؎ ان کہے رہ گئے جو دل میں فسانے یارو شہر ویراں میں کسے جائیں سنانے یارو ؎ سال ہا سال ہوئے سنتے سناتے لیکن اب بھی تازہ ہیں وفائوں کے فسانے یارو مائوں کی جنت جیسی گود میں کھیلتے بچے جب جوان ہوتے ہیں تو یہ ان کی کل کائنات ہوتے ہیں اور والدین انہیں دیکھ دیکھ کر جیتے اور سانس لیتے ہیں جب یہ بچے روتے یا بیمارہوتے ہیں تو والدین کی سانسیں رک رک سی جاتی ہیں اور منہ میں جاتے نوالے ٹھہر جاتے ہیں اولاد سے ایسی والہانہ محبت کے باوجود ہم وہ خوش قسمت امت ہیں کہ ہم جگر کے ایسے ٹکڑوں کیلئے ہاتھ اٹھا اٹھا کر شہادت کی دعائیں مانگتے ہیں اور جب وہ اس معراج کو پا لیتے ہیں تو ہمارا معاشرہ افسوس نہیں مبارکباد دینے آتا ہے ۔باپ ایسے بیٹو ں کے کائنات سے بھاری مقدس جنازے ناتواں کاندھوں پر پھول سمجھ کر ہنس ہنس کر نم آنکھوں سے اٹھاتے ہیں۔یہ ہمارے معاشرے اور اس کنبے دونوں کیلئے عزت کی وہ معراج ہے جو عرف عام میں جذبہ ایمانی کہلاتا ہے۔ تقوے اور جذبہ ایمانی کے بغیر ایسے بھاری جنازے اٹھانا ناممکن ہے مائوں کے جنت آنگن میں گھٹنوں کے بل چلتے چلتے جوان ہونے والے ایسے ہی ایک مٹی کے فرزند کی داستان شجاعت آج میرے سامنے ہے۔انیس جولائی 1990ء کو داتا کی نگری میں ایک درویش طبیعت آدمی کے گھر عمر شہزاد نامی لخت جگر پیدا ہوا۔ماں نے حق رضاعیت پورا کرتے ہوئے اپنے عرق خون سے اس کی پرورش کی۔ماں کے آنگن میں عام بچوں کی طرح کھیلتا ہوا عمر شہزاد دیکھتے دیکھتے جوانی کی دہلیز پر سہرے باندھنے کی عمر کو پہنچ گیا۔2010ء میں اس نے پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی۔راشد منہاس ،سرفراز رفیقی، یونس حسن ،منیر الدین، اقبال اور افضل شہید جیسے لوگ اس کے روحانی مرشد اور ہیرو تھے۔ رسالپور اکیڈمی میں یہ مٹی سے وفا کی قسم کھا کر انتھک لگن سے تربیت حاصل کرتا ہے ۔ایک ہونہار کیڈٹ کی طرح تربیت کے تمام مراحل سے گزرتا ہے۔ اکیڈمی کے تمام امتحانات میں فتح و کامرانی نے اس کے قدم چومے اور ایک نرم و نازک نوجوان دیکھتے ہی دیکھتے جری اور کڑیل نوجوان میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اکیڈمی کے نیلے یونیفارم نے اسے مزید ملنسار، سمجھداراورحساس بنایا جس کی وجہ سے وہ اکیڈمی کا سینئر موسٹ کیڈٹ بھی کہلایا۔ وہاں یہ اعزاز،تعلیمی کارکردگی میں آگے ہونے پر، تمام چیزوں میں اچھی کارکردگی ہونے پر ،عسکری مہارت، نظم وضبط کی پابندی کرنے پر اور جسمانی صلاحیتوں کا لوہا منوانے پر دیا جاتا ہے کیونکہ ایسے طالب علم دوسرے کیڈٹس کیلئے رول ماڈل ہوتے ہیں۔سکواڈرن لیڈر زاہد یعقوب عامر صاحب کے بقول اس دوران آپ پوری اکیڈمی کے سینکڑوں کیڈٹس کے تمام انتظامی امور بھی بخوبی سنبھالا کرتے تھے۔ عمر شہزاد تربیت کی اس بھٹی سے جب کندھن بن کر نکلے تو آپ ایک اچھے فائیٹر پائلٹ تھے۔ اعلیٰ کارکردگی پر آپ کو اعزازی تلوار سے نوازا گیا۔آپ کو بہترین پائلٹ ٹرافی سے بھی نوازا گیا۔ آپ کے سینے پر ان تمام اعزازات کے میڈل اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے سجائے۔2013ء سے 2015ء تک آپ نے ایم ایم عالم میانوالی ایئر بیس پر بھی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں لیکن اس دوران بھی رسالپوراکیڈمی میں آپ کا حوالہ خوشبو کی طرح مہکتا رہا اور دوست، اساتذہ، جونیئر اورسینئر آپ کو مختلف واقعات کے حوالے سے یاد کرتے رہتے تھے۔ عملی زندگی میں آنے کے بعد آپ ایم ایم عالم ایئر بیس میانوالی کے بعد کوئٹہ بھی کچھ عرصہ تعینات رہے ۔ 2016 ء میں آپ کا سکواڈرن پشاور تعینات کر دیا گیا۔یہاں آپ خیبر،طورخم، جمرود اور مومند کے پہاڑوں پر شاہین بن کر وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کرتے رہے۔شیر دل پٹھانوں کے دارالحکومت شہر پشاور میں قدرت نے آپ کو اپنا مہمان بنانے کا اعزاز بخشا۔چوبیس ستمبر2016ء کو آپ ایف سیون پی جی طیارے کی روٹین پر واز پر تھے کہ دوران پرواز طیارے میں کوئی فنی خرابی پیدا ہو گئی ایک پروفیشنل ہوا باز کی طرح آپ کی پہلی بھرپور کوشش تو یہ تھی کہ حکومت پاکستان کا یہ کروڑوں کا طیارہ بحفاظت رن وے پر اتار لیں جو اب ناممکن ہو چکا تھا دوسرا راستہ یہ تھا کہ فوراً جہاز سے پیرا شوٹ کے ذریعے کود جائیں لیکن اس صورت میں جہاز شہری آبادی پر گر جاتا اور درجنوں بے گناہ لوگ مر جاتے اور لاکھوں کی املاک اور مکانات تباہ ہوجاتے ۔آپ نے دوسرا راستہ اپناتے ہوئے آخری لمحے تک جہاز کو اڑاتے ہوئے آبادی سے دور لے جانے کی کوشش کی جس میں آپ کامیاب ہوئے لیکن رحمان بابا کی دھرتی پر معصوم شہریوں کو بچاتے بچاتے آپ نے طیارے سے نکلنے کا وقت بھی آبادی سے باہر نکلنے کو دے دیا یوںآخری سیکنڈ تک ہمت کرتے ہوئے آپ طیارے کو آبادی سے باہر لے گئے ۔اور شہری آبادی کو بچاتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے دی ۔ پاکستان کی تاریخ میں یوں آپ نے شہادت کا امرت پیالہ پی کر امر ہوجانے کی ان مٹ داستان ہمیشہ کیلئے سنہری حروف سے رقم کر دی ۔آپ کو پاکستان کے پورے فوجی اعزازکے ساتھ لاہور میں دفنایا گیا ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو تمغۂ بسالت کا اعزاز عطا کیا گیا ہے۔ شہادت مومن اور سپاہی کی حسین زندگی کی ابدی معراج ہے ۔یہ سپاہی کی وہ دستار فضیلت ہے جو شہید سپاہی کے پورے کنبے کے سر پر معاشرے کی طرف سے بڑے فخر کے ساتھ رکھی جاتی ہے یہ ہر سپاہی کے باپ کا طرہ ہے اور ہرسپاہی بیٹے کی شہادت مائوں کے سر پر صبر کی چادر ہے ۔دنیا میں امت محمد یہ ﷺ کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ وہ شہادت کی موت کی قدروقیمت جانتے ہیں۔ والدین کی تربیت ہی انہیں اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر دفنا کر یہ آب حیات پلاتی ہے۔ ؎ یہاں سے گزرے تھے کچھ ایسے راہ نور د کہ جو زمیں میں دفن ہیں پھر بھی ہیں راستوں کی طرح ؎ جلو نہ شمع کی مانند بند کمروں میں دکھائو راہ اندھیروں میں جگنوئوں