سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انٹونیوگوگرس نے بھارت کے یکطرفہ اقدام پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنازع کشمیر کا فیصلہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا کشمیر پر موقف سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور ادارے کے چارٹر میں بتائے گئے اصولوں پر مبنی ہے۔ شملہ معاہدے کی اہمیت پر بات کرتے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس معاہدے کی رو سے مسئلے کا حل پرامن طریقے سے تلاش کیا جانا تھا۔ پاکستان اور بھارت کی آزادی کو قاعدے قانون کے مطابق نہ رکھنے کی ذمہ داری انگریز حکومت پر عائد کی جا سکتی ہے جو ڈیڑھ سو سال کے اقتدار کے بعد برصغیر سے رخصت ہو رہی تھی ‘ یہ تاریخی سچائی ہے کہ برصغیر کے مسلمان انگریز کے جانے کے بعد ہندو اکثریت سے متعلق جن خدشات کا شکار تھے کشمیر کے لوگوں نے اس ہندو توا کا ظالمانہ چہرہ دیکھا ہے۔ مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے قانون آزادی ہند کے مطابق ابتدا میں بھارت‘ پاکستان کے ساتھ الحاق کی بجائے اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کے لئے وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ آزاد ملک بھارت نے جب لارڈ مائونٹ بیٹن کو اپنا پہلا گورنر جنرل مقرر کیا تو برصغیر کے مسلمان اس وقت اس اندیشہ میں مبتلا ہونے لگے کہ مائونٹ بیٹن پاکستان کے لئے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ پنڈت نہرو اور مہاراجہ نے درپردہ معاملات طے کرتے ہوئے مائونٹ بیٹن کو اعتماد میں لیا۔ پاکستان کو جب اس منصوبہ بندی کی خبر ہوئی تو مجاہدین نے کشمیر آزاد کرانے کے لئے یلغار کر دی۔ آج جس قدر آزاد کشمیر موجود ہے یہ مجاہدین کی اس کوشش کا نتیجہ ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے پورا کشمیر ہاتھ سے جاتا دیکھا تو اقوام متحدہ سے رجوع کیا۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان امریکہ‘ سوویت یونین‘ چین‘ فرانس اور برطانیہ نے اس معاملے پر بحث کے بعد اپنی سفارشات کے ساتھ ایک قرار داد منظور کی۔ 21اپریل 1948کو منظور ہونے والی قرار داد نمبر 47میں کہا گیا کہ تنازع کشمیر حل کرنے کی ذمہ داری اب اقوام متحدہ کو تفویض کی جاتی ہے۔ ایسا اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 35کے تحت کیا گیا۔ اس شق کے تحت اگر کوئی ریاست ایسی صورت حال کا خطرہ محسوس کرے جس سے عالمی امن دائو پر لگ سکتا ہو تو وہ ریاست یا ریاستیں اقوام متحدہ سے مداخلت کی درخواست کر سکتی ہیں۔ اس قرار داد میں فوری طور پر سفارش کی گئی دونوں ممالک فائر بندی یقینی بنائیں‘ پاکستان سے کہا گیا کہ وہ ریاست کے علاقے سے اپنے شہریوں کو واپس بلائے۔ اس قرار داد میں حکومت ہندوستان سے کہا گیا کہ وہ ریاست میں اپنی افواج کی تعداد کم سے کم سطح پر لے کر آئے۔ ان سفارشات پر عملدرآمد کے بعد کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا کہا گیا۔ اس قرار داد کو دونوں ملکوں نے ایک معاہدے کی شکل دی۔ پاکستان کی جانب سے جنرل گریسی اور بھارت کی طرف سے جنرل روئے بچر نے اس معاہدے پر دستخط کئے۔ ریاست جموں و کشمیر سے فوجی انخلا کے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے بھارت نے بعدازاں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے پاکستان کو آزاد کشمیر سے فوج بلانے کا کہنا شروع کر دیا۔ اس طرح کی تشریح سے دونوں ملک متعدد بار کشیدگی کی گرفت میں آئے اور اسی معاملے پر اب تک چار جنگیں لڑ چکے ہیں۔بھارتی حکومت کشمیر پر اپنے قبضے کو الحاق کی اس دستاویز کی بنیاد پر جائز قرار دیتی رہی ہے۔ مودی حکومت نے آئین سے شق 370اور اس کی ذیلی شق 35اے کو نکال کر کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی بنیاد ختم کر دی ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے اب کسی قانونی حوالے کے بغیر بھارت کا کشمیر پر قبضہ بلا شک و شبہ ناجائز اور غیر قانونی ہو جاتا ہے۔ اب جب مہاراجہ ہری سنگھ اور وزیر اعظم نہرو کے درمیان اس متنازع دستاویز کو بھارت نے خود ہی غیر موثر کر دیا ہے تو پاکستان اور بھارت معاملے کے حل کے لئے اسی مقام پر آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں 1947ء میں تھے۔ اس صورت میں اقوام متحدہ ایک بار پھر اس تنازع کو حل کرنے کا فورم بن گیا ہے۔ بھارت اور پاکستان نے درمیان میں تنازعات کو دو طرفہ بات چیت سے طے کرنے کے جو معاہدے کئے وہ قانونی طور پر غیر فعال ہو گئے ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان اور مہاراجہ ہری سنگھ کے درمیان صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کا معاہدہ خود بخود بحال ہو سکتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے کشمیر کا کسی دوسرے ملک کے ساتھ الحاق ممکن نہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین اس حالت میں فریق بن سکتے ہیں جو بھارت کے دیرینہ موقف کے خلاف ہے۔ پاکستان نے ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر موقف پیش کیا ہے کہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دیکھا جائے۔ اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی ہر لحاظ سے جائز اور قانونی ہے۔ کشمیری باشندے ووٹ کی بنیاد پر فیصلے کو تیارہیں مگر بھارت اس تسلیم شدہ حق سے انہیں محروم رکھ کر ایسے حالات پیدا کرتا رہا ہے جو کشمیریوں کو مسلح مزاحمت پر ابھارتے ہیں۔ پاکستان تنازع کشمیر کو پرامن طریقے سے حل کرنے کا حامی ہے۔ سابق حکومتوں کی طرح عمران خان نے بھی جنگ کی بجائے ہمیشہ بات چیت اور مکالمے کی بات کی۔ انہوں نے وزیر اعظم بننے سے پہلے اقتدار سنبھالنے کے بعد‘ کرتار پور راہداری کے افتتاح اور بھارتی طیاروں کی در اندازی کے موقع پر مودی حکومت کو بات چیت کی پیشکش کی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بھارت کے یکطرفہ اقدام نے جنوبی ایشیا اور عالمی امن کو خطرات کا شکار کر دیا ہے۔ سیکرٹری جنرل انتونیو گرس نے تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور چارٹر کے مطابق حل کرنے کی بات کر کے مایوس کشمیریوں کی امید جگا دی ہے۔ پاکستان یقینا اس بیان کا خیر مقدم کرتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ بھارت کے غاصبانہ قبضے سے مظلوم کشمیریوں کی آزادی کے لئے عالمی برادری بروقت کردار ادا کرے گی۔