کتاب کی حمایت میں اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ قادرِ مطلق نے جب بھی انسان سے مخاطب ہونا چاہا، ہمیشہ کتاب کا سہارا لیا۔ ہماری قومی اور اجتماعی بد قسمتی میں جہاں دیگر بہت سے امور ملوث ہیں، وہاں ایک اہم ترین پہلو کتاب سے دوری کا بھی ہے۔ آج بھی دنیا بھر کے آرکیٹکچر میں کسی بڑے سے بڑے دفتر، گھر یا تفریح گا ہ کا جمالیاتی تصور کتاب کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ اگر محض کتاب کے سرورق کے عکس سے چیزوں کی ظاہری خوب صورتی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے تو اس کتاب میں موجود علم و ادب سے انسانی باطن پہ کتنے مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ میر حسن جو میر انیس کے دادا اور اُردو کے سب سے بڑے مثنوی نگار ہیں۔ ان کی شہرہ آفاق مثنوی ’سحرالبیان‘ اُردو کلاسک میں شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ اس کی ہیروئن کی خوبصورتی، نفاست، جمالیات اور خوش ذوقی بیان کرتے ہوئے تان اس بات پہ توڑتے ہیں: سرہانے مجلّد دھری اِک کتاب ظہوری ، نظیری کا کل انتخاب آج کل جب کہ قوم پہ ابتلا کا دور ہے۔ Social Distanceکہ جس کا سب سے مناسب ترجمہ ہمارے خیال میں ’باہمی فاصلہ‘ ہو سکتا ہے کی بار بار تلقین کی جا رہی ہے۔ ایسے میں کتاب سے محبت رکھنے والے بہت مزے میں ہیں۔گزشتہ دو ہفتوں سے ہم بھی گھر تک محدود ہیں اور طویل عرصے سے جو کتب ہمارے سرہانے دھری تھیں، ہم ان سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ایک جھلک آپ کو بھی دکھائے دیتے ہیں۔ ایک زمانے میں ہم ہزار دو ہزار سال پہلے گزرے بزرگوں کے اقوال دیکھ اور پڑھ کے حیران ہوتے تھے کہ کس طرح انھوں نے بڑے مفاہیم کو چند الفاظ میں سمو کر گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ پھر ایک عرصے تک دانش و بینش کا یہی کارنامہ جناب واصف علی واصف نے نہایت احسن انداز میں انجام دیا۔ اسی دوران اے۔ ایچ خیال کی ’سائرن‘ سامنے آئی۔ان دنوں جو کتب ہمارے زیرِ مطالعہ ہیں، ان میں ایک تو جناب فرخ محمود کی ’’افکارِ فرخ‘‘ ہے۔ فرخ محمود بنیادی طور پر انگریزی کے استاد اور اردو کے شاعر ہیں لیکن ان کی قابلِ ذکر حیثیت اقوال نویسی کی ہے۔ یہ مشکل فریضہ انھوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں انجام دیا ہے۔ چند الفاظ یا ایک جملے میں بڑی یا اہم بات بیان کر دینا یقینا ایک دشوار امر ہے، جسے انھوں نے نہایت مہارت اورسلیقے سے نبھایا ہے۔ ان کے یہ اقوال شستگی، شگفتگی اور دانائی لیے ہوئے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند اقوال ملاحظہ ہوں: ٭’’منگنی اور شادی کے درمیان کا وقت ایسے ہوتا ہے جیسے روزوں میں عصر اور مغرب کا وقت ۔ ٭چار سال تک ہنی مون رہا ، پھر بچوں کا مون سون شروع ہو گیا۔٭ایمان کے ساتھ سیر بھی حج ہے، جب کہ ایمان کے بغیر حج بھی سیر۔٭پاکستانی ساس کہتی ہے: اگر بہو جہیز لائی ہے تو اپنے لیے لائی ہے، لیکن اگر نہیں لائی تو ہمارے لیے نہیں لائی۔ ٭شاعر کثرتِ آمد کی وجہ سے جب کہ شوہر کثرتِ آمدن کی وجہ سے گھر سے غائب رہتا ہے۔ ٭دولت کی سوچ سے سوچ کی دولت میں کمی آتی ہے۔٭عمل کی باتیں کرنا آسان لیکن باتوں پر عمل کرنا مشکل ہے۔ ٭جسم کے گودام میں چربی کی ذخیرہ اندوزی سے شخصیت کا بھاؤ گر جاتا ہے۔ ٭اخلاقیات کے بغیر معاشیات، بدمعاشیات ہے۔‘‘ محمد عارف کا تعلق واہ کینٹ سے ہے اور ان کا قلم نثری اور شعری مزاح دونوں میں رواں ہے۔ ایک سال قبل ان کی مزاحیہ شاعری کا مجموعہ ’یہ زیادتی ہے‘ منظر عام پہ چمکا۔ اب ان کے سترہ شگفتہ خاکوں کا گل دستہ ’’ خواتین و حضرات‘‘ کے عنوان سے بک کارنر جہلم سے خوبصورت وجود کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ خاکہ اگرچہ اُردو نثر کی وہ سوغات ہے، جو اپنے اندر شعری صفات رکھتی ہے۔ یہ مزاج شناسی اور مزاح شناسی کے سنگم پہ تخلیق ہوتا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مرزا فرحت اللہ بیگ کے ہاتھوں آغاز پانے والی یہ صنف آج بھی ’فرحت‘ کے بغیر مزہ نہیں دیتی۔اس کتاب کے مصنف محمد عارف کو اس بات کا بہ خوبی احساس ہے کہ خاکہ اُردو ادب کے نثری خاندان کا ایک نٹ کھٹ نوجوان ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی یہ تحریریں شرارت، محبت ، مشاہدے، نکتہ رسی اور جزئیات بینی کی عکاس ہیں۔ اس کتاب میں زیادہ تر خاکے بھی مزاحیہ شعرا (انور مسعود، سرفراز شاہد، خالد مسعود، انعام الحق جاوید) کے ہیں، جن کی شخصیات کے مطالعے کا مصنف کو مشترکہ مزاٰحیہ مشاعروں کے دوران موقع ملا۔ پھرکچھ ان کے احباب ہیں، جن میں دو خواتین بھی ہیں جن کی وجہ سے کتاب کے عنوان کا بھرم قائم ہے۔ والدہ محترمہ کے خاکے میں محبت کا عنصر قدرتی طور پر غالب ہے۔ خاکوں سے چند اقتباسات سے اسلوب کا ذائقہ محسوس کیجیے: ٭’’شیو روزانہ کرتے ہیں، کنگھی کا پتہ نہیں چلتا، ہلکی ہلکی مونچھیں شعر خوانی کے دوران ہلکا ہلکا مسکراتی رہتی ہیں۔ گراں گوش ہونے کے باوجود مطلب کی بات بخوبی سن لیتے ہیں،اس عمر میں بھی حافظے کا یہ عالم کہ جسے یاد رکھنا ہو اُسے بھولتے نہیں۔‘‘ (انور مسعود)٭’’مونچھیں شریف آدمیوں جیسی، قد نوجوانی پہ ٹھہرا ہوا ہے اور طبیعت جوانی پہ رُکی ہوئی ہے، پینٹ کوٹ میں ریٹائرڈ بیوروکریٹ جب کہ شلوار قمیص اور واسکٹ میںحاضر سروس ناظم لگتے ہیں۔‘‘ (سرفراز شاہد) ٭ ’’منطق میں دور کی ایسی کوڑی لاتا ہے جو مخاطب کے فرشتوں کے سان گمان میں بھی نہیں ہوتی اور پھر اس بنیاد پر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ غصے میں پارہ دیکھتے ہی دیکھتے چڑھ جاتا ہے لیکن واپس بالکل اسی طرح اور اسی رفتار سے آتا ہے جیسے بی پی آپریٹس میں پریشر ریلیز کرنے پر پارہ گرتا ہے۔‘‘ (خالد مسعود) ٭ ’’ایسا ادیب جس کی سرشت میں خیر سے زیادہ شر ہو، ناقد کہلاتا ہے۔ شاید آگے جا کر یہی ناشر بنتا ہے۔ بحث میں بہ یک وقت دو تین زبانیں استعمال کرتا ہے لیکن مقدم وہی زبان رکھتا ہے جس میں نرم سے نرم الفاظ میں سخت سے سخت بات کی جا سکتی ہو۔‘‘ (ضیا المصطفیٰ تُرک) نادر خاں سرگروہ منفرد سا نام ہے، ’’با ادب، با محاورہ، ہوشیار!‘‘ کتاب کا نام بھی انوکھا۔ ممبئی جیسے شہر کے پیدائشی ہیں، جو بے شمار لوگوں کے خوابوں کا نگر ہے۔ مکہ المکرمہ کے رہائشی ہیں، جو ہمارے سب کے دل میں بستا ہے۔ روزگاری کے لیے انجنئیرنگ کرتے ہیں اور دل داری کے لیے مزاح لکھتے ہیں۔ اُردو زبان اور اس کے روز مرہ و محاورے سے خاص دلچسپی ہے، اسی کے کوہِ گراں سے شگفتگی کی جوئے شیر برآمد کرتے ہیں، انداز دیکھیے: ٭ یار تم بڑے نکتہ چیں ہو ، ہمیشہ چین کے پیچھے پڑے رہتے ہو؟ ہمارا جواب ہوتا ہے: ظاہر ہے جب چین اتنا آگے نکل رہا ہے تو ہم پیچھے ہی ’پڑے‘ رہیں گے۔ ٭ گنتی ہے رینگتا ہوا کچھوا، اور پہاڑے ہیں چوکڑیاں بھرتے ہرن…میرے ایک دور کے چچا اکثر کہتے : بیٹا پہاڑے سناؤ تمھیں شیرینی ملے گی، گردشِ دوراں نے آج مجھے ان کا داماد بنا دیا ہے۔ ٭ کہتے ہیں پیسا ہاتھ کا مَیل ہوتا ہے، جو ہاتھ سے ہو کر دل میں آ جاتا ہے۔ ٭ جب دو خواتین مل کر چہل قدمی کرتی ہیں تو وہ چہل قدمی پہلے سہل قدمی، پھر چُغل قدمی بن جاتی ہے۔ ٭ فائر بریگیڈ سے پہلے میڈیا والے پہنچ جاتے ہیںاور آگ کو وہ ہوا دیتے ہیں کہ پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