غالب کہتا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت، خواب کی سی ہے۔ اس میں، بظاہر، جو جاگنے والے ہیں، وہ بھی خواب ہی میں ہیں! ہے غیب ِغیب، جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں اس سے آگے کا مرحلہ شاید یہ ہے کہ ع جن کی آنکھیں کھْل گئیں، ان کی زبانیں بند ہیں مسلمانوں کی آنکھوں پر بھی، دْہرا پردہ پڑا ہوا ہے! صدیوں سے یہ، حالت ِغفلت میں ہیں۔ اب ایک مدت سے، غفلت پر مرعوبیت کا پردہ، سوا ہو گیا ہے! مرعوبیت کا لازمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اپنی لائق ِفخر تاریخ سے بھی، ہم غافل ہو چکے ہیں۔ اب یا تو اسے بھْلانے کا سبق پڑھایا جاتا ہے یا اس میں اتنا مبالغہ کر دیا جاتا ہے کہ نتیجہ یہاں بھی صفر نکلتا ہے۔ جتنی بْری چیز ماضی پرستی ہے، اس سے زیادہ مْضر ماضی فراموشی ہے! ہزار افسوس کہ ہمیں مورخ بھی خالص نہیں ملتے۔ مثلا، ایک طرف ایسے نامبارک "دانش ور" ہیں، جو علامہ اقبال کو، فلسفی تو کجا، شاعر بھی تسلیم نہیں کرتے۔ حالانکہ، اقبال دنیا کے شاید پہلے شاعر ہیں، جنہیں دو بڑی زبانوں میں، صف ِاول میں جگہ دی گئی ہے! دوسری طرف، ایسے "محقق" ہیں، جو پینسٹھ کی جنگ میں ہماری بہادر افواج سے زیادہ، " آسمانی سبز پوشوں کی مدد" کو ابھارتے ہیں! تماشا یہ ہے کہ بھارت کی آکاش وانی بھی، ایسے ہی راگ الاپ رہی تھی۔ پینسٹھ کی جنگ میں، آکاش وانی ریڈیو، منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا لاہور کو فتح کر رہا تھا اور اہل ِلاہور، اپنے گھروں کی چھتوں سے ہنس ہنس کر گا رہے تھے کہ ع جھوٹ بولنی ایں جھوٹیے اکاش وانیے سید ضمیر جعفری نے غالبا آکاش وانی ہی کو مخاطب کرتے ہوے کہا تھا کہ اوچھی چھچھوری، چکنی گھڑولی جھوٹی کٹوری، پھر جھوٹ بولی ادبار کی بہت بڑی وجہ، تاریخ سے عدم ِواقفیت ہے۔ جو تاریخ دستیاب ہے، وہ زیادہ تر اسی افراط و تفریط پر مبنی ہے! یہی رویہ، "یہود و ہنود کی سازشوں" کے باب میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ ایک کے نزدیک، ایسی کوئی سازش، وجود ہی نہیں رکھتی۔ اور دوسرا، اس کے ذکر کے بغیر، روٹی نہیں توڑتا۔ حقیقت یہاں بھی بین بین ہے۔ موجود زمانے میں، سازش کرنا، ہر قوم کا بین الاقوامی حق ہے! اس سے دست برداری، دنیا سے ہاتھ کھینچ لینے کے برابر ہے! مثلا، اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہود سے سب سے زیادہ نفرت، عیسائی کرتے آئے ہیں اور اگر مسلمانوں کا دم قدم نہ ہوتا، تو یہود کو کہیں جائے امان نہ ملتی۔ لیکن ہوا کا رْخ پہچان کر، اس قوم نے عیسائیوں کو اس طرح گانٹھا ہے کہ ان کی ساری توپوں کا رخ، مسلمانوں کی طرف ہو گیا ہے! فلسطین کا مسئلہ، اس کی واضح اور بڑی مثال ہے۔ اپنی بقا کے لیے، ہاتھ پائوں مارنا ایک چیز ہے، مگر حفظ ِماتقدم کے طور پر، دوسرے کے ہاتھ پائوں توڑ کے رکھ دینا، بالکل اَور چیز! اسی طرح اسلام اور ہندو مت، ہر اعتبار سے، ایک دوسرے کی ضد ہیں! اسلام پیدا ہی ہوا ہے ہر طرح کے بْتوں کو توڑنے اور مٹانے کے لیے۔ دوسری طرف، ہندوئوں سے بڑھ کر بْت پرست، کوئی نہ ہوا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ہیرو، اکثر ہندوئوں کے یہاں وِلن ہیں۔ محمود غزنوی سے لے کر اورنگزیب عالم گیر تک، اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ ہنود کے لیے اکبر، صرف اس لیے قابل ِقبول ہے کہ وہ ع قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترک اسلام کیا پر پوری طرح کاربند ہوا۔ جی ہاں! وہی اکبر، جس کے بارے میں اس کا ہم عصر شاعر کہتا ہے شاہ ِما، امسال، دعویٰ نبوت کردہ است گر خدا خواہد، پس از سالی، خدا خواہد شدن تاریخ کے صحیح علم کے بغیر، اس سوال کا جواب ملنا محال ہے کہ ہماری راہ کھوٹی کہاں ہوئی؟ بحیثیت ِمسلمان بھی اور بحیثیت ِپاکستانی بھی! کم از کم پانچ سو سال ایک دنیا کو، علم و فضل کا لازمی راستہ، مسلمانوں کے پاس لاتا رہا۔ پورا یورپ، جہالت اور پستی کا عبرت ناک مرقع تھا۔ علم و دانش کے مرکز، بغداد اور بخارا تھے! مسلمانوں کی علمیت اور فضیلت کی، ہر طرف دھوم تھی۔ تعصب سے بَری ہو تو جدید دنیا یہ احسان کبھی اتار نہیں سکتی! احسان تو کیا اترتا، حقیقت یہ ہے کہ سابق کی اسی عظمت و شوکت کی قیمت، بر ِصغیر کے مسلمان ابھی تک ادا کر رہے ہیں! انگریزوں کو ہنود سے نہ کوئی دشمنی تھی اور نہ کوئی لاگ، جو کچھ تھا مسلمانوں سے تھا۔ گاندھی سے کیوں ہو وحشت، باطن کی مسٹری ہے شوکت سے کیوں نہ بھڑکیں، ان کی تو ہسٹری ہے اسی "ہسٹری" کو ہنود بھی، کبھی نہیں بھْولے! تاریخ نویسی میں جتنی زیادہ ضرورت غیر جابنداری کی ہوتی ہے، اتنی ہی یہ کم نظر آتی ہے! عیسائیوں میں البتہ اس کی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن یہود و ہنود کا تعصب سے خالی ہونا، محال نظر آتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے، ہمیں تاریخ کا قبلہ سیدھا کرنا ہو گا۔ ورنہ اندھے کی طرح، اندھیرے میںٹامک ٹوئیاں مارتے ہی رہیں گے۔ درست کہا گیا ہے کہ قوم کی تاریخ سے، جو بے خبر ہو جائے گا رفتہ رفتہ، آدمیت کھو کے خَر ہو جائے گا