’’تمہاری نہ ختم ہونے والی بغاوت کے پیش نظر اب میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ میں طاقت کا استعمال کروں۔ یہ تمہاری شوریدہ سری کو میری آخری وارننگ ہے۔ اب غیر مشروط اطاعت ہی تمہیں میرے عتاب سے بچا سکتی ہے۔ ریاست کی سلامتی ہر قیمت پر یقینی بنائی جائے گی‘‘ یہ اکبر اعظم کی وارننگ تھی۔ اپنے حقیقی فرزند کے نام! شہزادہ سلیم نے الہ آباد کو مستقر بنا کربغاوت کر دی تھی۔ اپنے نام کا سکہ جاری کرایا اپنے زعم میں تخت پر بیٹھا اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا۔ پھرستم یہ کیا کہ اکبر کے دست راست‘ نابغۂ وقت‘ منبعِ علوم و فنون‘ مورخ اور سپہ سالار ابوالفضل ابن شیخ مبارک کو قتل کرا دیا۔ سلیم معافی مانگنے آیا تو بادشاہ اسے محل کے حصہ ٔ خواتین میں لے گیا۔ باپ بیٹے نے عشائیہ اکٹھے کیا۔ پھر شہنشاہ اسے اپنی خواب گاہِ خاص میں لے گیا کہ کوئی بات کرنی ہے۔ مگر اسے اندر داخل کر کے خود باہر نکل آیا اور دروازے کو زنجیر کے ساتھ مقفل کر دیا۔ شہزادہ سلیم‘ جسے بعد میں بخت نے جہانگیر بنانا تھا۔ قید تنہائی میں دیواروں سے سر ٹکراتا رہا۔ کھانے کو ہاتھ لگایا نہ پانی کو۔ یہاں تک کہ موت کا سایہ اس کے سر پر منڈلانے لگا۔ شہنشاہ کے اندر چھپا ہوا باپ جاگا۔ قید تنہائی سے نکالا اور قلعے کے سامنے واقع چہار باغ میں نظر بند کر دیا۔ ریاست کی سلامتی! جی ہاں! ریاست کی سلامتی! حکومت کا اولین فریضہ یہی ہے! اس سلامتی کی حفاظت! اس حفاظتی کی بقا!حکومت خواہ مغل بادشاہ کی ہو ! یا کُرد‘ترکی میں علیحدگی کی دھمکی دیں یا پی ٹی ایم جیساکوئی گروہ ریاست کی گاڑی کے بونٹ پر یا باڈی پر ڈینٹ ڈالنے کی کوشش کرے۔ ریاست پاکستان کی سلامتی کے لئے کیا پختونوں نے کسی اور سے کم خون بہایا ہے؟کرنل شیر خان ایک نہیں! سینکڑوں ہیں جنہوں نے مادر وطن کے دودھ کا قرض خون سے ادا کیا۔ کیا ہنگو کے اُس بچے اعتزازحسن بنگش سے بڑا محب وطن بھی کوئی ہے جس نے جان قربان کر کے اپنے دو ہزار ساتھیوں کی زندگی بچائیں۔ سولہ برس کا اعتزاز حسن ! جس نے اپنے سارے خوابوں کو وطن کی مٹی پر قربان کر دیا۔ برسوں پہلے کی وہ دعوت نہیں بھولتی۔ میلبورن میں مقیم ایک پاکستانی نے اس فقیر کے لئے برپا کی۔ ایک پٹھان بزرگ بھی مدعو تھے جو اپنے بیٹے اور بیٹے کے کنبے سے ملنے چند دنوں کے لئے آئے ہوئے تھے۔ کھانے کے بعد گپ شپ کے دوران ایک صاحب نے کوئی ایسی بات کر دی جس سے پاکستان پر حرف آ رہا تھا۔ پٹھان بزرگ کا چہرہ فرطِ جذبات سے سرخ ہو گیا۔ دلائل ایسے دیے کہ معترض کے ہوش اڑ گئے! پاکستانی فوج کی ساخت کیا ہے؟ میرے منہ میں خاک‘ بزعمِ خود اسے لِٹانے والوں نے کبھی اس کی کمپوزیشن پر غور کیا ہے؟ جس طرح خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ِ ہاشمی ‘ اس طرح پاکستانی افواج بھی اپنی ترکیب میں خاص ہیں۔ پختون اس فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں! سب سے پہلا پاکستانی سپہ سا لار پختون تھا اور اس کے بعد بھی کئی‘ پنجاب کے چند اضلاع ہیں جو مارشل ایریا کہلاتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ تو سارے کا سارا مارشل ایریا ہے۔ یہ حقیقت عوام تو کیا‘ خواص کی اکثریت کو بھی نہیں معلوم ‘فوج کے مراکز(سنٹرز) کی بھاری تعداد خیبر پختون خواہ میں واقع ہے۔ ہر حصے کا ایک سنٹر ہوتا ہے۔ جیسے پنجاب رجمنٹ‘ یا میڈیکل کور یا سگنل کور۔ ایبٹ آباد میں تین سنٹر ہیں۔ رسالپور میں ہے مردان میں ہے۔ نوشہرہ میں ہے۔ کوہاٹ میں ہے۔ انہی سنٹرز سے فوج کو نیشن ملتی ہے اور انتظامی معاملات کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ لاکھوں افراد کو ملازمتیں‘ اس حوالے سے ملتی ہیں جن میں مقامی ہونا اپنا رول ادا کرتا ہے۔ پنجاب میں بڑے سنٹر صرف دو ہیں ان میں سے بھی ایک‘ جو مانسر میں ہے۔پنجاب کے اس ٹکڑے میں ہے جہاں پختونوں کی اکثریت ہے۔ حسن ابدال سے مغرب کی سمت آ گے جائیں تو دریائے سندھ تک۔ دائیں طرف کا سارا علاقہ چھچھ کہلاتا ہے جہاں کے باشندے چھاچھی ہیں۔ نصف سے زیادہ پختون ہیں ان میں درانی ہیں۔ تنولی اور علی زئی بھی اور دیگر قبائل سے بھی! یہ محمود غزنوی کے ساتھ آئے تھے۔ ان کی بڑی بڑی آبادیاں بیرون ملک بھی ہیں۔ اس کالم نگار کی ملاقات کارڈف(ویلز) میں چھاچھیوں کے ایک بڑے گروہ سے ہوئی جوبحری جہازوں میں وہاں پہنچے تھے۔ معروف عالم دین مولانا غلام اللہ خان چھچھ ہی سے تھے اور پشتو بولنے والے خاندان سے تھے۔ یہیں ایک بستی غور غشتی ہے جہاں بڑے بڑے جیّد علمائے کرام پیدا ہوئے۔ پختون قومیت کے نام پر منفی جذبات بھڑکانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ جتنے پختون خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں آباد ہیں‘ اس سے زیادہ تعداد میں پاکستان کے دیگر صوبوں میں ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پنجاب میں پختونوں کی تعداد نوّے لاکھ سے کم نہیں۔ سندھ میں ان کی آبادی اس سے زیادہ ہو گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومیت اور زبان کی بنیاد پر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے والوں کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔ یہ رجحان ذہن کو تنگ کرتا ہے۔ قوت برداشت اس سے ختم ہوتی ہے۔ قومیت کے کنوئویں میں لوگ مینڈک بن کر ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ قومیت نسل اور زبان ایسی حقیقتیں ہیں جن کے وجود سے انکار ممکن ہے نہ مطلوب! مگر یہ تعصب اور تنگ نظری کے اوزار بن جائیں تو گھاٹے کا سودا ہے۔ ایک انگریزی معاصر نے کل کے اداریے میں جو سینہ کوبی کی ہے۔ وہ اس کی اُس روایت کے عین مطابق ہے جو وطن سے سردمہری پر مشتمل ہے! پیشانی پر بانی پاکستان کا حوالہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ دُور کی نظر درست ہے۔ معاملے کے دونوں پہلو سامنے رکھنے چاہئیں بجا کہ کسی کو غدار نہیں کہنا چاہیے مگر اس پر غور کرنا بھی لازم ہے کہ غدار کہنے کی نوبت کیوں آئی؟ معاملے کے دوسرے پہلو سے غفلت‘ کسی کو بھی نہیں برتنی چاہیے۔ اب جب کہ پریس کانفرنس میں یہ الزام لگائے جا چکے ہیں کہ فنڈنگ را سے اور افغانستان سے ہو رہی ہے اور افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں سے کچھ افراد کے روابط ہیں تو ان تمام الزامات کے ثبوت بھی قوم سے شیئر کرنے ہوں گے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بجائے یہ حقائق قوم کے سامنے حکومت لاتی؟ یہ مسئلہ وزیر داخلہ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ جن معاملات پر ملک کے اندر ایک سے زیادہ آرا ہوں‘ اس سے افواج پاکستان کو دامن بچا کر گزرنا چاہیے۔ یہی معاملہ مدارس کا ہے۔ یہ محاورہ عام ہے کہ یہ نہ دیکھو بات کون کر رہا ہے۔ یہ دیکھو کہ بات کیا کی جا رہی ہے۔ مگر یہ بھی کم اہم نہیں کہ بات کون کر رہا ہے۔ مدارس والے نکات وزیر تعلیم کے منہ سے سنے جاتے تو وزن زیادہ ہوتا! ایسا کام آخر کیوں کیا جائے جس سے مخالفین کو طعنہ زنی کا موقع ملے۔ فرض کیجیے نقصان نہ ہو‘ مگر فائدہ بھی نہ ہو‘ تب بھی احتراز لازم ہے۔ عقل مند لوگ ایسا کام نہیں کرتے۔ پاکستان کی تاریخ میں کئی موڑ آئے اور گزرے۔ پختونستان کا شوشہ چھوڑا گیا۔ جناح پور کی کہانی گھڑی گئی۔ سب کچھ گزر گیا۔ مصنوعی تارے چمکے اور گر پڑے۔ جعلی بادل کتنے برستے؟ ریاست سلامت ہے اور رہے گی!ریاست کے دشمن کامیاب نہیں ہوں گے۔ ضرورت توازن کی ہے اور ہوش کی!!