نور محمد ترہ کئی سے اقتدار چھین لینے کے بعد حفیظ اللہ امین کے طرز عمل میں نمایاں تبدیلی آئی۔ ان کے سامنے افغانستان کی خود مختاری کا سوال تھا۔ وہ بااختیار طور حکومت کرنے کے خواہاں تھے، خلق پارٹی کے برعکس ’’ملی جمہوری پارٹی افغانستان‘‘ کے نام سے الگ جماعت بنائی۔ انہی دنوں پاکستان سے وزیر خارجہ زین نورانی کی قیادت میں وفد کو کابل جانا تھا۔ جسے روکنے کے لیے ’’کے جی بی‘‘ نے پاکستان اور امریکی افواج کا افغانستان پر حملے کا ڈرامہ رچایا۔ یعنی حفیظ اللہ امین اور پاکستان کو قریب ہونے نہیں دیا گیا۔ بالآخر 28 دسمبر 1979ء کو (پاکستانی وفد کے آنے سے پہلے) روسی فوجیں براہ راست افغانستان میں داخل ہوئیں۔ حفیظ اللہ امین کی رہاش گاہ تاج بیگ محل پر حملہ کیا۔ صدارتی محافظ دستوں کے چند گھنٹے مقابلے کے بعد حفیظ اللہ امین بیٹے، خاندان کے دوسرے افراد اور صدارتی محافظ دستے کی بڑی تعداد کے ساتھ قتل ہوئے۔ روسی طیارے اور ہیلی کاپٹر تاشقند کے ہوائی اڈے سے اُڑ کر صدارتی محل پر حملے میں شریک ہوئے۔ روس کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ’’اولیانوفسکی‘‘ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’افغانستان فوج بھیج کر روس نے وہاں پشتون اکثریت کی آمریت ختم کرکے اقتدار اقلیت کے حوالے کردیا‘‘ کہاگیا کہ روسی حاکمیت کے اندر ان اقوام کی محرومیاں ختم ہو جائیں گی۔ حفیظ اللہ امین کے قتل کے بعد ببرک کارمل جیسے مکار، دروغ گو اور ضمیر و وطن فروش شخص صدر بنائے گئے۔ ببرک کارمل ماسکو کا اتنا وفادار تھا کہ اپنے بیٹے کا نام ’’واسخوف‘‘ رکھا۔ پرچم پارٹی کے ایک رہنما میر اکبر خیبر، جسے کے جی بی نے سردار دائود کے دور ہی میں قتل کردیا تھا نے ببرک کارمل کے میں بارے کہا تھا کہ یہ روس کا جاسوس ہے، چاہتا ہے کہ افغانستان کو ماسکو کی جھولی میں رکھ دے۔ میر اکبر خیبر نے سردار دائود کے خلاف فوجی بغاوت کی مخالفت بھی کی تھی۔ وہ پارلیمانی و سیاسی تحریک کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی سوچ کے حامل تھے۔ ببرک کارمل اور خلق پارٹی کے سربراہ نور محمد ترہ کئی کے ہم خیال کمیونسٹ افغانستان کو سوویت یونین کا سولہواں جمہوریہ بنانے کا ارادہ رکھتے تھے اور برملا کہتے کہ روس ایک بڑی طاقت اور ترقی یافتہ ملک ہے، الحاق سے افغانستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ گلبدین حکمت یار کے مطابق ڈاکٹر نجیب اللہ نے کابل یونیورسٹی میں اُن کے سامنے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ افغان واقفان حال یہ بھی بتاتے ہیں کہ افغانستان کو ’’بخارا‘‘ طرز پر سوویت یونین کے تصرف میں د یے جانا تھا۔سرداردائود کے خلاف بغاوت کے بعد افغانستان کے مختلف صوبوں اور علاقوں میں عوام نے احتجاج شروع کیا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات سڑکوں پر نکل آئے۔ افغان عوام نے مسلح مزاحمت بھی شروع کر دی۔ببرک کارمل جب صدر بنے تو مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے نجی ملیشیائیں قائم کر دیں۔ ان میں رشید دوستم کی گلیم جم ملیشیائ، عصمت اللہ اچکزئی کی عصمت مسلم ملیشیاء اور نادری سید کی کیان ملیشیائیں ظلم اور مردم کشی میں بہت آگے گئیں۔ ان ملیشائوں کی وجہ سے روسیوں کے نکلنے کے بعد بھی امن کا خواب ادھورا رہ گیا۔ جیسے کہا گیا کہ ببرک کارمل اور اس کی جماعت پرچم اور چند خلقی افغانستان کی تقسیم کی سوچ رکھتے تھے۔ بعد ازاں حزب وحدت اور چند دوسری شخصیات بھی اس سوچ کی طرف مائل ہوئیں۔ جمعیت اسلامی افغانستان کے کمانڈر احمد شاہ مسعود 1982ء ہی میں روسی فوج اور کے جی بی کے ساتھ باہمی مفادات کا معاہدہ کر چکے تھے۔ جس کی تفصیل افغانستان میں متعین روسی جنرل ’’باریس گراموف‘‘ اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں۔ نیز 16 فروری 2004ء سابق روسی صدر میخائل گوباچوف نے بھی بی بی سی کو انٹریو میں کہا کہ ’’احمد شاہ مسعود نے سویت یونین کے لیے کام کیا، سالنگ درہ روسی فوجیوں کے لیے محفوظ بنایا۔ اور وہاں کسی کو روسی فوج اور ان کے مفادات پر حملے کی اجازت نہ دی‘‘۔ ببرک کارمل روسیوں کے نزدیک مزید حکومت کرنے کے اہل نہ رہے، تو اسے ہٹا کر ڈاکٹر نجیب اللہ کابل انتظامیہ کے سربراہ بنا لیے گئے۔ اُنہیںحالات ماسکو کے حق میں بہتر بنانے کا ٹاسک دیا گیا۔ ڈاکٹر نجیب نے کمیونسٹ فکر و عقیدے سے ظاہراً رجوع کر لیا۔ کابل کی ’’پل خشتی‘‘ جامع مسجد میں لوگوںکے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرتے چونکہ لوگ خلق اور پرچم پارٹی سے بدظن یا نفرت کرتے تھے۔ چناں چہ ڈاکٹر نجیب نے بعد ازاں پرچم پارٹی کا نام بدل کر وطن پارٹی رکھ دیا۔ بہر حال ڈاکٹر نجیب بھی مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ببرک کار مل نے ڈاکٹر نجیب کے دور حکومت میں واپس آ کر افغانستان کی تقسیم کے منصوبے پر کام شروع کردیا۔ ’’کے جی بی‘‘ نے احمد شاہ مسعود کی پشت پناہی کی۔ ہزارہ، تاجک اور ازبک کمانڈروں و جماعتوں پر مشتمل اتحاد تشکیل دیا۔ جو شمالی اتحاد کے نام سے معروف ہو۔ یاد رہے کہ نئی دہلی اس قبیح کھیل میں پوری طرح شامل رہا۔ اس طرح ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت میں شمالی صوبوں، کابل اور چند متصل علاقے اپنے نفوذ میں رکھنے پر عمل در آمد شروع ہوا۔ فوجی قوت شمال کے اندر جمع کرنا شروع کردی۔ ماسکو معروضی حالات وحقائق سے آگاہ تھا، کہ ان کی افواج کے نکلنے کی صورت میں کا بل کی حکومت افغانستان پر کنٹرول کی اہلیت و سکت نہیں رکھتی۔ اور پھر فوج کے اندر اکثریت رکھنے والے پشتون افغان فوجی تقسیم یا کو ئی دوسر ا منصوبہ کامیاب ہونے نہ دیتے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ ہی کے دور میں فیصلہ ہوا کہ اگر مجاہدین دوسریصوبوں پر تسلط قائم کرتے ہیں تو اس صورت میں شمالی اتحاد کا مرکز ’’مزار‘‘ ہو گا۔ چناں چہ 1987ء (ڈاکٹر نجیب اللہ حکومت) میں ماسکو کے تعاون سے، جسے روسی صدر میخائل گورباچوف کی حمایت حاصل تھی، شمال کے نو صوبوں پر مشتمل ’’فرعی‘‘ حکومت قائم کی گئی۔ کہ افغانستان کا شمال اپنے داخلی معاملات میں خود مختار ہو گا، باقی افغانستان سے الگ اپنا نظام قائم کرے گا۔ شمال کی یہ حکومت وسطی ایشیائی ممالک سے تجارتی سفارتی تعلقات استوار کرنے میں آزاد ہو گی۔ پرچم پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن نجیب اللہ مسیر اس کے لیے نگران بنائے گئے تھے۔ جسے اس حکومت کے لیے افغان وزیر اعظم کا معاون بھی مقرر کیا گیا تھا۔ مزار شہر کے داخلی دروازے پر ’’بہ خراسان مستقل خوش آمدید‘‘ لکھا گیا۔