جب سے سرحدوں کے حالات کشیدہ ہوئے ہیں، ہمارے اندر کی ایک اور جنگ بھی جاگ اٹھی ہے۔ یہ بہت پرانی جنگ ہے۔ اس سے ہمیں اپنے اندر کے تضادات کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ یہ جو سرحدوں پر موم بتیاں جلانے والے ہیں، اس بات پر خوش ہیں کہ پاکستان امن کی بات کر رہا ہے بلکہ زیادہ وضاحت سے کہوں تو ان کی خوشی امن سے نہیں، بھارت کے ساتھ امن سے ہے اور زیادہ کھل کر کہوں تو بھارت سے دوستی سے ہے۔ مجھے سونیا گاندھی کا ایک فقرہ رہ رہ کر یاد آ رہا ہے کہ ہمیں اب پاکستان سے جنگ کرنے کی ضرورت نہیں، ہم کلچر کے محاذ پر پاکستان کو اس کے گھر جا کر شکست دے سکتے ہیں۔ انہیں اپنے بالی وڈ پر فخر ہے، کل ایک چینل پر آف دی ریکارڈ میں نے جو گفتگو سنی ہے، وہ اس بات کے گرد تھی کہ آیا ہم اب بھارت کی فلمیں آسانی سے نہیں دیکھ سکیں گے۔ بھارت کو اور کچھ نہیں سوجھتا تو وہ ہمارے ان فنکاروں پر پابندی لگا دیتا ہے جو بھارت جا کر نام اور دام کمانا چاہتے ہیں۔ ہم اس پر تڑپنے لگتے ہیں۔ ہمیں بھی اس کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ ہمارے ہاں محبت کے رشتے ہی رشتے ہیں جسے ہم فن کا رشتہ قرار دیتے ہیں۔ کیا میں ان رشتوں کے احترام میں اس ظلم کو بھول جائوں جو کشمیریوں پر روا رکھا جا رہا ہے یا اس سلوک کو نظر انداز کردوں جو بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں پر ڈھایا جارہا ہے یا بھارت کے ان جنگ جوہانہ ارادوں کو پس پشت ڈال دوں جو وہ ہمارے خلاف رکھتا ہے۔ یہ تو خیر ایک بالکل ایسی بات ہے جو ممکن ہی نہیں مگر اس وقت میرا سوال صرف فنکارانہ محاذ پر ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں نے حلقہ ارباب ذوق میں یہ نعرہ لگایا تھا کہ تم دلی کے لال قلعے پر جھنڈا لگانے کی پھبتی کستے ہو۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ ایسا ممکن ہے یا نہیں مگر اتنا عرض کرتا ہوں تم سرحد کھولو، ثقافت کے محاذ پر میرا پہلا پڑائو دلی ہی میں ہوگا۔ ان دنوں امرتسر کا ٹی وی چینل نیا نیا کھلا تھا۔ بھارت نے وہاں مغل اعظم لگادی۔ شور مچ گیا جب یہ فلم چلتی ہے، لاہور کی گلیاں سونی ہو جاتی ہیں۔ چند روز میں لاہور ٹی وی سے ’’وارث‘‘ کا ڈرامائی سلسلہ شروع ہوا تو امرتسر کی گلیاں سونی ہو گئیں۔ ہم نے چند ہزار روپے سے تیار کئے جانے والے ڈراموں سے بھارتی فلموں کا ناطقہ بند کردیاتھا۔ دوبئی کی مارکیٹ میں ہمارے ٹی وی ڈراموں کی ایسی ڈیمانڈ تھی کہ بھارتی فلمیں پیچھے رہ گئی تھیں۔ پیسہ صلاحیت کا مقابلہ نہ کر پا رہا تھا۔ ثقافتی محاذ پر ہم ڈٹے ہوئے تھے۔ ادب کی بڑی تحریکیں اور بحثیں یہیں سے اٹھتی تھیں۔ ہمارے فنکار برصغیر میں چھائے ہوئے تھے۔ پھر کیا ہوا۔ بالی وڈ نے یلغار کردی۔ ہمارے فنکار بھی خرید لیے۔ ہم جو ڈراموں کی معراج پر تھے، اب بھارتی سوپ اوپیرا کی نقل کرنے لگے۔ مخصوص موضوع، مخصوص انداز، ہمارا ڈرامہ اسی نقالی میں مارا گیا۔ خیال تھا کہ میڈیا آزاد ہونے کے بعد اعلیٰ ترین تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے گا، ہوا یہ کہ ہم نقالی میں لگ گئے۔ فارمولا ڈرامے بننے لگے۔ ٹیکنالوجی اور دولت کے زور پر تخلیقی صلاحیتوں کو زیر کیا جانے لگا۔ ہر چیز کا معیار بدل گیا۔ ہم نے شروع شروع میں احتجاج کیا کہ ہماری زبان خراب ہورہی ہے۔ یہ ہم میں کیسی روایات سرایت کر رہی ہیں۔ ہم کدھر جا رہے ہیں مگر ہم اس وقت بھی یہ نہ سمجھ سکے کہ ہم میں جوہری تبدیلی پیدا ہورہی ہے۔ ہماری تخلیقی صلاحیتیں ختم ہورہی ہیں۔ یہ جو فلمی کلچر ہے، اس نے تخلیقی ثقافت کی جگہ لینا شروع کردی۔ اب موسیقی کا مطلب سلامت علی، روشن آراء بیگم، امانت علی، نورجہاں، غلام علی، مہدی حسن نہ رہا بلکہ ایک ایسے بینڈ باجے والے پاپ کلچر نے جنم لینا شروع کیا جس نے موسیقی کو بھی گویا ’’شوبز‘‘ بنا دیا ہے۔ یاد رکھئے دنیا میں فنون لطیفہ کو ہمیشہ پرفارمنگ آرٹ پر ترجیح دی جاتی ہے۔ شیکسپیئر صرف ایک پیدا ہوا ہے، اس کے ڈراموں کے مختلف کردار ادا کرنے والے سینکڑوں، ہزاروں لوگ ہوں گے۔ ہمارا یہ حال ہو گیا ہے کہ ہم نے تو فنون لطیفہ کو بھی پرفارمنگ آرٹ بنا رکھا ہے۔ ادب کے نام پر میلے یا فیسٹیول سجاتے ہیں۔ ان میں شمولیت کے لیے جو لوگ بلائے جاتے ہیں اور جنہیں شاعر بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہ پرفارمر ہیں۔ محاذ کے بھانجے، جان نثار اختر کے بیٹے کے گرد آپ ایک روحانی سا ہیولا تو بن سکتے ہیں۔ کیفی اعظمی کی دامادی سے اس میں مزید رنگ بھر سکتے ہیں مگر کیا ادب میں یہ اب ہمارے ہیرو ہوں گے۔ کبھی آپ نے سنا کہ دو دو آدمی مل کر شعر کہتے ہوں۔ ایسا صرف شوبز میں ہو سکتا ہے کہ جاوید سلیم یا سلیم جاوید کی جوڑی چلتی رہے۔ لاحول ولاقوۃ۔ اب یہ لوگ ہمارے ان میلوں کے مہمان ہوتے ہیں۔ ساتھ ان کی اداکارہ اہلیہ۔ اب ہمارے ادب کا معیار یہ ہو جائے گا تو پھر ہم میلے ٹھیلے ہی سجائیں گے نا۔ مجھے تو دکھ یہ ہے کہ ہم اپنے ادب اور فنون لطیفہ کو اتنا گرا رہے ہیں کہ ایسے لوگوں کو اپنا Icon بتاتے ہیں۔ مجھے تو فیض ہضم نہیں ہوتا، آپ بالی وڈ سے یہ کن کولے آئے ہیں۔ جب بھارت کے اثر سے ہمارے ہاں ایک بار دوبارہ مشاعرے کی روایت زندہ ہونے لگی تو بہت احتجاج ہوا کہ اس رجعت پسندی کو ختم ہونا چاہیے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایسا نہ کہو، ان نام نہاد شاعروں کی وجہ سے تو بھارت میں اردو زندہ ہے۔ یہی بھارت کی فلموں کے حوالے سے کہا گیا۔ ہم چپ رہے کہ شاید ٹھیک ہی کہتے ہوں۔ اردو کیا زندہ ہوئی، الٹا اس نے ہماری زبان بھی خراب کرنا شروع کردی۔ ہماری موسیقی، ہمارا ادب، ہماری شاعری اور افسانہ ایک خاص مقام پر پہنچ چکے تھے۔ بالی وڈ کی یلغار نے اسے کیسے پٹخا دیا ہے۔ ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں۔ صلح جوئی کے نام پر ہمیں کیا لالی پاپ دیا جاتا رہا۔ اب کوئی شخص بھارت سے سند لے کر آتا ہے تو ہم اسے آرٹسٹ بھی مان لیتے ہیں، فنکار بھی اور امن کا پیام بر بھی۔ شاید اس لیے کل ایک ٹی وی چینل پر میں بہت چیخا۔ یہ نہیں کہ میں اس کا قائل نہیں کہ ادب اور فن کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں بلکہ اس لیے کہ سرحد پار سے جو کچھ آ رہا ہے یہ نہ ادب ہے نہ فن نہ کلچر۔ یہ سب کا چربہ ہے، ایک مضحکہ خیز سا سطحی ملغوبہ۔ اس نے ہماری تخلیقی صلاحیتیں مار رکھی ہیں۔ صرف ایک چکا چوند کردینے والی روشنی ہماری آنکھیں چندھیا رہی ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر ہمارے ہاں ادب مر رہا ہے، ثقافت رخصت ہورہی ہے۔ فنون لطیفہ لاوارث ہو گئے ہیں۔ ایک زمانے میں میں نے عرض کیا تھا کہ ہم نے مشاعروں کے لیے بھارت سے شاعر مانگے۔ انہوں نے شاعرات کے نام پر گانے والیاں، مزاحیہ شاعری کے نام پر مسخرے اور عمومی طور پر سٹیج کے اداکار بھیج دیئے۔ کہاں ہم یہ بحث کر رہے تھے کہ شاعری ایسی چیز نہیں کہ سنتے ہی سمجھ آ جائے، بلکہ یہ دھیرے دھیرے دل میں اترتی ہے کہاں یہ حال ہو گیا کہ ہم ان لوگوں کو سن کر تالیاں نجانے لگے۔ خدا کے لیے اپنی ثقافت پر اس وار کو سمجھئے۔ اس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوسکتا جیسے کشمیر پر کوئی سودا نہیں ہوسکتا۔ ہم نے واہگے کی سرحد پر جا کر بڑی موم بتیاں جلائیں۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ یہ سب پاپڑ بیلنے والوں کے ڈانڈے کہاں سے جا ملتے ہیں۔ سامراجیوں نے ہمارے اندر دور تک نقب لگا رکھی ہے۔ بھارت سے تو ہم امن کرلیں گے مگر ثقافت کے ان گماختہ کار پردازوں کو پرزے نہیں نکالنے دیں گے۔ یہ نہ صرف ہماری تہذیب و ثقافت کے دشمن ہیں بلکہ ہمارے اندر کے تخلیقی جوہر کی موت بھی ہیں۔ ہمیں اگر ترقی کرنا ہے تو بھی اپنے اندر کی اس تخلیقی صلاحیت کو زندہ رکھنا ہے۔ امریکہ ہو یا جاپان، چین ہو یا سنگاپور وہ گاہے گاہے اس بات کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی نوجوان نسل میں تخلیق و ایجاد و اختراع کا جذبہ کم تو نہیں ہورہا، ادھر ہم ہیں کہ ہمیں اس کی پروا ہی نہیں ہے۔ بھارت سے صلح تو ہو جائے گی، مطلب یہ جنگ کا خطرہ ٹل جائے گا مگر دیکھنا اس صلح اور پیام امن کا مطلب یہ نہ لے لینا کہ ہم نے بالی وڈ کے ہاتھوں اپنی پٹائی کرانی ہے۔ ہمیں ایک زندہ قوم کی طرح جینا ہے۔ یہ جو عمران خان کی تقریر سن کر اور اپوزیشن کی واہ واہ کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت میں سب اچھا ہے تو یہ اسے بھول جائیں۔ بھارت میں سب اچھا نہیں، اچھا ہوتا تو یہ ملک کیوں بنتا۔