شور اور پکار ہر سو سے برآمد ہو رہی ہے۔ بے یقینی اور مستقبل میں کسی بھی اچھی صورتحال کی امیدیں مایوسی میں لپٹتی نظر آتی ہیں۔ حکومتی حلقوں کی روایتی حاشیہ بردار نوکر شاہی کے جھتے اپنی پوری استعداد اور چالاک فکری سے حکومتی ذمہ داران کے گرد حلقہ بنائے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ملک میں ابھی تک انتظامی استحکام ندار دہے۔ نچلی سطح سے لے کر اوپر تک تبادلوں اور تعیناتی کی حکایت روزمرہ کی دلپذیر، دلچسپ اور خوفناک مصروفیت ہے۔ کام کرنے والے سہم کر رہتے ہیں زور آور کسی نہ کسی کی گردن پر بھاری ہوتے ہیں۔ سیاسی داخلی گروہوں میں حسب سابق شکست و ریخت کا عمل جاری ہے اور صوبائی حکومتوں میں کسی نہ کسی طرح اونچ نیچ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت پر مرکزی حکومت کے اثرات یا بلوچستان کی حکومت یا زور آور منصب داروں کے اثرات اپنے اتار چڑھائو سے دونوں گروہوں کے ذمہ داران کو حکومت کی اصل ذمہ داری پوری نہیں کرنے دیتے۔ صوبہ سندھ میں مقامی اور مرکزی سیاسی استحکام کا رویہ بھی معدومیت کی جانب بڑھتا رہتا ہے۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کا عمومی محتاط رویہ اور کبھی جارحانہ انداز مرکزی حکومت کے نو ذوق کھلا کھلاڑیوں کو زبان کا الٹا دھرا گھمانے میں مصروف رکھتا ہے۔ مخالفین پر طنز کے نشتر چلانا اور پھر اپنی شرافت کا ڈھنڈورہ پیٹنے پر جو خاصہ داران مامور ہیں وہ قوم کے خالص ٹیکس سے روٹی کھاتے ہیں۔ گاڑی میں تیل ڈلوانے میں اور بڑے پرآسائش گھروں میں نوکر چاکر ماحول میں شب روز گزارتے ہیں۔ قوم کے غم میں رونے کے لئے اور اپنی کھال بچانے کے لئے جس پلیٹ فارم پر یہ لوگ اپنا دکھڑا روتے ہیں، وہ بلند ایوان ہیں جہاں پر یہ لوگ سرکاری رہائش سرکاری خورو نوش اور سرکاری سفر کی مراعات کے سہارے براجمان ہوتے ہیں۔ ایک دھڑے کا نمائندہ تقریر کرتا ہے۔ بقیہ حمایتی تالیاں پیٹتے ہیں۔ شور شرابا ہوتا ہے۔ دوسرے فریق کا مقرر اپنی خطابتی قوتوں کو جمع کرنا ہے شکوہ الفاظ کی مدد سے اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ دوسری جانب خون کھولتا ہے۔ پھر بے چینی بے قراری اور بے زاری کے بعد ھا ھو کا دور شروع ہوتا ہے یوں میخواران میکدہ سیاست اودھم مچاتے ہیں بے خودی میں اپنی خودداری کا مظاہرہ ہوتا ہے بیک لمحہ یہ ساری تصویری ہنگامہ خیزی پوری دنیا کو بتاتی ہے کہ پاکستان کے ارکان اسمبلی دشمن کو مارنے کے لئے جمع نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنے مجبور و مقہور کشمیری بھائیوں کی ہمدردی کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ تو دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے پرسکون ماحول میں آ دھمکتے ہیں۔ ادھر وہ پرانے اقتداری چٹورے اب ایوان سے باہر ہیں کام کاج ختم ہو گیا ہے۔ مراعات سرکار نے کوئی اور گھر دیکھ لیا ہے۔ فی الحال ان کی ہتھیلی پر سے سنگھاسن کی ریکھا مٹی ہوئی ہے لیکن زبان تو شمشیر بے نیام ہے ۔ ہمہ لمحہ مائل بہ مبارزت رہتی ہے۔ ماضی میں اولاد کے لئے مستقبل بنانے کا پرامن سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ہر طرف سے دھن برستا تھا۔ اب سب خشک سالی ہے برکھا روٹھ گئی ہے۔ سب کو بلا بلا کر اچھے اچھے سپنے دکھا کر حکومت گرانے کے لئے تیار کرتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کی کالی رات کو روشنی میں بدلنے کے لئے سادہ لوح عوام سوچتے ہیں۔ غریب بے لوث مذہب پرست عوام اپنے جذبات کے بہائو میں جلوس نکالتے ہیں۔ اپنے مسلمان بھائیوں کی قید اور ان کی ذلت آمیز زندگی پر تڑپتے ہیں اور سڑکوں پر آ کر اپنی ذات کو قربانی کے لئے پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلامی امہ کا سب سے بڑا مسئلہ کشمیر مظلموں کی داد رسی ہے۔ ان کے راسخ عقیدے میں اپنی مسلمان عفت مآب بہنوں کی حرمت کی حفاظت ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان کی آزادی، قومی وقار اور خوشحالی کشمیر کی آزادی کے ساتھ بندھن ہوتی ہے۔ پاکستان کی طالبان اقتدار سیاسی و مذہبی پارٹیاں اپنے گروہی مفادات کو ناقابل فراموش سمجھتی ہیں اور وہ حالات کی نزاکت میں بھی اپنے گروہی مفادات کی پوٹلی بغل میں دبائے ہر جگہ ‘ ہروقت ‘ ہر سمت مبنی برفساد عملی پروگرام پیش کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں خفیہ سودے بازی کرتے ہیں اور پھر اپنے تقدس مآب لباس کی آڑ میں جسے چاہیں کفر کی انی پر اٹھاتے ہیں۔ کشمیر کسی بھی سیاسی یا مذہبی گروہ کی مہم جوئی کا ہدف ہرگزنہیں بن سکتا اور نہ ہی کسی روایتی مفاد پرست اور خود فروش کے لئے لقمہ تر ثابت ہو سکتا ہے یہ ایک حقیقی انسانی اور اسلامی اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے پوری دنیا خواب خرگوش میں مصروف ہے۔ کشمیریوں پر جبر و قہر کے ٹوٹتے پہاڑ ان کی دنیائے خیال سے بالکل خارج ہیں۔ قوم کی بیداری کے لئے کون ذمہ داری اٹھائے گا؟ اور کون ہندو توا کے فتنے کا قلع قمع کرنے کے لئے قوم کے خیالات منظم کرے گا؟ فی الحال پاکستان میں منظم سیاسی اور مذہبی قوتیں اپنے روایتی احتجاج‘ جذباتی تقریروں اور اپنے مخصوص نقطہ ہائے نظر کی پابندیوں سے آزادنظر نہیں آتیں اور ابھی تک کسی بھی تنظیم کی جانب سے قومی اتحاد یا کسی بھی متحدہ تنظیم کی تشکیل کا عندیہ نہیں ملا ہے۔ بلا تفریق مذہب و مسلک اور سیاسی اختلاف کے درد مندان قوم اس پر خطر حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کی مظلومانہ اور قہرزدہ حالت پر پوری ملت اسلامیہ کو بیدار کرنے کے لئے اپنے افکار اپنے اسباب اور اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائیںیہ ہر فرد ملت کا دینی اور ملی فریضہ ہے۔ روایتی سہاروں سے اجتناب ضروری ہے ؎ تمام عمر سہاروں پہ آس رہتی ہے تمام عمر سہارے فریب دیتے ہیں