بہت دنوں کی بات نہیں ہے بھئی۔ہمارے بچپن اور لڑکپن کو ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔خیر دن جتنے بھی ہوں اصل بات یہ کہ ہم سکاٹ لینڈ یارڈ،شرلاک ہومزاورہرقل پائرو کے ملک برطانیہ عظمیٰ کی پولیس،سراغ رسانی اور فوری انصاف سے شدید متاثر رہے ہیں۔ہر داستان گو سکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس کی شان میں قصیدے پڑھتا برآمد ہوتا تھا۔ لندن پولیس اور اس کی آہنی گرفت کی تعریف سفر نامہ نگاروں کا محبوب مشغلہ تھی۔اس زمانے میں ہمارا خیال تھا کہ دراصل یہ پولیس سکاٹ لینڈ کی ہے جو اپنی فرض شناسی اور مستعدی کے باعث پورے ملک میں بھاگی پھرتی ہے۔اور ہر مجرم کو جیل بھجوا کر واپس سکاٹ لینڈ پہنچ جاتی ہے۔بہت بعد میں علم ہوا کہ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس (MPS)کا صدر دفترجس عمارت میں واقع تھا،اس کی عقبی گلی کا نام سکاٹ لینڈ یارڈ تھا۔ عمارت کے عقبی دروازے ہی سے عام لوگوں کی آمد و رفت تھی۔زمانہ گزرا تو اس گلی کا نام اور پولیس سٹیشن کا نام لازم و ملزوم ہوگئے اور اسے سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کہا جانے لگا۔1890 ء سے 2016 ء تک پولیس کے دفاترمختلف مقامات اور عمارتوں میں منتقل ہوتے رہے لیکن عقبی گلی کا نام ایسا چپکا کہ لوگ اصل نام بھول گئے۔ پولیس ہی پر کیا موقوف ہر لمبا، فیلٹ ہیٹ پہنے، پائپ پیتا انگریز شرلاک ہومز ،ذرا پیچھے ٹہلتا ، کوئی متجسس شخص ڈاکٹر واٹسن ،موٹی گھنی مونچھوں والا ہر شخص ہرقل پائرو تھا۔بات دراصل آرتھر کانن ڈائل اور اگاتھا کرسٹی کے انداز بیان کی نہیں ،دیسی احساس مرعوبیت کی تھی۔ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی شخص جرم کرکے لندن میں ایک دن بھی رہ سکتا ہے۔یقین تھا کہ قمیض کا بٹن، سگار کی راکھ اور سگریٹ کا ٹکڑا بھی بول اٹھیں گے۔مجرم بچ کے جائے گا کہاں۔ لیکن ذرا ایک قصہ اور سن لیں۔2004 ء کی بات ہے۔ہم جشن بہار بین الاقوامی مشاعرے میں شرکت کے لیے دہلی پہنچے ۔سعودی عرب سے ایک عرب دوست بھی مدعو تھے، جو اردو شاعری کرتے ہیں۔دہلی پہنچے تو اگلاجمعہ کا دن تھا۔ہم جمعہ کی نماز پڑھنے کناٹ پیلس کی طرف جارہے تھے۔عرب دوست پہلی بار ہندوستان آئے تھے۔وہ گاڑی میں آتے جاتے راستے بھر لوگوں کے چہرے،ٹریفک،صفائی کے حالات وغیرہ دیکھتے رہے۔پھر آخر کار بولے۔سعود صاحب!’ ’ اگر یہ ہندوستان ہے تو وہ کیا ہے جو ہم ہندوستانی فلموں میں دیکھتے ہیں اور اگر فلموں والا ہندوستان اصل ہے تو پھر یہ کون سا ہندوستان ہے؟ ‘‘ تو حضور! برطانیہ کی جس پولیس، سراغ رسانی اور عدل و انصاف کے اتنے چرچے کیے جاتے ہیں وہ کون سا انگلستان ہے اور اگر یہ وہی انگلستان ہے تو یہ سارے مجرم یہاں کیسے ہیں؟ اس تاثر کو چھوڑ بھی دیا جائے کہ بہت سے مجرموں کو پناہ دینے والی دراصل انٹیلی جنس ایجنسیاں ہوتی ہیں، تب بھی یہ تاثر تو عام اور بالکل درست ہے کہ کمزور ملکوں کے قاتلوں، لٹیروںکو ان ملکوں میں بہت آسانی سے سیاسی پناہ مل جاتی ہے۔سیاسی پناہ کے اصول پر بھی بہت بات کی جاسکتی ہے لیکن اسے مان بھی لیا جائے تو کیا اس کی آڑ میں قاتلوں کے سر پر ہاتھ رکھنا سمجھ آسکتا ہے؟دوسرے ملکوں کو چھوڑیے ایم کیو ایم کی قیادت کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے۔ جب انہیں شہریت ملی اس وقت ان پر قتل، دہشت گردی،بھتہ خوری وغیرہ وغیرہ کے ان گنت مقدمات درج تھے۔کیاسیاسی پناہ پر غور کرتے ہوئے کیا اس شخص کا ریکارڈ نہیں دیکھا جاتا؟کیا لاتعداد مقدمات کو سرے سے نظر انداز کردیا جاتا ہے؟کیا سفارت خانہ تمام واقعات سے نابلد ہوتا ہے؟کیا کوئی تفتیش نہیں ہوتی اور کیا کسی بھی تفتیش کے نتائج اس شخص کی شہریت کے حق میں ہوسکتے ہیں؟ چلیے کسی ہم دردی کی وجہ سے شہریت دے بھی دی گئی۔اب وہ برطانوی ہوکر پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔ متنازعہ خطاب کر رہے ہیں۔