کیا فائدہ اس ادب یا آرٹ کا، زندگی میں جو مدد نہ دے سکے، کچھ بھی دل جْوئی نہ کر سکے؟ عمدہ ادب ع عروس ِجمیل و لباس ِحریر کا مثیل ہونا چاہیے! یعنی ع لفظ بھی چْست ہوں، مضمون بھی عالی ہووے یہ نہ ہو کہ ع کوا اندھیری رات میں، شب بھر اْڑا کیا یا وہ مشہور سیالکوٹی شاعر، جو لفظ بڑے لطیف اور نہایت ملائم لاتے تھے، مگر موزوں یہ لفظ شاذ ہی ہوتے! بڑا ادب، ہر دور کے لیے اور اچھا ادب، کم از کم اپنے عہد کا آئینہ ہوتا ہے! غالب کے مشہور قطعے "ظلمت کدے میں۔۔ اِلخ" اور داغ دہلوی کے "یہ پوربیے نہیں آئے، خدا کا قہر آیا" والی نظم سے لے کر جوش ملیح آبادی کے "ایسٹ انڈیا کے غلاموں سے خطاب" تک، اچھی مگر وقتی چیزوں کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ لیکن یہ قطعہ، کم نظری اور گردش ِزمانہ نے، جس پر دْھول ڈال دی ہے، ملاحظہ ہو۔ ہاون تو ہے ہَوَس کا، دستہ ہے پالِسی کا پر اس طرف تصور جاتا نہیں کسی کا ہے کوفت لیکن اس پر مسرور ہو رہے ہیں ہر سْو اچھل رہے ہیں، اور چْور ہو رہے ہیں اس قبلہ رْو جماعت کا انتشار دیکھو اس باغ میں خزاں کی، اکبر بہار دیکھو لکھے گا کِلک ِحسرت، دنیا کی ہسٹری میں اندھیر ہو رہا تھا، بجلی کی روشنی میں یہ بیک وقت، مناسبت ِلفظی اور صنعت ِتضاد کا شاہکار تو ہے ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ، لفظ اور معنی مِل کر ایسی تصویر بنا رہے ہیں، جو بڑے بڑے مصوروں کو عاجز کر دے! یاد رہے کہ "کوفت" کے لْغوی معنی، ضرب کرنے اور کْوٹنے کے ہیں۔ باورچی خانے میں اگر آپ کا کبھی گزر ہوا ہو، تو سِل بٹے کا ہم قبیل، ہاون دستہ بھی ضرور نظر پڑا ہو گا۔ کھرل میں پڑی ہوئی شے کی، مْوسل سے کْٹائی بھی آپ نے دیکھی ہو گی۔ ضرب پڑتی ہے اور دانے کْچلے اور پِسے جاتے ہیں۔ مگر کچھ اْچھل اْچھل کر ہر طرف بکھرتے بھی جاتے ہیں۔ پھر انہیں سمیٹ کر دوبارہ کْٹائی ہوتی ہے۔ دانوں کو قوم متصور کیجیے اور اچھل کْود کے اس ہیجانی منظر کو، دوبارہ دیکھیے! پِسنے والوں کو خبر ہے نہ احساس اور یہ سب ہو رہا ہے "بجلی" کی روشنی میں! یہ قطعہ، یو این کے تازہ اجتماع کو دیکھ کر یاد آ گیا۔ وہ جو حافظ نے کہا ہے کہ مجْو درستی ِعہد، از جہان ِسست نہاد کہ این عجوز، عروس ِہزار داماد است یعنی، اس ٹیڑھی دنیا سے سیدھ کی ، نہ امید رکھو اور نہ لَو لگائو، اس لیے کہ یہ بْڑھیا، بیک وقت ہزاروں کی دْلہن ہے! سو کسی بھی مسئلے کو خراب یا کم از کم معطل کرانا ہو، تو اس "عروس ِپنج داماد" کا قدم درمیان میں لے آئیے۔ پھر ساری عْمر اسے جھینکتے رہیے، وہ حل نہیں ہو گا۔ دراصل، یہ تماشا گاہ ہے، جس میں مظلوموں کی چیخ پْکار، گونجتی بہت ہے، نتیجہ خیز کبھی نہیں ہوتی! امریکن صدر کا مودی کو ہْشکانا اور پھر پاکستانی وزیر ِاعظم کی موجودگی میں، مودی کے رویے کو جارحانہ قرار دینا، یہ باتیں بھی، اتنی سادہ ہیں نہیں، جتنی سمجھی جا رہی ہیں۔ نہیں بھْولنا چاہیے کہ دنیا نیوکلیئر جنگ کے خلاف ہے، "سادی" جنگ کے نہیں! ٭٭٭٭٭ عمران خان یو این میں! پاکستانی وزیر ِاعظم، دورے پر روانہ ہوئے تھے تو اس وعدے کے ساتھ کہ کشمیریوں کا مقدمہ، میں دنیا کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں۔ اپنی تقریر میں بھی بار بار، انہوں نے یہ کہا کہ "میں یہاں صرف اس لیے آیا ہوں کہ۔۔"۔ تقریر کو انہوں نے چار حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلے میں یو این کے ایجنڈے پر گفت گو تھی۔ دوسرے میں، جن چوروں کی طرف اشارہ تھا، ان سب نے اپنی داڑھیاں کھْجانا شروع کر دی ہیں! اس پر اعتراض یہ بھی ہے کہ اپنے گندے پوتڑے، سر ِ بازار کیوں دھوئے جائیں؟ سوال اٹھتا ہے کہ یہ "پوتڑے"، جب دنیا بھر میں سر اٹھاتے رہے، تو کیا "نیک نامی" ہوتی رہی؟ کون سا بڑا شہر ہے اور کون سا بڑا بینک، جہاں ان "پوتڑوں" کے "ڈپازٹ" موجود نہ ہوں؟ اس سے تو کوئی بدنامی مْلک کی نہیں ہوتی۔ مگر اس کھْلی ہوئی حقیقت کا اعتراف، ہمیں بدنام کر دیتا ہے! پھر انہوں نے مسلمانوں کا مقدمہ، بڑے موزوں الفاظ میں پیش کیا۔ مبالغہ نہیں کہ عمران خان مغرب سے کم اور مغرب عمران خان سے زیادہ متاثر ہے! پاکستانی سیاست دانوں میں، یہ کریڈٹ سب سے زیادہ انہی کو جاتا ہے کہ پرویز مشرف اور پھر آصف زرداری اور نواز شریف نے قوم کو، جب امریکن جنگ میں دھانسا ہوا تھا، تو عمران خان اس کی مخالفت کرتے رہے۔ خْدا کی قدرت کہ ان تینوں کا حال، عبرت انگیز ہے! ایک کو مْلک واپس آنے کی راہ نہیں مِل رہی۔ دوسرے کی بدعنوانیاں، ساری دنیا میں مشتہر ہو گئیں۔ تیسرا، کسی کٹھ پْتلی کے مانند، ایک اشارے پر فرار ہونے کی تیاریاں کرتا ہے اور پھر مایوس ہو کر، کمر اسے کھولنی پڑتی ہے۔ تقریر کی اَور خوبیاں اپنی جگہ، یہ غالباً پہلی دفعہ ہوا ہے کہ اسلاموفوبیا پیدا کرنے والوں کے سامنے، برملا اس کے اسباب بیان کر دیے گئے! گمان بھی نہ ہو کہ کوئی اثر ان پر پڑا ہو گا۔ کیوں نہ ہو، مادّہ پرستی ان پر پوری طرح حاوی ہو چکی ہے! کشمیر کا مقدمہ، اس ساری تمہید کے بعد پیش کرنا، بڑا موثر رہا! واقعی، کشمیریوں کا مقدمہ، اس سے پہلے، کسی بھی حکمران نے اتنے زوردار طریقے سے پیش نہیں کیا۔ جن بدبختوں کو دھمکانا تھا، انہیں دھمکا بھی دیا گیا۔ یہ ساری خوبیاں اپنی جگہ،لیکن سب سے بڑھ کر، آنحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جو مِدحت، عمران خان نے اقوام ِعالم کے روبرو کی ہے، اس کا اجر، خْدا کے ہاں تو جمع ہو گا ہی، مسلمانوں کے دِل بھی انہوں نے جیت لیے ہیں۔ پیمبر ِعربیؐ کا آبروے ِہر دو سرا ست کسی کہ خاک ِدرش نیست، خاک بر سر ِاوست! دونوں جہان کی عزت، آن حضورؐ کے دم قدم سے ہے۔ خاک میں مِل جائے وہ، جو آپؐ کی خاک ِپا بننا، اپنا حاصل ِزندگی نہ جانے!