میانمار میں لگے مارشل لا نے ذہن میں اس سوال کو پھر سے تازہ کردیا کہ آمریت کے نفاذ میں سیاستدان کتنے ملوث ہوتے ہیں؟ ان سیاستدانوں کی لسٹ تو بہت لمبی ہے جو خود منتخب نہیں ہو سکتے،اس لیے حکومت کا حصہ بننے کیلئے انہیں کسی نہ کسی غیرجمہوری سرکار میں شمولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ نہیں۔ ان سیاستدانوں کے بارے میں ہم بات نہیں کرتے۔ ہم ان سیاستدانوں کے سلسلے میں ایک بحث شروع کر رہے ہیں ،جو منتخب حکومت کے خلاف فوجیوں کو اقتدار میں آنے کی کھلم کھلا یا ڈھکی چھپی اپیل کرتے ہیں۔ ہم وہ قوم نہیں جس قوم کے ایک مفکر نے لکھا تھا کہ ’’میں تیرے اس حق کے لیے ہمیشہ جدوجہد کروں کا کہ تم مجھ سے اظہار اختلاف کر سکو‘‘ تیسری دنیا کے سیاستدان جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں مگر وہ اپنے ذہن اور ضمیر میں کتنے جمہوری ہیں؟ اس سوال پر فوکس کیا جائے تو ہمیں جمہوریت پسندوں میں آمریت پسند نظر آئیں گے۔ کوئی رہنما اپنی پارٹی میں کتنی جمہوریت کو داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے؟ اس سوال پر پاکستان کی اکثر پارٹیوں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ ہم ملک میں جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہیں اور پارٹی میں جمہوریت کی بات کرنے والوں کو لات مار کر نکال دیتے ہیں۔ ہم جمہوریت کے چیمپئن کہلاتے ہیں مگر ہمارا چال چلن آمروں جیسا ہے۔ہمارے لیے جمہوری اور غیر جمہوری نظام کو پرکھنے کی کسوٹی اقتدار ہے۔ جب ہم اقتدار میں ہوتے ہیں، تب ہمیں آمریت بھی جمہوریت کی طرح محسوس ہوتی ہے اور جب ہم اقتدار میں نہیں ہوتے تب ہمارے لیے جمہوریت آمریت سے بدتر ہوا کرتی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے اکثر سیاستدان ’’توجہ کے طالب‘‘ ہیں۔ وہ سیاستدان جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ عسکری قیادت کی ان پر توجہ نہیں ہے تو پھر وہ احتجاج کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اب وہ عسکری قیادت کے خلاف تو احتجاج نہیں کرسکتے۔ وہ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ’’ہم کو وہاں سے کال کیوں نہیں آتی جہاں کا نمبر اسکرین پر نمودار نہیں ہوتا‘‘ اس لیے وہ حکومت وقت کے خلاف احتجاج شروع کرتے ہیں۔ وہ سکون کے ساتھ سیاست کرنے کے حق میں نہیں ہوتے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ اگر ان کا کوئی مخالف اقتدار میں آیا ہے تو اسے حکومت کرنے کا حق ملنا چاہئیے۔ انکی سب سے اول کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ خود اقتدار میں آئیں اور اگر وہ اقتدار میں نہیں آ سکتے تو پھر فوج اقتدار میں آئے ۔ فوج جب بھی اقتدار میں آتی ہے تب یتیم سیاستدانوں کے بھی وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ سندھ میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ایک پیپلز پارٹی جو وفاق میں حزب اختلاف کا حصہ ہے اور سندھ میں گذشتہ ساڑھے بارہ برس سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے اور دوسری وہ ایم کیو ایم ہے جو وفاقی سطح پر حکومت کا حصہ ہے اور سندھ میں انہیں ظاہری طور پر حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے علاوہ سندھ میں چھوٹے چھوٹے ایشوز پر سیاست کرنے والی وہ چھوٹی چھوٹی قومپرست جماعتیں ہیںجو اس وقت آپس میں اس لیے متحد ہو رہی ہیں کہ مقامی سطح پر پیپلز پارٹی کے جیالوں سے مقابلہ کر سکیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ان قومپرست جماعتوں کا نظریاتی مخالف تو وفاق ہے مگر وہ سندھ میں پیپلز پارٹی سے نبرد آزما ہونے کے لیے آپس میں اتحاد کر رہے ہیں اور ان کی نظر بھی پنڈی اور اسلام آباد پر ہے۔اگر پی ڈی ایم نے اپنے ساتھ پٹھان اور بلوچ قومپرستوں کو بٹھایا ہے تو وہ بھی عمران خان کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ جب بنی گالا سے کوئی پیغام نہیں آتا تو وہ خفا ہوجاتے ہیں۔ جی ڈی اے وفاقی حکومت میں شیئرہولڈر تو ہے مگر اس کوسندھ میں اقتدار چاہیے۔ جی ڈی اے کا خواب تھا کہ عمران خان اقتدار میں آتے ہی سندھ میں گورنر راج نافذ کریں گے ۔ مگر ان کا یہ خواب اب تک پورا نہیں ہوا۔ ان کو یہ احساس بھی ہے کہ ان کی سیاسی قوت اتنی نہیں کہ وفاقی حکومت ان کے لیے کوئی رسک لے سکے۔ اس لیے سندھ میں دبے پاؤں ایک نئی قوت پیدا ہو رہی ہے۔ وہ سب قومپرست اب ایک پرچم کے سائے تلے جمع ہونا شروع ہوئے ہیں جن کے آپس میں بہت بڑے نظریاتی اختلافات رہے ہیں۔ کبھی چھوٹی جماعتوں کے آپسی اختلافات پر بھی بات ہوگی؟ مگر اس وقت ہم چھوٹی جماعتوں کے اتفاقات کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ وہ چھوٹی جماعتیں جن کے پاس ووٹ نہیں مگر ان کے پاس اسٹریٹ پاور ضرور ہے۔ پاکستان کی سیاست میں اس وقت سب سے بڑی کمی اس پاور کی ہے جو جلوس نکال سکے۔ جو مارچ کر سکے۔ جو دھرنا دے سکے۔ بڑی بڑی پارٹیوں کے پاس برادریوں کی معرفت اور نوٹوں کی وجہ سے ووٹ تو بہت آتے ہیں مگر ان کے پاس وہ کارکنان نہیں جو احتجاج کو کامیاب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ متحدہ کے پاس کراچی میں وہ احتجاجی کارکنان کی قوت تھی مگر اب ان کا حال بھی اس ضمن میں زوال کا شکار ہے۔ سندھ کے قومپرست اب تک اس قوت کے مالک ہیں کہ وہ احتجاج کے دوران سڑکوں پر کارکنان لا سکتے ہیں۔ اس طرح قومپرست پیپلز پارٹی کے لیے سندھ میں پریشر گروپ بن سکتے ہیں۔ وہ اپنی اہمیت منوانے کے لیے آپس میں متحد ہو رہے ہیں۔ یہ بہت عجیب بات کہ جب پیپلز پارٹی سندھ میں جیت کر اقتدار میں آتی ہے تو سندھ کے قومپرست ان کی طرف امید بھری آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر وہ سادہ دل بندے نہیں جانتے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں سندھی قومپرستوں کی مخالفت کرکے تو خود کو وطن پرست ثابت کرتی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی قومپرستوں کے ساتھ تب رابطہ کرتی ہے جب ان کے اقتدار کو خطرہ ہوتا ہے۔ جب ان کے اقتدار کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوتا تب وہ قومپرستوں کی مخالفت کرکے خود کو سچا وفاق پرست بنا کر پیش کرتے ہیں۔ قومپرست بھی اقتداری طاقت کی توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی ان پر عنایت کی نظر نہیں کرے گی تو کیا وہ وفاقی حکومت کو اپنی سیاسی خدمات پیش نہیں کریں گے؟ سندھ سیاسی طور پرانتہائی پیچیدہ صورتحال سے گذر رہا ہے۔ اس صورتحال میں وہ لوگ پریشان ہیں جو حکومت کی تبدیلی کے باعث کچھ وقت کا سیاسی سکون اور اقتداری عیاشی حاصل کر لیتے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف وڈیروں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اب وہ انتظار کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ سندھ میں اگر قومپرست جماعتیں پیپلز پارٹی کی مخالفت میں متحد ہو رہی ہیں تو اس میں صرف جی ڈی اے کا آشیرواد نہیں بلکہ بڑے عرصے تک اقتدار سے محروم رہنے والے وہ افراد بھی شامل ہیں جو روز بروز اپنے کم ہوتے ہوئے حامیوں کا حوصلہ بڑھاتے بیزار ہوچکے ہیں۔ وہ سب سیاستدان ہیں اور اقتداری توجہ کے طالب ہیں۔ بات صرف سندھ کے قومپرستوں کی نہیں ہے۔ بات صرف ان لبرلز کی نہیں جو این جی او اسٹائل میں سیاست کرتے ہیں۔ اصل بات اس اقتداری توجہ کی ہے جس کے بغیر اصول اور آدرش بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔ سیاست آخر سیاست ہے۔ سیاست وہ عشق نہیں جس کے بارے میں فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا ہے: ’’گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگالو ڈر کیسا گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں‘‘