امریکہ نے کورونا کے انسداد کی خاطر مسلح تنازعات والے علاقوں میں فریقین کو فائر بندی کا کہنے والی قرار داد کی مخالفت کر کے سکیورٹی کونسل کے تمام اراکین کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سکیورٹی کونسل میں قرار داد کا مسودہ پیش کرنے سے ایک روز پہلے تک امریکہ نے متن اور الفاظ پر اتفاق کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکی مندوب کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ موجودہ مسودے کی تائید نہیں کر سکتا‘‘۔ یاد رہے کہ پوری دنیا میں کورونا کے مرض کی شدت اور پھیلائو کو پیش نظر رکھ کر عالمی برادری علاج معالجے کی سہولیات پر اپنی بے بسی کا اظہار کر چکی ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں وبا کے انسداد کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں آزادی کی جنگ لڑی جا رہی ہے‘ ریاستی اور غیر ریاستی عناصر سیاسی غلبے کے لئے لڑ رہے ہیں‘ یا مسلح گروپ کنٹرول کی خاطر ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ دو ماہ قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دنیا بھر کے ممالک اور رہنمائوں سے مسلح تنازعات والے علاقوں میں فائر بندی کی اپیل کی تھی۔ کورونا مقبوضہ کشمیر‘ افغانستان‘فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے علاقوں میں پھنسے افراد کے لئے خطرہ بن رہا ہے‘ کورونا کے خطرے کی وجہ سے گزشتہ دو ڈھائی ماہ سے عالمی تجارت بند ہے۔ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی تخلیے میں رہ رہی ہے۔ اس وبا نے ایسے معاشی اور انتظامی مسائل پیدا کر دیے ہیں کہ کئی ممالک میں حکومتیں ختم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کورونا مشرق وسطیٰ میں پہنچ چکا تھا جب دو غیر ملکی فریق روس اور ترکی نے شام میں نو برس کی لڑائی کے بعد کچھ ہفتے قبل ہی فائر بندی معاہدے پر اتفاق کیا۔ شام کے خانہ جنگی سے متاثرہ علاقے ادلب میں 30لاکھ افراد رہتے ہیں۔ مقامی آبادی کو پہلے ہی ان خدشات نے گھیر رکھا ہے کہ فائر بندی معاہدہ موثر ہو گا یا نہیں تاہم 2011کے بعد حالیہ برس مارچ میں شام کے ان علاقوں میں سویلین اموات کی کم ترین سطح ریکارڈ کی گئی۔ شام میں کئی علاقے انتظامی طور پر مختلف طاقتوں کے ماتحت ہیں‘ بڑے علاقے پر صدر بشار کی وفادار انتظامیہ کا کنٹرول ہے۔ شمال مشرقی علاقے میں کرد ہیں جبکہ ادلب میں جہادی اتحاد کا کنٹرول ہے۔ اس حالت میں لڑائی اور کورونا کے انسداد سے بیک وقت نمٹنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے جب تنازعات والے علاقوں میں وبا کے باعث فائر بندی کی اپیل کی تو ابتدا میں حوثی باغیوں نے یمن میں لڑائی میں وقفے کے مثبت اشارے دیے۔ سعودی عرب کا طرز عمل بھی قابل تعریف تھا‘ پانچ سال کی لڑائی کے بعد پہلی بار امن کی ایک موہوم سی امید ظاہر ہوئی تھی کہ سعودی عرب کے سرحدی علاقے پر حوثی جنگجوئوں کے میزائل حملے نے یہ آس بھی ختم کر دی۔ اقوام متحدہ کے مبصرین اس بات کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جنگ زدہ علاقے میں مناسب طبی سہولتوں کے فقدان کے باعث کورونا بے قابو ہو سکتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران لیبیا کے دارالحکومت تریپولی میں متحارب گروہوں میں لڑائی تیز ہو گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان علاقوں میں کورونا کی وبا بندوق برداروں کو ہلاک کر سکتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی حالت بھارت کے 7ماہ سے جاری لاک ڈائون اور فوجی آپریشنوں سے مزید خراب ہو چکی ہے۔ جس وقت عالمی ادارے کے سربراہ مسلح تنازعات والے علاقوں میں فائر بندی کی اپیل کر رہے تھے اس وقت ایک دن میں مقبوضہ کشمیر میں کورونا کے 33مریض سامنے آ چکے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچی ہے۔ مقبوضہ وادی کے ہسپتال بند ہیں۔ بھارتی افواج نے سیاسی اور سفارتی مذاکرات کا دروازہ بند کر کے اہل کشمیر کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں مزاحمت کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا۔ ان حالات میں کورونا سے متاثرہ افراد کا علاج اور مرض کو روکنے کی کوششیں کسی طور پر بار آور ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ گولہ بارود سے پھیلائی گئی تباہی کے ساتھ کورونا کی آمد نے مسلح تنازعات والے علاقوں میں مقامی آبادی کی زندگی ناقال بیان دکھوں سے بھر دی ہے۔امریکہ دنیا کا سیاسی لیڈر ہے۔ بین الاقوامی پالیسیوں میں اس کی رائے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فلسطین سے لے کر کشمیر تک کے حریت پسند باشندے جانتے ہیں کہ امریکہ مسلم دنیا کے مسائل کم کرنے میں ناکام رہا ہے اس کے باوجود وہ امریکہ کی عالمی حیثیت کو اہمیت دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ صرف امریکہ کا ادارہ نہیں یہ پوری دنیا کے لوگوں کا نمائندہ ہے۔ سکیورٹی کونسل کا فرض ہے کہ وہ بین الاقوامی خطرات اور تنازعات کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سکیورٹی کونسل میں ویٹو کی طاقت نے دنیا کی محروم‘ پسماندہ اور غریب اقوام کے لئے کبھی قابل ستائش قدم نہیں اٹھایا۔ امریکہ نے کورونا کے پیش نظر سکیورٹی کونسل میں پیش کی گئی جس قرارداد کے مسودے کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اس کا متن کسی ریاست نے نہیں بلکہ عالمی ادارہ صحت نے ترتیب دیا ہے۔ امریکہ شاید تنازعات کو بھڑکانے والے اپنے اتحادیوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے ایسی قرار داد کی مخالفت کر رہا ہے جس کی تیاری میں اس کی رائے شامل تھی۔عالمی وبا کے متعلق امریکی رویہ دنیا کی ذمہ دار سپر پاور جیسا دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی نمائندے ایک روز قبل چین کو قرار داد کے مسودے پر حمایت کا یقین دلا چکے تھے۔ امریکی طرز عمل نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ امریکی انتظامیہ دکھ اور عالمی بحران کے موقع پر بھی انسانی ہمدردی کی بجائے سیاسی مصلحتوں کو اہمیت دیتی ہے۔