیشن کی گوشمالی وغیرہ کے بارے میں بیانات جاری کیے جاتے ہیں جو ان کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ جناب بزدار کو معلوم ہونا چاہئے کہ پنجاب کے اہم ترین مسائل میں گڈ گورننس پہلے نمبر پر ہے۔ جو اس وقت عنقاہے۔ اس کے علاوہ معاشی پالیسیوں کی بنا پر اگر ایک شے کی قیمت میں دس فیصد اضافہ ہوتا ہے تو پنجاب میں چھوٹے بڑے تاجر اپنی مرضی سے تیس چالیس فیصد تک قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہر روز پنجاب میں کارخانے اور کمپنیاں بند ہو رہی ہیں اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ صرف لاہور ہی نہیں پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی ڈکیتیاں عروج پر ہیں۔ پنجاب حکومت کے لیے گزشتہ کئی ماہ سے ڈینگی کی تباہ کاری بہت بڑا چیلنج ہے مگر ابھی تک اس پر نہ صرف قابو نہیں پایا جا سکا بلکہ موسم کی خنکی کے باوجود ہر طرف ڈینگی کا راج ہے اور اموات ہو رہی ہیں۔ بزدار صاحب کو ان کاموں پر بہت توجہ دینی چاہئے۔ جناب بزدار کا جذبہ قابل قدر ہے مگر تجربہ یہی بتاتا ہے کہ اپنے ’’دیوانے‘‘ یا ’’ویرانے‘‘ کا کوئی اچھا سا نام رکھ کر کوئی جوہری فرق واقع نہیں ہوتا۔