سندھ میں اس بار صرف دلچسپ نہیں بلکہ سنسنی خیز حد تک دلچسپ انتخابات کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ان امیدواروں کو تو پریشانی لاحق ہونا تھی جن کا خیال تھا اس بار بھی جیئے بھٹو کا نعرہ لگے گا اور کامیابی ان کے قدم چوم لے گی مگر پیپلز پارٹی کے جو ہوشیار امیدوار تھے انہوں نے سب کچھ پارٹی قیادت پر نہیں چھوڑا ۔ انہوں نے بغیر بڑی تشہیری مہم کے اپنے حلقوں میں کافی حد تک کام کروائے اور حلقے کے ووٹرز کے ساتھ مضبوط تعلق قائم رکھا مگر اس بار سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف جو احتساب اور مخالفت کا رجحان چل نکلا ہے، اس میں پی پی کے نکمے امیدوار تو عوام سے روپوش ہوچکے ہیں مگر پیپلز پارٹی کے کام کرنے والے امیدوار بھی بہت پریشان ہے۔ سندھ کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کو کبھی بھی اتنی پریشانی لاحق نہیں ہوئی جتنی اس بار ہے۔ سندھ کو تو پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنی جیب میں محسوس کیا تھا مگر اس بار سندھ نے پیپلز پارٹی کا گریبان پکڑ لیا ہے ۔ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کے لیے ناقابل یقین ہے۔ کسی کو اندازہ تھا کہ آصف زرداری جیسے امیر اور انتہائی طاقتور لیڈر کے آبائی شہر نواب شاہ میں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ترقی پسند پارٹی کے رہنما ڈاکٹر قادر مگسی حیدرآباد سے چل کر نواب شاہ آئیں گے ؟ ڈاکٹر قادر مگسی صرف شہر میں موجود پیپلز پارٹی کے مخالف مڈل کلاس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہے بلکہ وہ زرداری قبیلے کے خلاف رند اور بروہی قبیلوں سے بھی مدد لینے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہے۔ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ آصف زرداری اپنے آبائی شہر میں ہار جائیں مگر انتخابات صرف خوش فہمی کے بنیاد پر نہیں لڑے جاتے۔ اس لیے آصف زرداری کو بھی ڈاکٹر قادر مگسی سے ایک طرح کا خوف ہے اور اس نے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے میدان میں اپنی بڑی بیٹی بختاور کو اتارا ہے اور پی پی رہنما کے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ سندھ کے لوگ ان سے بھی احتسابی سوالات پوچھ رہے ہیں۔ بے نظیر کی بڑی بیٹی اپنے والد کے حلقے میں عوام سے یہ کہتی سنی جا رہی ہے کہ ’’میں شہید کی بیٹی ہوں۔ میں آپ کے پاس پہلی بار آئی ہوں۔ اس بار میری خاطر ووٹ دیں۔ میں آپ کے مسائل حل کروانے کے لیے خود کام کروں گی‘‘ کیا پیپلز پارٹی نے ایسا کبھی سوچا تھا؟ پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ اس بار بی بی کی بیٹیوں کو زحمت دینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ صرف بلاول بھٹو باہر نکل کر ہاتھ لہرائیں گے اور ووٹ پکے ہوئے میوے کی طرح پیپلز پارٹی کی جھولی میں گر جائیں گے مگر جب بلاول بھٹو کراچی میں پیپلز پارٹی کے قلعے لیاری پہنچے تو ان پر پھولوں کے بجائے پتھر گرے۔ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کے لیے بڑی پریشانی کا باعث ہے۔ لیاری کو ایک بار پھر فتح کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت نے بینظیر بھٹو کی چھوٹی بیٹی کو بینظیر بھٹو کی چھوٹی بہن صنم بھٹو کے ساتھ لیاری بھیجا ۔ اس بار ممکنہ ردعمل کو روکنے کے لیے فول پروف انتظامات تھے۔ پیپلز پارٹی کے قابل اعتماد لوگوں نے بھتیجی اور خالہ کو حفاظتی گھیرے میں رکھا گیا تھا مگر وہ تاریخی دورہ بھی بہت بڑے شو کا باعث نہ بن سکا۔ حالانکہ صنم بھٹو نے اپنی زندگی میں پہلی بار سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ ذاتی طور پر سیاست کے خلاف ہیں مگر پیپلز پارٹی قیادت نے اپنی کمزور حالت کو دیکھ کر صنم بھٹو کو مجبور کیا کہ وہ علامتی طور پر میدان میں اتریں۔ اس طرح سے پیپلز پارٹی اہلیان سندھ کو ایک پیغام دینا چاہتی تھی کہ بھٹو خاندان آج بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے۔ جب کہ اس بار سندھ کے لوگ بھٹو خاندان کے جال میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔سندھ کو اب اس بات کا احساس ہوگیا کہ اس کے ساتھ برسوں سے سیاسی فراڈ ہو رہا ہے۔ بھٹو کے آدرش کچھ اور تھے اور بھٹو کے عزائم کچھ اور تھے مگر پیپلز پارٹی کے وڈیرے اور پیر بھٹو کا نام اٹھا کر ان سے ووٹ لیکر انہیں حقوق سے محروم رکھتے ہیں۔ اس بار سندھ میں ان نعروں کا ماحول نہیں رہا جب جیالے پوری قوت سے نعرے لگاتے تھے کہ ’’پیر کا نہ میر کا ووٹ بینظیر کا‘‘تب عام لوگ بھی اٹھ کر سوال کرتے ہیں کہ ’’آپ نے ایان علی کے لیے وکلاء کی بڑی ٹیم بنائی مگر بینظیر بھٹو کے مقدمے کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ اب کس منہ سے بینظیر کے نام پر ووٹ مانگنے آئے ہیں‘‘ ایسی باتیں عام لوگ صرف مولابخش چانڈیو جیسے مڈل کلاسی لیڈر کے سامنے نہیں کرتے بلکہ حیدرآباد کے قریب ٹنڈو محمد خان کے سید خاندان کے وہ افراد جو ہر دور میں بغیر کسی بڑے مقابلے کے جیتتے آئے ہیں اس بار ان کی پیشانی پر بھی پسینہ ہے۔ سید نوید قمر زماں شاہ سے لیکر خیرپور کے معمر سیاستدان اور تین بار سندھ کے چیف منسٹر رہنے والے پاکستان کی مشہور شخصیت سید قائم علی شاہ اور ان کے خاندان کے افراد بھی اس بار انتخابات کی جیت کو آسان نہیں سمجھ رہے۔ سندھ کے کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے سامنے مقابلہ سخت نہیں مگر وہ چند اضلاع ہیں۔ ہر ضلع سجاول نہیں ہے۔ اگر سجاول میں اس بار بھی اپنا ذاتی ووٹ بینک رکھنے والے شیرازی گروپ والے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی کی کمزور کشتی میں سوار نہ ہوتے تو سجاول سے فتح بھی پیپلز پارٹی کے لیے مشکل ہوجاتی ۔اس بار شکارپور کی صورتحال پیپلز پارٹی کے لیے آسان نہیں۔ کیوں کہ شکارپور میں پیپلز پارٹی کے باغی رہنما آغا تیمور فنکشنل لیگ سے پیپلز پارٹی میں آنے والے امتیاز شیخ کے مد مقابل ہیں۔ امتیاز شیخ کبھی پیپلز پارٹی والوں کو سخت ناپسند تھا اور آغا تیمور کا تعلق اس آغا غلام نبی پٹھان کے خاندان سے ہے جس نے زیڈ اے بھٹو کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی تھی۔ شکارپور میں پیپلز پارٹی اس بار پیسوں سے انتخاب جیتنے کی کوشش تو کر رہی ہیں مگران کے لیے مہر اور جتوئی قبیلے کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔سندھ کے سرحدی اضلاع کشمور اور کندھ کوٹ میں جی ڈے اے اور پی ٹی آئی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار بہت پریشان ہیں۔ یہ پریشانی صرف ان دو اضلاع تک محدود نہیں۔ تھر میں اس بار پیپلز پارٹی اپنے آپ کو بیحد مشکل صورتحال میں محسوس کر رہی ہے۔ سندھ کے سابق وزیر اعلی ارباب رحیم اس وقت اس جی ڈی اے کا اہم حصہ ہیں جس جی ڈی اے کی قیادت وہ پیر پگاڑا کر رہے ہیں جس پیرپگاڑا کی تھر میں مریدوں کی بہت بڑی طاقت ہے اور پیر پگاڑا کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی کے مریدوں کی اچھی خاصی تعداد بھی وہاں موجود ہے۔ وہ سب اس بار پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جو چند امیدوار پریشان نہیں ان میں مخدوم خاندان کے سربراہ جمیل الزماں ہیں۔ وہ مخدوم جمیل الزماں کچھ دن قبل پیپلز پارٹی کے لیے درد سر بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی خلاف اپنی سروری جماعت کے افراد کھڑے کیے تھے مگر دو دن قبل آصف علی زرداری نے ان سے ون ٹو ون ملاقات کرکے مبینہ طور پر وعدہ کیا ہے وہ اگر پیپلز پارٹی جیت جاتی ہے تو سندھ کے نئے وزیر اعلی مخدوم جمیل الزماں ہونگے۔ اس وعدے پر مخدوم جمیل نے اپنی سروری جماعت کے لوگوں کو پیپلز پارٹی کے خلاف مقابلہ نہ کرنے کا کہا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مٹیاری میں جمیل الزماں کے لیے بھی اپنی سیٹ پر کامیاب ہونا بہت آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ وہاں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جی ڈی اے کے مخدوم فضل حسیب بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ سندھ کا اہم ضلع اور آئل فیلڈ کے حوالے سے سندھ کی زرعی اور سیاسی طور پر زرخیز سرزمین بدین تو پیپلز پارٹی کا وہ زخم ہے جس سے اس وقت بھی خون ٹپک رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے موجودہ قائد آصف علی زرداری نے عوامی تحریک کے رہنما اور اسماعیل راہو کے والد شہید فاضل راہو کی اس دھرتی پر اپنے یار ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو اپنا حلقہ بنانے کے لیے تیار کیا تھا۔ ذوالفقار مرزا بدین میں شوگر مل لگانے اور اپنا حامی حلقہ قائم کرنے میں تو کامیاب ہوگیا مگر اس وقت وہ پیپلز پارٹی اور اپنے دوست آصف زرداری کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ سندھ میں ذوالفقار مرزا آصف زرداری اور اپنے مخالفین کے حوالے سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ تقاریر کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کے گرد ان کے مخالفین کی گھیرے کی سی صورتحال یہ ہے۔ اگر اندرون سندھ پیپلز پارٹی اس قدر کمزور ہے تو کراچی میں ان کی پوزیشن کیا ہوگی؟ یہ ضروری نہیں ہے پیپلز پارٹی سندھ سے ہار جائے مگر اس بار پیپلز پارٹی کے لیے جیت آسان نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے اس بار سندھ میں سادہ اکثریت حاصل کرنا بھی مشکل ہے۔