گھیراؤ جلاؤ کی کالیںاور دھمکیاں دے رہے ہیں ۔یہ سب لندن سے ہورہا ہے اور پولیس کو پچیس سال تک کانوں کان خبر نہیں ہوتی کہ اس کی ناک تلے کیا چل رہا ہے۔پاکستان میںتشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔چیخ و پکار مچی ہوئی ہے اور پاکستان میں سفارتی عملہ نیند میں ہے اسے نہ کچھ دکھائی دے رہا ہے نہ سنائی دے رہا ہے۔کیا کچھ سمجھ میں آنے والی بات ہے ؟ یہ سب کام لندن کے وسط سے انجام دیا جارہا تھا۔سوال یہ ہے کہ جب تک پاکستان سے اس کھلی دہشت گردی کے خلاف آوازیں نہیں اٹھیں برطانوی ادارے کہاں سو رہے تھے انہیں از خود اس کا نوٹس لینے کی توفیق کیوں نہیں ہو سکی؟ اس سے بھی زیادہ عبرت ناک مثال عمران فاروق کا قتل ہے۔وہ تو اسی زمین پر ہوا تھا ۔ایجور روڈ لندن پر ستمبر 2010 ء میں ہونے والا یہ قتل آپ کو یاد ہوگا اور اس کے پس منظر کا بھی علم ہوگا۔ننانوے فیصد لوگوں کو کوئی شک نہیں ہوگا کہ اصل قاتل کون ہے۔9 سال گزر چکے۔کیا کسی کو کچھ پتہ چلا کہ اس کیس کا کیا بنا؟قتل کیسے ہوا؟قاتل کون تھے اور ان کے پیچھے کون تھا؟محسن اور خالد کے نام بھی پاکستانی اخبارات میں آچکے اور محمد انور کا بھی لیکن برطانیہ سے کوئی خبر نہیں آتی۔خبر آتی ہے تو یہ کہ برطانیہ نے پاکستان سے معلومات کا تبادلہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔ 9 سال گزر چکے۔اب کتنے اور گزریں گے علم نہیں۔ 2013 ء کے انتخاب کے دن اور وہ تقریر یاد ہوگی جس کے رد عمل میںسینکڑوں کالیں لندن پولیس کو وصول ہوئیں ۔ اس تقریر کو نفرت انگیز(Hate speech) قرار دے کر اس پر کارروائی کی درخواست کی گئی تھی۔کافی عرصے بعد لندن پولیس نے فرمایاکہ تقریر میں کوئی غلط بات نہیں پائی گئی اور وہ موصوف کے خلاف کسی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتی۔سبحان اللہ ۔قربان نہ جائیں آپ پر؟ جولائی 2013 ء میں جب لندن پولیس نے اعلان کیا کہ وہ منی لانڈرنگ کے الزام میں بانی ایم کیو ایم سے تفتیش کر رہی ہے تو ایک معروف ٹی وی اینکر فرما رہے تھے کہ یہ انتہائی سخت الزام ہے۔یہ صاحب بچتے نظر نہیں آتے۔بچنے کا سوال تو الگ،کیا 9 سال گزرنے کے بعد بھی کچھ پتہ چلا کہ اس منی لانڈرنگ کیس کا کیا بنا اور الزام غلط تھا یا درست؟ ابھی کچھ دن پہلے پھر ان صاحب کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ معلوم ہوا کہ 2016 ء یعنی 3 سال پہلے کی ایک تقریر کے بارے میں پولیس نے تفتیش شروع کی ہے۔میں نے سوچا کہ یہ تفتیش کچھ جلدی شروع نہیں ہوگئی ،کم از کم 9 سال تو گزرنے دیتے۔خیر پولیس نے زیادہ زحمت نہیں دی اور وہ بھلے مانس چند دن بعد رہا ہوکر گھر چلے گئے۔یہ کیس کب تک چلے گاپتہ نہیں۔لیکن یہ ضروریاد ہے کہ سلمان بٹ محمد آصف اور محمد عامر پر میچ فکسنگ کا کیس بہت جلد مکمل ہوگیا تھا اور پولیس نے اس کے سارے سراغ بھی فوراًـڈھونڈ لیے تھے۔ ذرا تصور کیجیے کہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کا ورلڈ کپ کا اہم میچ ہورہا ہو۔اس میں انگلینڈ کے حامی تماشائیوں پر حملے کیے جائیں۔ کھلاڑیوں پر حملے کی کوشش کی جائے۔ اوپر ایک جہاز پرواز کر رہا ہو جس پر انصاف برائے آئر لینڈ(Justice for ireland)کا بینر لہرا رہا ہو۔جب ان سب کی شکایت کی جائے تو پولیس یہ کہے کہ کچھ گڑبڑ تو ہوئی تھی لیکن حملے کی ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ہمیں توویڈیو فوٹیج سے علم ہوا ہے۔ اگر یہ سب انگلینڈ کے خلاف اور پاکستان میں ہواہوتا تو ایک کہرام مچ گیا ہوتا۔ نا اہلی اور دہشت گردی کے الزامات کی بوچھاڑ ہوچکی ہوتی۔ جرم ضعیفی کے ساتھ مخالفت میںتعصب اور بے انصافی شامل ہوجائے تو یہی تصویر نظر آتی ہے۔ سواے پیارے شرلاک ہومز!اے موسیو ہرقل پائرو!آپ کہاں سو رہے ہیں کہ آپ کی زمین جرم سے بھر دی گئی ہے۔ ڈاکٹر واٹسن! آپ ہی کچھ مدد کریں۔سرآرتھر کانن ڈائل اورمیڈم اگاتھا کرسٹی ! آپ کچھ سفارش کرسکتے ہیں؟ ٓٓپ کچھ مدد کرسکتے ہیں