پہلے قصور کی معصوم زینب اور اب اسلام آباد کی مظلوم فرشتہ واقعہ کی تفصیل سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے‘ لاش ملی تو صرف درندہ صفت چچا زاد بھائی نے کم سن بچی کو نہیں نوچا تھا بلکہ جنگلی جانوروں نے بھی خوب بھنبھوڑا اور جسم کے کئی حصے چباڈالے۔ یہ واقعہ وزیر اعظم کی ذاتی قیام گاہ بنی گالہ کے قریب پیش آیا‘ وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی معمول سے زیادہ سخت ہوتی ہے اور بنی گالہ ریڈ زون۔ پھر بھی مظلوم بچی اغوا ہوئی‘ والدین رپٹ درج کرانے تھانے پہنچے تو بدبخت پولیس اہلکار کا جواب تھا خود تلاش کرو‘ کسی کے ساتھ چلی گئی ہو گی۔ یہ تغافل صرف اسلام آباد پولیس کا شیوہ نہیں۔ کم و بیش ہر پولیس اہلکار‘ افسر سے عامۃ الناس کو یہی شکایت ہے۔ سفارش اور رشوت کے بل بوتے پر بھرتی ہونے والے پولیس اہلکاروں سے بہتر کارگزاری کی توقع حماقت ہے، جب تک مٹھی گرم نہ ہو‘ اوپر سے دبائو نہ پڑے اور پرتشدد ہنگاموں کا اندیشہ نہ ہو، پولیس کے اہلکار و افسر کسی سائل کی بات توجہ سے سنتے ہیں نہ شکایت کا ازالہ کرنے کی سوچتے ہیں ۔عمران خان نے پولیس کو عوام کی خادم بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر تاحال ۔ ع وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا کسی طاقتور گھرانے کی بچی کو اگر ٹریفک سگنل پر بدقماش نے گھور کر دیکھا ہوتا اور والدین شکایت کر دیتے تو اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکار ایسے گستاخ کا سراغ لگانے میں دیر لگاتے نہ گرفتاری کے بعد سزا دینے سے جھجکتے۔ پولیس مقابلہ نہ سہی ملزم کا ہاتھ پائوں ٹوٹنا لازم تھا۔ مگر فرشتہ کسی طاقتور اور با اختیار کی بیٹی نہ تھی۔فرشتہ سے پہلے درندگی کا نشانہ بننے والی بچیوں کا بھی یہی جرم تھا‘رواج سا پڑ گیا ہے کہ جب تک لوگ سڑکوں پر نہ نکلیں ‘ حکمرانوں کا جذبۂ انسانی ہمدردی جاگتا ہے نہ کسی کی رگِ عدل و انصاف پھڑکتی ہے۔ فرشتہ کا قاتل وہ وحشی درندہ تو ہے جس نے رشتہ داری کا جھانسہ دے کر انجام سے بے خبر کلی کو مسل دیا مگر ہم‘ آپ‘ ہمارے حکمران‘ پولیس و انتظامیہ اور موجودہ آدم خور شیطانی نظام میں سے کون اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتا ہے؟ ہماری فلمیں‘ ڈرامے‘ الیکٹرانک میڈیا پر بے ہودہ پروگرام اور سوشل میڈیا پر غارت گر شرم و حیا ویڈیوز ناآسودہ جذبات کو بھڑکانے، جنسی باگڑ بلّوں کو درندگی پر اکسانے میں مددگار ہیں اوررشوت و سفارش کے کلچر کے صدقے چھوٹ جانے کی اُمید ان کے لیے حوصلہ افزائی کا موجب۔ ظلم در ظلم پیچیدہ نظام انصاف ہے جس کا رونا ہمیشہ سے حکمران اور عمران خان روتے پھرتے ہیں۔ یہ معاملے کا مگر ایک پہلو ہے۔ دوسرا المناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم تعلیم کے ساتھ تربیت پر توجہ نہیں دی۔ریاستی وسائل کردار سازی کے لیے مختص نہیں کیے سارے قومی وسائل سڑکوں، عمارتوں، موٹرویز، انڈرپاسز، فلائی اوورز پر جھونکے یا بالائی طبقے کو عیش و عشرت کے لیے دستیاب ہیں۔ عوام بالخصوص سمجھ بوجھ رکھنے اور معاشرے پر اثر انداز ہونے والے طبقات نے بھی نہ سوچا کہ تہذیب نفس اور کردار سازی کے بغیر تشکیل پانے والا معاشرہ انسانی نہیں حیوانی کہلاتا ہے جہاں وحشی درندے پرورش پاتے اور جہالت، ذہنی پسماندگی اور بے قابو خواہشات کی بنا پر انسانی عزت، جان اور مال کے لیے خطرہ بنتے ہیں۔ برسوں سے جو ہم نے کاشت کیا وہ کاٹتے ہوئے تکلیف ہورہی ہے مگر یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی لگائی گرہیں ہیں جنہیں دانتوں سے کھولنا فطری ہے۔ درندوں کے معاشرے میں عالیشان عمارتیں، سگنل فری سڑکیں اور جدید سفری سہولتیں خواتین اور بچیوں کی حفاظت کرسکتی ہیں نہ پولیس کی کارگزاری بہتر بنانے میں مددگار۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اول تو مجرم گرفتار نہیں ہوتا، گرفتاری میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا، پولیس افسران بالا اور وزیروں، مشیروں کی پروٹوکول ڈیوٹی میں مصروف اور قبضہ گروپوں، منشیات فروشوں، بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کی خدمت میں مشغول۔ اگر مدعیان اور قانون پسند شہریوں کی بھاگ دوڑ سے کوئی ملزم گرفتار ہو تو چھڑانے والے بااثر افراد کی لائن لگ جاتی ہے اور تھانے میں دال نہ گلے تو کچہری میں سستے، مہنگے داموں انصاف میسر۔ پھر بھی بات نہ بنے تو پیچیدہ عدالتی نظام چند ماہ بعد اس ظالم کو مظلوم بنا کر رہائی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ شاہ رخ جتوئی، عبدالمجید اچکزئی کا کیس سب کے سامنے ہے کہ مدعی تھک ہار کر صلح پر مجبور ہوئے اور مجرم آزاد۔ سزا ہوتی بھی ہے تو اتنی کم کہ آدمی کا دوبارہ وہی جرم کرنے کو جی چاہے۔ قصور کی معصوم زینب کے قاتل کو سزا ملی‘ عبرت ناک سزا مگر یہ زودِ فراموش معاشرہ چند ہفتوںمیں بھول گیا زینب کی شہادت کے بعد کردار سازی‘ تربیت اور معاشرتی نکھار کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ قانونی موشگافیوں کی بنا پر قاتل کو سرعام سزا دینے سے بھی احتراز برتا گیا ‘قانون ہمیشہ قاتلوں کے لئے رحم دل واقع ہوتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے معصوم بچے پپو کے قاتل کو کیمپ جیل کے سامنے پھانسی پر لٹکا کر کئی سال تک ایسے واقعات کی روک تھام کی۔ ننھی زینب کی طرح مظلوم فرشتہ بھی اگلے جہاں میں ہم سب کے آقا و مولا رسول رحمت ﷺ کے حضور پیش ہوئی تو سفاک قاتل کے علاوہ بے حس پولیس اہلکاروں، حکمرانوں اور معاشرے کی شکایت ضرور لگائے گی۔ بایٔ ذنب قتلت۔ (مجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا ؟)حضورﷺ کو بچوں بالخصوص بچیوں سے خصوصی لگائو تھا۔ معصوم بچی کی شکایت سن کر آپؐ پر کیا گزرے گی؟ سوچ کر دل دہلتا، پسینے چھوٹتے ہیں۔ مدینہ منورہ کی طرز پر بنائی گئی ریاست میں گیارہ سالہ بچی سے زیادتی کے علاوہ نااہلی، بے پروائی کے مرتکب ہر شخص کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ رحمت اللعالمینﷺ کو روز قیامت کیا منہ دکھائے گا؟ یہ تو طے ہے کہ جب تک لوگ سڑکوں پر نہ نکلیں‘ لاش لے کر چوراہے پر نہ بیٹھیں‘ سوشل ‘ الیکٹرانک‘ پرنٹ میڈیا پر شور نہ مچے کوئی ایسے دلگداز‘ اندوہناک واقعات کا نوٹس نہیں لیتا، کسی کی غیرت جاگتی ہے نہ جذبہ انسانی ہمدردی جوش میں آتا ہے۔ فرشتہ کے بے آسرا اور بے بس والدین کو مظلوم بیٹی کا پُرسہ بھی اس وقت ملنا شروع ہوا‘ حکمرانوں اور اپوزیشن رہنمائوں نے تعزیت کے لئے آنا جانا شروع کیا جب میڈیا نے انہیں مئی کی گرمی میں بیٹی کی لاش سڑک پر رکھ کر انصاف مانگتے دکھایا۔ اگر یہ خاموشی سے بیٹی کی لاش دفنا دیتے تو کسی نے خبر تک نہ لینی تھی۔ یہ ہے ہمارا ننگ انسانیت سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور قانونی ڈھانچہ جسے برقرار رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگ رہا ہے۔ عوامی احتجاج اور سیاسی بیانات سے مظلوم فرشتہ واپس آ سکتی ہے نہ غمزدہ والدین کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگا۔ قاتل کی عبرت ناک سزا سے بھی اصلاح احوال کی امید نہیں کہ معصوم زینب کے سفاک قاتل کو سزا دے کر ہم نے کیا سبق سیکھا؟ بچیوں کی عصمت دری اور وحشیانہ قتل کے واقعات کتنے کم ہوئے؟ عمران خان اور اُن کے رفقا کو فرصت ملے اور بشریٰ بی بی انہیں تلقین کریں تو تعلیمی اداروں میڈیا اور مساجد و مدارس کے ذریعے خواتین بالخصوص بچیوں کے حقوق اور نوجوان نسل کی ذہنی و روحانی تربیت کے لئے شعور و آگہی کی زور دار مہم چلائی جائے۔ بے راہروی‘ جنسی درندگی کے سدباب کو یقینی بنایا جائے اور ریاست مدینہ کی طرح ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ ایک عفت مآب ‘ خوبرو خاتون اور معصوم بچی رات کے کسی حصے میں بے خوف و خطر تاریک گلی سے گزرے اور کوئی اسے حریص نگاہ سے دیکھنے کی جرأت نہ کر پائے۔ مظلوم فرشتہ کی روح کو قرار اور والدین کو سکون تب ملے گا۔