صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی وجہ سے خطے میں بڑھتی کشیدگی کم کرنے کے لئے بات کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں بتایا ہے کہ ’’میں نے اپنے دو اچھے دوستوں، وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعظم عمران خان کے ساتھ تجارت، سٹریٹجک شراکت داریوں اور تنازع کشمیر پر تنائو کم کرنے کے لئے بات کی، یہ گفتگو مشکل حالات میں ہوئی مگر اچھی رہی‘‘۔ نریندر مودی دہشت گردی اور تشدد سے پاک ماحول کی تشکیل اور سرحد پار دہشت گردی کے معاملات پر اپنا موقف پیش کرتے رہے۔ وزیراعظم عمران خان سے صدر ٹرمپ کی گفتگو کے متعلق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے تفصیلات جاری کی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے مودی کے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے خطے کی صورتحال سے صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ امن و امان خطرے سے دوچار ہے۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان ہوگن گیڈلے نے صدر ٹرمپ کی دونوں رہنمائوں سے ملاقات کے متعلق بتایا کہ ’’صدر ٹرمپ نے دونوں کو تنائو کم کرنے اور خطے میں امن برقرار رکھنے کی اہمیت سے آگاہ کیا‘‘ بین الاقوامی تعلقات تجارت، عالمی امور میں مشترکہ سوچ اور قوموں کی باہمی ضروریات یعنی قومی مفاد کی بنیاد پر فروغ پاتے ہیں۔ اگر کسی ملک کا دوسرے کے ساتھ بارڈر ملا ہوا ہے تو ان دو ملکوں کے لئے باہمی تعلقات میں بہتری کے لئے قدرتی سہولت موجود ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کی طویل سرحد کو دیکھ لیں، دونوں ملک اگر کسی تنازع میں الجھ جائیں اور پھر اسے حل کرنے کے لئے موجود ہر راستے کو بند کر دیں تو ان کے تعلقات خوشگوار نہیں رہیں گے۔ اس کے اثرات ان کے مشترکہ دوستوں پر بھی پڑیں گے اور وہ ان دونوں سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔ پاکستان اور بھارت آزاد ہوئے تو قائداعظم محمد علی جناح نے ان کے تعلقات کو امریکہ اور کینیڈا سی خوشگوار ہمسائیگی جیسا دیکھنے کی خواہش کی۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ریاست ہو جسے اپنی ہمسائی ریاست سے کوئی شکایت نہ ہو۔ مغربی ممالک اس لئے خود کو مہذب دنیا کہتے ہیں کہ انہوں نے تنازعات کو قانونی عمل اور بات چیت کے ذریعے طے کرنا سیکھ لیا ہے۔ یورپ کے بہت سے ملکوں نے اپنی افواج کا کردار محدود کرکے مالیاتی وسائل کو عوام کی بنیادی ضروریات پر خرچ کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی قیادت ماضی میں یہ تسلیم کرتی رہی ہے تنازع کشمیر حل کئے بغیر انگریزکا برصغیر سے جانا دراصل دونوں ملکوں کو معاشی اور سیاسی طور پر مغرب کا محتاج بنائے رکھنے کی چال تھی۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر پر واضح موقف پیش کیا کہ یہ ایک تنازع ہے جس کو پرامن انداز میں طے کرنا ضروری ہے۔ بھارت خود اقوام متحدہ میں یہ مان چکا ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تنازع ہے جسے پرامن انداز میں طے کرنے کے لئے کشمیری باشندوں کی رائے لی جائے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں، او آئی سی کی قراردادیں، دو طرفہ معاہدے اور عالمی رہنمائوں کے اس بابت وقتاً فوقتاً ثالثی کے بیانات کا پاکستان خیرمقدم کرتا رہا جبکہ بھارت نے ہر بار بین الاقوامی کوششوں کو مسترد کرکے کشیدگی کو بڑھاوا دیا۔ وزیراعظم عمران خان چند ہفتے قبل امریکہ گئے اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں صدر ٹرمپ نے ازخود بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے انہیں کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی درخواست کی ہے۔ پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کی اس خواہش کا خیرمقدم کیا لیکن اس کے بعد بھارت میں ایک کہرام برپا ہو گیا۔ بھارت میں اپوزیشن جماعتوں اور خود بی جے پی کے اپنے حلقوں میں نریندر مودی سے وضاحت کا مطالبہ کیا جانے لگا ۔ بھارتی حکومت نے صورتحال واضح کرنے کی بجائے اسے خراب ہونے دیا اور پھر اچانک مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ کے قریب نئے فوجی تعینات کرکے کشمیریوں کو گھروں میں بند کر دیا۔ اس دوران کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی گئی۔ اگرچہ پاکستان پہلے بھی مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ، پنڈت نہرو اور شیخ عبداللہ کے گٹھ جوڑ پر مبنی الحاق کی دستاویز کو تسلیم نہیں کرتا تھا تاہم اس میں کشمیر کو یک خودمختار ریاست کے طور پر بعض حقوق ضرور حاصل تھے جنہیں مودی حکومت نے مکمل ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ کشمیریوں اور پاکستان کے نزدیک یہ عمل اشتعال انگیزی کا درجہ رکھتا ہے جس سے دو ایٹمی ہمسائے جنگ کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ دو سے زائد مرتبہ تنازع کشمیر کو حل کرانے میں ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ امریکہ عالمی طاقت ہے، کسی خطے میں توازنِ طاقت اب بھی اس کی مرضی کے ترازو میں رہتا ہے۔ کشمیر کا تنازع ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ نہیں، کسی ہولناک ایٹمی جنگ کی صورت میں آدھی دنیا تباہ ہو سکتی ہے۔ دنیا کے دوسرے کونے پر واقع ممالک کی زرعی پیداوار کم ہو سکتی ہے اور دنیا کا بڑا حصہ برفانی دور میں واپس جا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان اور بھارت کی قیادت سے تنازع کشمیر اور خطے کی صورتحال پر گفتگو کے بعد ممکن ہے پاک بھارت مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو یا پھر اس معاملے کو اقوام متحدہ میں زیربحث لا کر اسے منطقی حل تک پہنچایا جائے۔ ممکن ہے ٹریک ٹو سلسلے کو بھی چلانا پڑے۔ جنگ کا آپشن کسی کے لئے موافق ہے نہ اس کی بات کی جانی چاہئے۔ صدر ٹرمپ سے گفتگو میں وزیراعظم مودی نے وزیراعظم عمران خان کے بیانات کو اشتعال انگیز قرار دیا مگر اپنے اس یکطرفہ اقدام کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جو دو ارب انسانوں کی ہلاکت کا سامان کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اس بات چیت سے آگے بڑھیں اور جنوبی ایشیا کے لئے خطرہ بننے والے تنازع کو حل کرنے کے لئے کچھ عملی پیشقدمی کریں۔