وسیب کے فنکار کسمپرسی کا شکار ہیں، چولستان کے معروف سنگر موہن بھگت کو مالی مشکلات میں مدد دینے کیلئے ریڈیو پاکستان بہاولپور نے عارضی نوکری دی مگر ریڈیو میں مالی بحران کے باعث وہ کنٹریکٹ بھی ختم ہو چکا ہے۔ موہن بھگت نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے نام اپنی درخواست میں کہا ہے کہ میرے والد فقیرا بھگت جنہوں نے دنیا کے کئی ملکوں میں اپنی گائیکی کے ذریعے پاکستان کا نام روشن کیا مگر وہ علیل ہوئے تو اپیلوں کے باوجود ان کا سرکاری سطح کسی اچھے ہسپتال سے علاج نہ کرایا گیا اور یرقان نے ان کی جان لے لی۔ میں خود بیمار ہوں،چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے،مجھے خیرات نہیں کم از کم کوئی ملازمت دی جائے تاکہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکوں۔یہ صرف ایک شخص کی کہانی نہیں بلکہ اس طرح کی غربت کے قصے آپ کو وسیب میں ہر جگہ سننے کو ملیں گے۔ اچھی بات ہے کہ پنجابی فنکار طارق ٹیڈی کے وفات پر ان کے بیٹے کو کثیر مالی امداد کرنے کے علاوہ سرکاری ملازمت بھی دی۔مگر سوال یہ ہے کہ وسیب کے فنکار کہاں جائیں اور کس سے فریاد کریں؟۔ آج میں چولستان کی ایک اور آواز نصیر مستانہ کا ذکر کروں گا جن کی ملک و قوم کیلئے بہت خدمات ہیں۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ، نصیر مستانہ جمیل پروانہ دو بھائیوں کی جوڑی تھی، جب وہ مل کر گاتے تو سماں باندھ دیتے اور دونوں کی آواز میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا۔ نصیر مستانہ 1951ء میں محمد امین خان راجپوت کے ہاں احمد پور شرقیہ میں پیدا ہوئے، بچپن سے آواز بہت اچھی تھی،سکول میں ملی نغمے گاتے اور نعتیں پڑھتے، پھر دونوں بھائیوں نے مل کر گانا شروع کیا۔ احمد پور شرقیہ میں حسینہ ، ممتاز اور عاشق ، رمضان کی جوڑی مشہور تھی ، حسینہ اور ممتاز فوت ہو گئیں ، عاشق رمضان کی بھی خدمات ہیں لیکن جمیل پروانہ ، نصیر مستانہ نے عالمگیر شہرت حاصل کی ، اب نصیر مستانہ کی وفات سے یہ جوڑی ٹوٹ گئی اور جمیل پروانہ اکیلے ہو گئے ،بزرگ دعا دیتے تھے ’’ شالا جوڑی سلامت رہے ‘‘ اپنے بھائی کی وفات پر جمیل پروانہ نے دھاڑ نکالی ’’ لالہ میں کلھا تھی گیاں‘‘ تو دعا کا مفہوم سمجھ آیا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ نصیر مستانہ ہمارے درمیان موجود نہیں مگر وہ زندہ رہیں گے ، اپنی آواز کے ساتھ اور اپنی خوبصورت یادوں کے ساتھ۔ دونوں بھائیوں نے سرائیکی لوک گیتوں کو نیا رنگ اور نیا آہنگ دیا اور چولستان کے صدیوں پرانے گیتوں کی ریڈیو پر لا کر نئی زندگی دیدی۔ جمیل پروانہ نصیر مستانہ نے 1973ء میں ریڈیو پاکستان ملتان سے گلوکاری کا آغاز کیا ۔ 1975ء میں پاکستان ٹیلی ویژن پر پہلا گیت گایا اور 1976ء میں بہاولپور ریڈیو پاکستان جا کر اپنے گیت گانے شروع کئے۔ پی ٹی وی ایوارڈ 2003 ء میں الحمرا ہال لاہور میں دیا گیا، خواجہ فرید اور کلچرل ایوارڈ، واپڈا آڈیٹوریم میں اس وقت کے مشہور اداکار محمد علی اور زیبا نے دیا۔ 1996ء میں چولستان ایوارڈ اور سر صادق محمد خان عباسی ایوارڈ دونوں بھائیوں کو ملا۔ وہ میڈم نور جہاں کو اپنا روحانی استاد مانتے ہیں۔ نصیر مستانہ مرحوم بلدیہ میں 14ویں سکیل میں ریٹائر ہوئے، نصیر مستانہ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ چھ بھائیوں میں نصیر مستانہ کا نمبر تیسرا اور جمیل پروانہ کا پانچواں ہے۔ نصیر مستانہ مرحوم ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے جبکہ جمیل پروانہ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، پہلے کونسلر بھی رہے، اکثر نامور لوگ باہر مقبول ہوتے ہیں ، اپنے گھر اور اپنے علاقے میں غیر مقبول، جمیل پروانہ نصیر مستانہ خوش قسمت جوڑی ثابت ہوئی کہ وہ اپنے گھر اوراپنے شہر میں بھی پسندیدہ ہیں۔ نصیر مستانہ بتاتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو ، محمد خان جونیجو ، محترمہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور پرویز مشرف سمیت بہت سے سر براہان کے سامنے پرفارمنس کا موقع ملا، انعام کے علاوہ دل سے جو داد ملی وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے تھی، ضیاء الحق کی طرف سے شاہی قلعہ میں دعوت ملی ، ہم شش و پنج میں پڑ گئے جائیں کہ نہ جائیں، خیر ہم چلے گئے وہاں جانے کا یہ فائدہ ہوا کہ میڈم نور جہاں جن کے ہم خود پرستار تھے نے ہمارا گیت ’’ کھڑی ڈیندی آں سنیہڑا ‘‘ سنا تو نہ صرف یہ کہ اپنی نشست سے اُٹھ کر ہمیں داد دی بلکہ تقریب میں موجود عظیم موسیقار وجاہت عطرے کے پاس لے جا کر ہمارا تعارف کرایا اور عطرے صاحب سے فرمائش کی کہ میں پنجابی زبان میں گیت لکھواتی ہوں کہ آپ اس کی ’’کھڑی ڈیندی آں سنیہڑا ‘‘والی دھن بنا دیں ، پھر میڈم نے پنجاب گیت ’’ دل دیندیاں میں سوہنے دلدار نوں ‘‘ گایا جو بہت مقبول ہوا۔ نصیر مستانہ جمیل پروانہ ریڈیو پاکستان کی تقریب میں شرکت کیلئے ملتان تشریف لائے تھے تو ملاقات میں میں نے بات کی تھی کہ جمیل پروانہ نصیر مستانہ اتنے بڑے فنکار ہیں، انکو پرائڈ آف پرفارمنس ملنا چاہیے ، اسٹیشن ڈائریکٹر آصف خان کھتران نے کہا کہ ریڈیو سے کئی مرتبہ پرپوزل بھیجی گئی ہے، پروفیسر شوکت مغل نے کہا تھا کہ ملے گا ملے گا ضرور ملے گا، اس پر نصیر مستانہ نے سرائیکی میں کہا ’’ جیا سئیں ! اونویں ملسے جیویں پٹھانے خان کوں مرن دے بعد ملیا ہا،اگر ایوارڈ جیندیں نہ ملیا تاں اساڈٖے کئیں لیکھے ؟ ‘‘۔نصیر مستانہ کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کرتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ، مجھے یاد ہے 10 ستمبر 1981ء کو میری شادی پر جمیل پروانہ نصیر مستانہ میرے گائوں دھریجہ نگر آئے، میرے بابا سئیں کی فرمائش پر انہوںنے تقریب کا آغاز نعت شریف’’ رسول اکرم رسول اکرم ، پڑھاں درود و سلام دم دم ‘‘ سے کیا تو میرے بابا سئیں کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی بندھ گئی۔ تقریب میں عاشق رسولؐ مخدوم نور محمد ہاشمی ؒ بھی تشریف فرما تھے ان کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں ، مجھے یاد ہے انہوںنے دونوں بھائیوں پر سو سو کے نوٹ نچھاور کیے، اس وقت سو کا نوٹ ہزار سے بڑھ کر تھا، ہمارے گائوں والے اس واقعے کو اب بھی یاد کرتے ہیں ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فنکار کسی بھی زبان کا ہو وہ اپنے خطے ، اپنے وسیب اور اپنی ثقافت کا سفیر ہوتا ہے، ملک کے فنکاروں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو اپنے اپنے طور پر وسیب کے فنکاروں کی حالت زار پر توجہ دینا ہوگی تاکہ وہ بھی خوبصورت ملی گیت گا سکیں ’’تو بھی پاکستان ہے ، میں بھی پاکستان ہوں، یہ تیرا پاکستان ہے ، یہ میرا پاکستان ہے‘‘۔