کسی خوشحال‘ دولت مند‘ کے ساتھ ہونے والا حادثہ‘ سانحہ کہلاتا ہے اور کسی بے کس‘ کم وسیلہ‘ مسکین غریب پر وہی حادثہ گزر جائے تو وہ واقعے کے زمرے میں آتا ہے۔ کشمورمیں چار سالہ بچی علیشا اور اس کی بے کس‘ غریب ماں کے ساتھ جو شیطانی بربریت کی گئی۔ وہ ایک بڑا سانحہ اس لئے نہ بن سکا کہ اس میں ظلم کا شکار ہونے والی ماں اور اس کی ننھی بیٹی سماج کے اس طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جو ویسے ہی غربت‘ افلاس بھوک اور ننگ کی ’’زیادتی‘‘ سہتے سہتے قبروں میں اتر جاتے ہیں۔ موٹر وے پر ہونے والی خاتون زیادتی کیس اور اس کیس میں کیا مختلف ہے۔ صرف اور صرف سماجی طبقے کا فرق ہے۔ ورنہ وحشت اوربربریت میں ’’کشمور واقعہ‘‘ موٹر وے سانحے سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ جس میں زیادتی کا شکار ہونے والی مظلومہ کی چار سالہ بچی کو شیطان صفت درندوں نے کئی روز اپنے پاس یرغمال بنائے رکھا اور اس پر ظلم کے ناقابل بیان پہاڑ توڑے۔اسے بھوکا پیاسا رکھا اور نازک پھول کو اپنی شیطانی ہوس کا نشانہ بنایا۔قلم میں اتنی سکت نہیں اس ظلم کی اس سنگینی کو بیان کر سکے ،کچھ سانحے ایسے دلخراش ہوتے ہیں کہ لفظ ان کے سامنے چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔اے ایس آئی محمد بخش کی غیر معمولی بہادری اور کوشش سے ننھی علیشا کو شیطانوں کے چنگل سے آزاد کروا لیا گیا۔ وہ ایک گندی میلی رلّی کسی ٹوٹے پھوٹے سامان کی طرح ایک کونے پڑی تھی۔ پائوں پائوں چلنے والی‘ عمر‘ ماں کی گود سے دنیا دیکھنے والی عمر میں ننھی علیشاسے اس ظالم دنیا کیا کچھ چھین لیا۔ابھی اس کو اس دلخراش سانحے کی خبر نہیں۔معصومیت کے آخری کنارے پر حیران کھڑی ہوئی علیشا اپنے لہولہان بدن کے زخم دکھاتے ہوئے توتلے لفظوں میں بتاتی ہے کہ ایک انکل تھے……!!‘‘ اس دنیا کے شیطانوں نے معصلوم علیشا کو شرمناک ظلم کا نشانہ بنایا بدترین طریقے روندا اور اب وہ کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا کیا اس کا کوئی علاج ممکن ہے۔ بہرحال ستم گزیدہ ماں اور بیٹی کراچی کے ہسپتال میں موجود ہیں اور چھوٹے بڑے ٹی وی چینلز کے اینکرز‘ اپنا مائیک اور کیمرہ اٹھائے ان کا انٹرویو کرنے پہنچ جاتے ہیں بچی سے سوال کرتے ہیں ماں سے اس ظلم کی داستان بار بار سنتے ہیں اور پھر اسے اپنے اپنے چینل پر چلاتے ہیں کیونکہ یہ ریٹنگ کا زمانہ ہے اور ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے آپ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔میں یہ سب دیکھ کر اس لئے حیران ہوتی ہوں کہ موٹر وے پر زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کی شناخت کو جب چھپایا گیا تھا تو سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر اس کی بڑی تعریف و توصیف ہوتی رہی اور بات بھی صحیح تھی کہ زیادتی کا شکار ہونے والی عورت سے کیوں بلاوجہ سوال و جواب کئے جائیں۔ میڈیا کا کوئی نمائندہ ‘اثرورسوخ رکھنے والا کوئی صحافی‘ کوئی تحقیقاتی صحافت کا شہ سوار۔ مظلوم خاتون اور اس کے بچوں تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ مظلومہ کا اصل نام اور گھر کا اصل پتہ بھی انکوائری رپورٹس میں بوجوہ چھپا کر ’’فیک ‘‘ لکھا گیا۔ ہم بھی بڑے خوش ہوئے ،ریٹنگ کے عارضے میں مبتلا ہمارا میڈیا اب سمجھدار اور بڑا ہو گیا ہے اور اس بار اس خبر کو ڈیل کرنے میں کافی میچورٹی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ورنہ ہماری روایت ہی رہی ہے کہ میڈیا میں غم زدہ ستم گزیدہ لوگوں کو ایک پروڈکٹ کی طرح استعمال کر کے ریٹنگ بڑھائی جاتی ہے۔میڈیا کے حوالے سے ہماری خوش فہمی اس وقت دھری کی دھری رہ جاتی ہے جب کشمور میں زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون اور اس کی زخم زخم روندی ہوئی ننھی بچی کا سوشل میڈیا کے چینلوں سے لے کر ٹی وی چینلوں تک ہر جگہ بار بار انٹرویو‘ سوال و جواب کا سلسلہ ہی ختم نہیں ہوتا۔پھر ہم یقین کیوں نہیں کر لیتے کہ دکھ‘ سانحے اور حادثے بھی طبقاتی ہوتے ہیں۔ ایسی مثالیں جا بجا ہمارے معاشرے میں کیوں پڑی ہیں ۔ تھر کی قحط زدہ غریب آبادی کو دیکھ لیں وہاں شیر خوار بچے مکھیوں اور مچھروں کی طرح مرتے چلے جاتے ہیں۔ کیا کسی اہل اختیار کا دل اس پر کبھی پگھلتا ہے۔؟ ننھی انسانی جانوں کے اس طرح مرتے چلے جانے پر کسی اہل اقتدار نے وجہ جاننے کے لئے کوئی کمیشن قائم کیا؟تھریوں کے قحط اور بھوک کو ختم کرنے کے لئے کوئی خصوصی گرانٹ جاری کی؟یا پھر اپوزیشن پارٹیوں نے جس کو غریب عوام کا غم اور تکلیف ہمیشہ اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد یاد آتا ہے۔ ان اپوزیشن پارٹیوں نے کبھی علاج کے بغیر مرتے تھر کے شیر خوار بچوں کے لئے کوئی جلسہ جلوس کیا کوئی ریلی نکالی۔؟تھریوں کی غربت اور قحط کسی الیکشن مہم کا ایجنڈا کیوں نہیں بن سکا۔؟حیرت انگیر طور پر نہیں۔ کیونکہ تھریوں کا واحد قصور ان کی حد سے بڑھی ہوئی غربت ہے اور خط غربت سے نیچے سانس لیتے ہوئے بظاہر انسان نما مخلوق‘ پالیسی میکروں اور معاشرے کے اہل اختیار و اہل اقتدار کے لئے محض کیڑے مکوڑوں کی حیثیت ہی رکھتی ہے۔ کہنے اور لکھنے میں یہ بات بہت تلخ اور سخت ہے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا یہ تلخ حقیقت سچ نہیں؟ ابھی حال ہی میں پشاور کے ایک مدرسے میں بم دھماکہ ہوا کتنے ہی معصوم حفاظ او ر ننھے قاری اس سانحے میں شہید ہو گئے مدرسوں میں پڑھنے والے بچے عموماً غریب گھرانوں کے ہوتے ہیں۔ جن کے والدین ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تو انہیں قریبی مدرسے میں ڈال دیتے ہیں۔اتنا بڑا سانحہ تھا چہ مگر اس سانحے کی فالو اپ خبریں جس طرح آنی چاہیے تھیں وہ نہیں آئیں۔ مدرسے کے بچوں کا اس طرح سے بم دھماکے میں جاں بحق ہوجانے سے جو عدم تحفظ ہمیں ہونا چاہیے ہم اس سے دوچار نہیں ہوئے کیا اس لئے کہ ہمارے بچے انگریزی سکولوں میں پڑھتے ہیں؟کڑوا سچ یہ ہے کہ اس سانحے کا وہ impactہمارے میڈیا پر اور پاکستانیوں پر اس طرح سے نہیں پڑا جیسے اے پی ایس کے سانحے نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا تھا۔ کیا میں یہ سوال کرنے کی جرأت کر سکتی ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔ کیا غریب بچوں کی جانیں کم قیمتی تھیں۔ یہ سچ بہت تکلیف دہ ہے مگر اس سچ کے وجود سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے اور میڈیا کا ضمیر بھی پیسے والوں کے لئے جاگتا ہے۔غریب‘ مسکین اور پسے ہوئے طبقے کے لئے نہ سوشل میڈیا پر پوسٹیں وائرل ہوتی ہیں نہ ٹوئٹر پر ٹرینڈز بنتے ہیں۔ نہ ریاست کا انصاف حرکت میں آتا ہے نہ کسی اہل اختیار کا دل پگھلتا ہے،!! تو کیا پھر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ سانحے اور حادثے بھی طبقاتی ہوتے ہیں۔؟