وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر کی سنگین ہوتی صورتحال میں تنازعے کے حل کے لئے اقوام متحدہ کے سامنے 7مطالبات رکھے ہیں۔ خطوط کی صورت میں بھیجے گئے ان مطالبات کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مقامی باشندوں کی حالت زار کا ذکر بھی موجود ہے۔ وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ بھارت فوری طور پر مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی محاصرہ اور یکطرفہ آئینی اقدامات ختم کرے۔ عوامی اجتماعات اور مواصلاتی نظام پر پابندیاں ختم کی جائیں۔ کشمیری قیادت کو فوری طور پر رہا کیا جائے‘ غیر قانونی طور پر گرفتار تمام کشمیری باشندوں کو رہا کیا جائے‘ نئے ڈومیسائل قانون کو ختم کیا جائے‘ جعلی چھاپوں میں ماورائے عدالت قتل جیسے کالے قوانین کا خاتمہ کیا جائے اور اقوام متحدہ کے مبصرین و انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں رسائی دی جائے۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزارت خارجہ نے خطوط لکھ کر اپنی ذمہ داری پوری کی ہے تاہم یہ امر ضرور لائق توجہ رہے گا کہ ان مطالبات کا پیش کرنا ایک وقتی سرگرمی ہے یا اس کے لئے اقوام متحدہ کے ساتھ مسلسل رابطہ اور یاددہانی کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ کشمیر جنت ارضی کہلاتا ہے۔ بھارت نے 1948ء سے لے کر اب تک اس جنت کو جہنم میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ شیخ عبداللہ کو بہکا کر سیکولر بھارت کا خواب دکھایا اور مہاراجہ کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کر لیا گیا جو کشمیر کی اکثریتی آبادی کے لئے ناقابل قبول تھا۔ شیخ عبداللہ کو کشمیریوں کا نمائندہ بنا کر اس معاہدے کی حمایت حاصل کی گئی۔ کشمیریوں کو یہ بتانے کے لئے کہ بھارت ان کی الگ اور خود مختار حیثیت کا احترام کرتا ہے۔ بھارتی آئین میں شق 370شامل کی گئی۔ یہ وہی شق ہے جسے 5اگست 2019ء کو مودی حکومت نے کشمیریوں کی رائے لیے بغیر یکطرفہ طور پر ختم کر دیا۔ اس اقدام سے پہلے پورے مقبوضہ کشمیر میں نئے اور اضافی فوجی دستے متعین کر دیے گئے۔ ہر گلی اور ہر گھر کے سامنے بندوق بردار فوجی کھڑے کر دیے گئے۔ ٹی وی نشریات‘ انٹرنیٹ‘ ٹیلی فون وغیرہ منقطع ہو گئے۔ اس لاک ڈائون والی صورت حال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بھارت کی سکیورٹی فورسز مسلسل کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر رہی ہیں‘ بہت سے نوجوان مار دیے گئے‘ گھروں کو نذر آتش کیا جاتا ہے‘ چادر اور چار دیواری کا احترام پامال ہو رہا ہے۔ کشمیری باشندوں نے اپنی جدوجہد کو پرامن رکھنے کی کوشش کی ہے۔ حریت رہنما بھارت نواز لیڈر حراست میں ہیں۔ جبر کے ان ہتھکنڈوں نے مقبوضہ کشمیر میں یہ سوچ مضبوط کی ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا الگ وطن کا مطالبہ درست تھا اور شیخ عبداللہ جیسے لوگوں نے کانگرس کا ساتھ دے کر کشمیریوں کے ساتھ ظلم کیا۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنے کے بعد انہیں الحاق یا آٓزاد ریاست میں کوئی ایک حیثیت چننے کا حق دینے کی بات کی ہے۔ پاکستان کشمیر کو اپنی شہہ رگ کہتا ہے۔ کشمیر کے عوام کو آپس میں جوڑ رکھا ہے لیکن اس تعلق کی ایک بنیاد سیاسی بھی ہے۔ کشمیر میں جن لوگوں نے بھارتی قبضے کے خلاف آواز اٹھائی وہ کے ایچ خورشید ہوں‘ چودھری غلام عباس ہوں یا سردار عبدالقیوم ان کی خواہش یہی تھی کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے۔ تاریخی طور پر تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لئے پاکستان نے کئی بار لچکدار تجاویز دیں‘ جنرل پرویز مشرف کے زمانے اور اس سے پہلے میاں نواز شریف کی حکومت میں تنازع کشمیر حل ہونے کی امید جاگ اٹھی تھی۔ اس امید کے پیچھے سفارتی اور سیاسی سطح کے رابطے اور بعض امور پر دونوں ممالک میں پایا جانے وال اتفاق رائے تھا۔ امریکہ کی جانب سے ایک فارمولے کی بازگشت بھی طویل عرصہ تک سنی جاتی رہی لیکن آخر یہی ہوا کہ تنازع کشمیر کے حل کے وہ تمام فارمولے رد ہوتے گئے جو کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اصول کو تسلیم نہیں کرتے۔ وزیر اعظم کو سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر کے حریت پسند عوام نے ایک لاکھ کے قریب شہادتیں اس لئے دی ہیں کہ وہ پاکستان کا حصہ بن سکے۔ کشمیری شہیدوں کو پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی دیواروں پر پاکستان زندہ باد اور عمران خان زندہ باد کے نعرے اس لئے لکھے جا رہے ہیں کہ کشمیری اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر تھرڈ آپشن جیسی تجاویز کا ذکر تحریک آزادی کی سمت تبدیل کرنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ وزیر اعظم کو لازم ہے کہ ایسے حساس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرنے سے قبل دفتر خارجہ سے بریفنگ لینے میں عار محسوس نہ کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کی شدت بڑھنے کی اہم وجہ عالمی اداروں اور اہم ممالک کی بے حسی ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کو خطوط لکھ کر جو مطالبات پیش کئے ہیں ان کی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ اقوام متحدہ کی بے حسی ہے۔کہ وہ آج تک اس مسئلے کو حل نہیں کر سکا، پاکستانی قراردادیں گواہ ہیں کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے۔ بین الاقوامی مبصرین کے متعلق بھی عالمی ادارے کی رائے ریکارڈ پر موجود ہے۔ انسانی حقوق کے مسائل دنیا کے سامنے آ رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو اقوام متحدہ میں اپنا کردار مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مسئلہ کشمیر مزید شدت کے ساتھ عالمی سطح پر اجاگر ہو۔