بھارت کا واویلا اگر عمران خان کے دورہ امریکہ کی کامیابی کا ثبوت نہیں تو کوئی اور دلیل بے کار ہے‘ بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف۔ عربی میں کہتے ہیں الفضل ماشہدت بہ الاعدئ‘ برتری اور کامرانی وہ ہے جس کی دشمن گواہی دیں۔ عمران خان کی کامیاب سفارت کاری پر بھارت میں صف ماتم بچھی ہے اور کشمیری قیادت خورسند۔ امریکہ نے پاکستان کو پرویز مشرف کے دور میں دیوار سے لگانا شروع کیا‘ الزام لگا کہ پاکستان ڈبل گیم کا مرتکب ہے‘امریکہ کے ساتھ مل کر افغان طالبان کا خاتمہ کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کنڈولیزا رائس کے ساتھ نامہ و پیام میں یہ چورن خوب بیچا اور فوجی آمر کو این آر او دینے پر مجبور کر دیا ‘امریکیوں کو توقع تھی کہ صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اپنی فوج کو افغانستان کی دلدل میں دھکیل دیں گے مگر ہمارے سیاستدان داخلی معاملات میں جتنے نکمّے ہوں ‘خارجہ اُمور میں مشاورت سے چلتے اور اعلیٰ ترین قومی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے سے عوامی رائے منقسم ہے مگر یہ کریڈٹ اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا کہ وہ امریکیوں کو بار بار افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی راہ دکھاتے رہے۔ سیاستدانوں میں سے یہ بات عمران خان کہتے تھے کہ افغان مسئلہ کا فوجی حل پاگل پن ہے‘ افغان طالبان سے بات چیت ان کی شاہ کلید ہے اس موقف پر عمران خان کو طالبان خاں کہا گیا اور پرویز مشرف نے پھبتی کسی کہ اس کے پیٹ میں داڑھی ہے۔ بالآخر نئی طرز کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات مان لی کہ افغان طالبان سے مذاکرات کے بغیر امریکہ کی جنوبی ایشیا کے ’’ویت نام‘‘ سے باعزت واپسی ممکن نہیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ غیر روائتی سیاستدان اور ایک پختہ کار کاروباری کی طرح معاملات کو دو جمع دوکے انداز میں سوچنے کے عادی ہیں۔ ان کے نزدیک افغانستان ہو یا کوئی دوسرا ملک صرف اس صورت میں اہمیت رکھتا ہے کہ وہ امریکی ٹیکس گزاروں کی آمدنی پر بوجھ نہ بنے اور وہائٹ ہائوس اس کے نقد سیاسی فوائد سمیٹ سکے۔ افغان جنگ جارج ڈبلیو بش اور بارک اوبامہ کے لئے امریکہ کے قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ ٹرمپ کے لئے درد سر اور گھاٹے کا سودا۔ امریکہ کی ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ٹرمپ کو یہ سمجھانے میں ناکام رہی کہ اگر ہم افغانستان سے خالی ہاتھ نکلے تو ہمارا عالمی وقار متاثر ہو گا اور نیٹو ٹوٹ پھوٹ سے دوچار‘ ہمارے یورپی اتحادی آئندہ ہم پر اعتبار نہیں کریں گے۔ مسلسل دبائو اورطویل بریفنگ کے ذریعے وہ اپنے صدر کو اس بات پر بہ مشکل قائل کر پائے کہ ناک اونچی رکھنے کے لئے جنگ بندی کا اعلان طالبان کی طرف سے ہو۔ یہی مطالبہ اب پاکستان سے ہے کہ وہ طالبان کو سیز فائر پر قائل کرے اور افغانستان کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے موجودہ افغان حکمرانوں اور طالبان کے مابین مذاکرات کی بساط بچھائے‘ پاکستان آمادہ ہے مگر اس بات سے خائف بھی کہ ایک آنچ کی کسر رہ گئی تو ماضی کی طرح ملبہ ہم پر گرے گا۔ اب یہ کوئی سربستہ راز نہیں کہ صدر ٹرمپ نومبر سے قبل سیز فائر کے خواہاں ہیںتاکہ انخلا کی تاریخ دے کر وہ اگلی انتخابی مہم کا آغاز کر سکیں۔ پاکستان امریکہ کی طوطا چشمی اور کہہ مکرنیوں سے واقف ہے‘ وہ ماضی کے تلخ تجربات بھولا نہیں مگر جس طرح کہ عمران خان نے کہا: کوئی چاہے نہ چاہے جب تک یہ سپر پاور ہے امریکہ سے اچھے تعلقات ہر ملک اور قوم کی مجبوری ہے :پاکستان کی زیادہ مجبوری اس بنا پر ہے کہ ماضی میں بری حکمرانی‘ کرپشن اور خاندانی و موروثی سیاست نے وسائل سے مالا مال اس ملک کو معاشی دیوالیہ پن تک پہنچا دیا جس سے نکلنے کے لئے بھی امریکہ کی اشیر باد ازبس ضروری ہے۔ عمران خان کا امریکہ میں استقبال بلا شبہ مثالی تھا۔ صدر ٹرمپ نے ظاہر ہے اپنی قومی ضرورت کے تحت عمران خان کے بارے میں جو الفاظ کہے وہ ہمارے کسی دوسرے منتخب رہنما کو نصیب نہ ہوئے ’’مقبول ترین وزیر اعظم ‘‘اور ’’عظیم لیڈر‘‘ کا سہرا سجا کر عمران خان نے منہ میں گھنگھنیاں نہیں ڈالیں اور اظہار تشکر کے لئے چاپلوسی کو شعار نہ کیا بلکہ مسئلہ کشمیر‘ دوطرفہ دوستی اور افغانستان کے بارے میں اپنے دیرینہ موقف کا جرأت مندی سے اعادہ کیا۔بھارت کا ردعمل دیکھ کر بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان کا تیر نشانے پر بیٹھا اور یہ بھارتی پروپیگنڈا نقش برآب ثابت ہوا کہ نریندر مودی نے اپنی جارحانہ سفارتی پیش رفت سے پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کر دیا ہے اور امریکہ اسے بھارت کی طرح دہشت گردوں کی نرسری سمجھتا ہے‘ کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ پاکستان کی بات امریکہ سن اور سمجھ رہا ہے تو کسی اور کے بارے میں یہ تصورکرنا حماقت ہے کہ وہ نظرانداز کرے گا۔سفارتی کامیابی اس کے سوا کس چڑیا کا نام ہے؟ بلاول بھٹو ‘ مریم نواز اوران کے ساتھیوں سے زیادہ ہوشیار اور عقلمند ثابت ہوا‘ اس نے مخالفت برائے مخالفت سے اپنے آپ کو نشانہ مذاق بنانے کے بجائے خارجہ پالیسی میں حکومت کو غیر مشروط حمائت کی پیشکش کر دی‘ دیوارسے ٹکریں مارنے اور اپنا ماتھا زخمی کرانے کا فائدہ؟ بلاول کو کوئی نہ کوئی معقول مشیر میسر ہے جس نے برخوردارکو باور کرایا کہ ؎ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمۂ آفتابِ راچہ گناہ پریس بریفنگ اور انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں عمران خان کی کارکردگی مناسب رہی ۔میڈیا پر پابندیوں کے سوالات کو جس ہوشیاری سے عمران خان نے ڈیل کیا وہ غیر متوقع تھا۔ شتر بے مہار آزادی کے تصور کو امریکہ جیسے ملک میں رد کرنا کاردشوار تھا‘ مادر پدر آزادی کے خواہاں طبقے کو کرپٹ مافیا کے مفادات سے جوڑ کر عمران خان نے اپنا دامن بچایا اور ایک لحاظ سے جوابی حملہ کر کے مخالفین کو لاجواب کیا۔ یہ بات سوفیصد غلط بھی نہیں‘ کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور اختیارات سے تجاوز کے خلاف ریاستی اداروں کی قانونی کارروائی کو آزادی صحافت کے وار سے غیر موثر کرنے کی سعی کرپٹ مافیا کر سکتا ہے یا اس کا سہولت کار طبقہ‘ یہ مفادات کا گٹھ جوڑ ہے اور اپنے اپنے بچائو کی جنگ ؎ گروہ عاشقاں پکڑا گیا ہے جو نامہ بررہے ہیں‘ ڈر رہے ہیں آزادی مقدس حق ہے اور انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشوو نما آزادی اظہار کے بغیر ناممکن ‘مگر آزادی اظہار کے نام پر ریاست‘ اداروں اور اقدار و روایات کی شکست و ریخت پرلے درجے کی حماقت ہے۔ توازن اور اعتدال مہذب قوموں کو زیبا ہے اور ہم مہذب قوم ہونے کے دعویدار ہیں۔ وطن واپسی پر اپنی سفارتی کامیابی کے ثمرات سے ملک و قوم کو بہرہ ور اور پاک امریکہ تعلقات میں وسعت و گہرائی پیدا کرنا عمران خان اور ان کے ہمراہیوں کی ذمہ داری ہے۔ صدر ٹرمپ کی اشیر باد سے عمران خان اور حکومت کو اپوزیشن اور میڈیا کو دیوارسے لگانے کا مینڈیٹ ملا ہے نہ پاکستان کو امریکی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی آزادی۔ عمران خان کو امریکہ میں سفارتی کامیابی اپنے موقف پر ثابت قدمی سے ملی اور پاکستان کی بقاو استحکام‘ ترقی و خوشحالی کا راز بھی موقف کی سچائی‘ لیڈر کی پامردی میں ہے۔ ایوب خان اور ہمارے کئی دوسرے حکمرانوں کو طویل عرصہ بعد یہ سمجھ آئی کہ امریکہ کی تابعداری گھاٹے کا سودا ہے اور امداد قوم کو افیون کی لت لگانے کے مترادف ۔خدا کرے کہ عمران خان اپنے الفاظ پر قائم رہے اور قوم کو امداد کا نشہ لگائے ‘نہ اسے خدائے بزرگ و برتر کے سوا کسی کے آگے جھکنے دے ع تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من