تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا سیدمودودیؒ نے عشروں قبل اپنی قیمتی باتوں میں سے ایک بات بھی ارشاد فرمائی تھی کہ ایک وقت آئے گاجب سرمایہ دارانہ نظام واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے بچائو کے لئے پریشان ہو گا۔ ہرصاحب بصیرت اس امرکودیکھ رہا ہے کہ دراصل امریکہ خارجی اورداخلی سطح پر جرائم کا مرکز ہے۔ خارجی سطح پراسکے جرائم کی داستانیں روئے زمین پر جا بجا بکھری پڑی ہیںجبکہ داخلی سطح پروہ کھوکھلا ہے ۔سیاہ فام اورسفیدفام کے درمیان خط امتیاز صدیاں گزرجانے کے باوجودنہ صرف اپنی جگہ قائم ہے بلکہ امریکی عوام کے درمیان یہ ایسی خلیج ہے جو روز بروزگہری ہوتی چلی جارہی ہے ۔ اس پرمستزاد یہ کہ اب سیاسی افتراق کاجن بھی بوتل سے باہر آ چکا ہے اورانتشار،پھوٹ،پرتشدداختلاف اور بکھرائو نے پورے امریکہ کواپنے لپیٹ میں لے رکھاہے۔ دوسروں کوجمہوریت ،تحمل اوربرداشت کاسبق پڑھانے والا امریکہ آج اس قدر ذہنی پستی اور اخلاقی اعتبارسے گراہواہے ۔’’خودرافصیحت، دیگر ان رانصیحت‘‘کی مثال سوفیصداس پرصادق آتی ہے۔خارجی سطح پروہ انسانیت اورعالمی امن کا کھلا دشمن ہے،جبکہ درون خانہ بھی وہ فساد اورماردھاڑکا شکارہے۔اس کے ماتھے پرانسانیت کے قتل عام کے دھبے ایسے واضح دکھائی دے رہے ہیں کہ اسکی اصلیت اوراسکی حقیقت کیاہے؟ صاحبان فکرو نظر اور فہمیدہ طبقوں کواسے پہچاننے میں کوئی دقعت محسوس نہیں ہوتی ۔اخلاقی طورپراس کااندرون کلی طور پرکھولا ،عالمی امن کوتہہ وبالاکرنے کے درپے ہے امن کا نقاب اوڑھے اس انٹرنیشنل دہشت گرد نے نہتے مسلمانوں کو خون میں نہلایا ،بارود اور آگ کے شعلوںسے مسلم ممالک کو کھنڈر بنادیا لیکن مسلمانوں کودہشت گردکہلوانے ،مسلمانوں کے خلاف دنیاکو اٹھ کھڑاہونے کا سبق پڑھانے والے امریکہ میں ایسے امریکی پل رہے ہیں کہ جو ایک سے بڑھ کرایک حقیقی اوراصلی دہشت گرد ہیں، وہ بلاوجہ اوربے مقصد بدترین دہشت گردی کے مرتکب ہورہے ہیں، وہ اپنے ہی ملک کے شہریوںکوجب چاہیں اورجس وقت چاہیں فناکے گھاٹ اتارتے ہیں۔ جو جمہوریت، سیکولرازم اور ڈیموکریسی کی دہائی دیتے نہیں تھکتاتھا، جو بالجبرخود کو دنیا کا ٹھیکیدار اور عالمی نظام کا محور تسلیم کروارہاتھا، آزادی رائے اور رائے دہندگی کو انسانی حقوق میں تسلیم کرنے پر لمبی لمبی چھوڑتا تھا، دنیا میں نام نہاداور جھوٹا امن قائم کرنے اوراپنی گڑی ہوئی اصطلاح دہشت گردی کے کھوکھلے نعرے لگا کر دنیا کے کئی ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجادینے والا، عربستان سے لیکر ایشیائی اور افریقی ممالک تک سینکڑوں ملکوں کو فوجی قبضے میں لینے والا اوراپنے بڑے بڑے فوجی اڈے قائم کیئے،رعایاکو تحفظ دینے اورامن قائم کے جھوٹے سلوگن کی آڑ میں وہاں کے وسائل و ذخائر کو ہڑپ کرلیا، اپنی چودھراہٹ دکھانے اور بنانے کیلئے کشتوں کے پشتے لگادئے لیکن کرشمہ یہ ہواکہ اس کی یہ ہانڈی پیچ چوراہے پھوٹ گئی اور وہ اب علی الاعلان دنیا کو بتا رہا ہے کہ یہ سب تماشہ تھا۔وقت آچکاہے کہ مشرق کومغربیت اور امریکیت کی مثالیں دے دے کر عاقل اوربالغ بننے کے لئے لیکچردینے والے لبرل اپنی آنکھیں کھولیں اوردیکھیںکہ یہ چکاچوندھ اور نیرنگی کے لبادے میں دھوکہ ہے، وقت نے ثابت کردیاکہ امریکہ سر تاپا بدعنوانی، فکری دیوالیہ پن اور حق انسانی کا سب سے بڑے مخالف ہے۔ جھوٹی جمہوریت قائم کرنے کی آڑمیں اس وقت49 ممالک میں امریکہ کے 800 مستقل فوجی اڈے موجود ہیں جبکہ دنیا کے 150 ممالک میں امریکی فوجی کسی نہ کسی طرح موجود ہیں۔ امریکی بحری بیڑے دنیا بھر میں اس کے مفادات کے تحفظ کے ضامن ہیں جبکہ میزائل ڈیفنس سسٹم اور خلائی ٹیکنالوجی کے ذریعے امریکی تسلط کے تحفظ کا کام لیا جاتا ہے۔ امریکہ کے خونین کارناموں کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ سترہ سو پجھتر سے سترہ سو تیراسی تک امریکیوں نے جنگ آزادی لڑی۔ برطانیہ سے آزاد ہونے کے بعد امریکہ نے اپنی فوجی طاقت کو مضبوط بنایا اور آس پاس موجود کئی جزیروں اور چھوٹے چھوٹے ممالک پر قبضے شروع کر دئیے۔ 1861ء میں امریکہ کو سول وار کا سامنا کرنا پڑا جوکہ چار سال تک جاری رہی ۔ سول وار پر قابو پانے کے بعد امریکہ کے سامراجی عزائم کا آغاز ہوا۔ امریکہ نے پہلی سامراجی جنگ سپین کی کالونیاں حاصل کرنے کے لیے لڑی ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ امریکہ نے براعظم سے باہر قدم رکھا اور فلپائن ،گوام سمیت کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انیس سو تیرہ تک فلپائن میں ہزاروںافراد کو امریکی قبضہ مضبوط کرنے کی غرض سے قتل کر دیا گیا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرا کر امریکہ نے نہ صرف سامراجی عزائم کا اظہار کیا بلکہ ایک وحشی ریاست کے طور پر اپنی شناخت قائم کرلی۔چند سالوں کے بعد انیس سو پچاس میں امریکہ کورین جزیرے پر مفادات کی جنگ لڑنے کے لیے موجود تھا۔ اب کی بار کیمونسٹ شمالی کوریا کو سبق سکھانے کا اعلان کیا گیا اور اپنے ورلڈ آرڈر کی مضبوطی اور اس کے اظہار کی خاطر لاکھوں کورین باشندوں کا خون بہا دیا گیا۔ ٹرمپ کی شکست نے اسکی جنونیت کو دوآشتہ کر دیا عالم یہ ہے کہ دنیا کی تمام قدریں وہ خود پامال کر رہاہے، خون خرابے پریقین رکھنے والے امریکہ میں پلے ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے بدھ 6 جنوری 2021ء کو کیپیٹل ہل کی عمارت پر اس وقت دھاوا بول دیا جب کانگریس میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی صدارتی انتخابات میں فتح کی توثیق کیلئے اجلاس جاری تھا۔جو بائیڈن کی جیت کو چیلنج کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کئی بار بدھ6جنوری 2021 ء کو واشنگٹن پر مارچ کرنے پر اکسایا جہاں پہلے ہی امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں الیکٹورل کالج کے نتائج کی توثیق کے لیے اجلاس طے تھے۔ ٹرمپ نے 20دسمبر کو اپنی ٹویٹ میں لکھا تھاکہ ہمارا 2020ء کے انتخابات کو اعدادوشمار سے ہارنا ناممکن ہے۔ اس لئے 6 جنوری 2021ء کوواشنگٹن ڈی سی میں بڑا احتجاج ہو گا۔ سب وہاں پہنچیں، یہ وائلڈ بے لگام ہو گا۔ٹرمپ کی کال پرٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے کانگریس کی عمارت کا رخ کیا جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ انتخابی عمل کے خلاف اپنے غصے کے اظہار اور منتخب نمائندوں پر نتائج کو مسترد کرنے کے لیے دبا ئوڈالنے کی خاطر کیپٹل ہل کی عمارت پر مارچ کریں۔ بالآخر ایک امریکی صدرجسے ٹرمپ کہاجاتاہے نے اپنی شکست تسلیم نہ کرتے ہوئے عملی طورپرثابت کردیاہے کہ امریکی لیکچر سب فریب اوردجل ہے ۔