سابق وزیر اعظم جناب عمران خان نے جب سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تو وہ نہایت شرمیلے قسم کے لیڈر تھے اور فن تقریر کسی طرح بھی ان کا سٹرانگ پوائنٹ نہیں تھا۔پھر جیسے جیسے ان کا تجربہ بڑھتا گیا تو ان کی تقریروں میں نکھار آتا گیا اور اب یہ وقت آ گیا ہے کہ انہیں لکھی ہوئی تقریر کی حاجت نہیں رہی۔وزیر اعظم کے طور پر بھی وہ شاذو نادر ہی لکھی ہوئی تقریر سے مستفید ہوتے تھے۔وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے بے تکلف یا انفارمل تقریر کی نئی طرح ڈالی۔وہ تقریباً ہر روز ہی قوم سے مخاطب ہوتے تھے۔جب بڑے عہدے دار ضرورت سے زیادہ بولنے لگیں تو غلطی کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔عمران خان بطور وزیر اعظم ضرورت سے زیادہ بولتے تھے اور اکثر اوقات اپنے حریفوں کو تنقید کرنے کا مواد فراہم کرتے تھے۔لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ انہوں نے فن تقریر میں بڑے بڑے جغادری سیاستدانوں کو پیچھے چھوڑ دیا، ان کا یہ فن تقریر اب اپوزیشن لیڈر کے طور پر ایک اثاثہ ثابت ہو رہا ہے، لوگ ان کی تقریر سننا چاہتے ہیں اور انہیں ہزاروں لوگوں کو جمع کرنے کے لئے صرف ایک دن کا نوٹس درکار ہوتا ہے۔ سیاسی تقریروں کے دوران میوزک اور گانے کا تڑکا لگانے کا کریڈٹ بھی عمران خان کو جاتا ہے اور اب تقریباً ساری سیاسی جماعتیں اس نئے رواج پر عمل پیرا ہیں۔عمران خان کی تازہ ترین جدت تقریر کے دوران سیاستدانوں کے بیانات کی ویڈیوز کا استعمال ہے۔لوگ بڑے اشتیاق سے ان ویڈیوز کا انتظار کرتے ہیں اور ایک ہی ویڈیو کو ہر جلسے میں دکھانے کے باوجود محظوظ ہوتے ہیں۔جناب شہباز شریف کی بھائیوں سے مدد مانگنے والی ویڈیو خاص و عام میں مقبول ہے اور تقریباً ہر جلسے کی زینت بنتی ہے اور لوگ ہر دفعہ پہلے سے زیادہ محظوظ ہوتے ہیں اور نعرے بازی کرتے ہیں بعض لوگ عمران خان پر اعتراض کرتے تھے کہ وہ تقریباً ایک ہی تقریر تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ ہر جلسے میں کرتے ہیں لیکن شاید عمران خان نے اتنے تواتر کے ساتھ اپنے حریفوں کے کوائف عوام کے سامنے دہرائے ہیں کہ اب وہ کوائف عوام کو ازبر ہو گئے ہیں۔شاید عمران خان کا ٹارگٹ وہ عوام بھی تھے جو ایک بار یا چند بار کہنے سے بات نہیں سمجھ سکتے۔اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اب سندھ کے پسماندہ ترین سیلاب زدہ علاقوں کے مکین بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر عمران خان کی حکومت ہوتی تو ان کے ساتھ سیلاب میں یہ حشر نہ ہوتا۔عمران خان سیلاب کی تباہ کاری میں تو شاید کوئی کمی نہ کر پاتے لیکن ان کی حکمت عملی کورونا کی وباء میں تو مکمل کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔ پاکستان کی حکمت عملی دنیا کے لئے ایک نمونے کے طور پر پیش کی جاتی تھی ،بعد میں ان کے مخالفین نے بھی Selective Lock Downکی حکمت عملی اپنائی اور نہ صرف کورونا کے نقصانات کو محدد کیا بلکہ غریب عوام کے روزگار میں بھی تعطل نہیں آنے دیا۔ حکومت سے نکلتے وقت عمران خان کی مقبولیت کم ترین سطح پر تھی اور اگر ان کی حکومت اسی رفتار سے جاری و ساری رہتی تو وہ شاید آئندہ انتخاب میں اپنی نشست بھی نہ جیت سکتے لیکن اقتدار سے نکلتے ہی عمران خان نے جس طح عوامی رابطہ مہم شروع کی اور ایک نیا بیانیہ عوام میں متعارف کروایا عمران خان کا یہ بیانیہ عوام کے دل میں گھر کر گیا ہے اور اس وقت عمران خان بلا شبہ عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ اس میں عمران خان کی عوامی رابطہ مہم اور بیانیے کی مقبولیت کا عمل دخل تو یقینی ہے لیکن امپورٹ حکومت کی کارکردگی نے عمران خان کی مقبولیت کو ایک نیا عروج عطا کیا ہے۔اس سولہ جماعتی حکومت کا معاملہ تو’’نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ والا معاملہ ہے۔جس مہنگائی کے خلاف یہ جماعتیں لانگ مارچ کرتی تھیں، وہ مہنگائی ان کے اپنے دور میں اس عروج کو چھو رہی ہے کہ الامان والحفیظ۔ ایک ایک بلب اور ایک پنکھے والے گھرانے 2025ہزار کا بل وصول کر رہے ہیں اور درمیانے طبقے کے لوگ اب ایک ایک لاکھ کا بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔اگر عدالت بھی حکم دے کہ فیول سرچارج وصول نہ کیا جائے، تو اس کے احکامات پر عمل نہیں ہوتا۔beg borrow or steel بجلی کا بل تو ادا کرنا پڑے گا۔ورنہ اپنی لالٹین جلائیں اور ہاتھ کا پنکھا جھیلیں جو وزیر اعظم شہباز شریف اقبال پارک میں جھلا کرتے تھے جب وہ لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتے تھے اب وہ وزیر اعظم ہیں تو ساری قوم ہاتھ کے پنکھے پر آ جائے اور لالٹین استعمال کرے۔ عمران خان کی فی البدیہہ تقاریر نے ایک طرف تو انہیں بے پناہ مقبولیت سے ہمکنار کیاہے، جس کا اظہار پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بھی ہوا۔لیکن دوسری طرف وہ بعض دفعہ جوش تقریر میں ایسے بیانات داغ دیتے ہیں، جو ان کے لیول کے لیڈر کے شایان شان بھی نہیں ہوتے اور ان کے حریفوں کو بھی موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ان کے بیانات کو مقتدر اداروں کو ان کے خلاف بھڑکانے میں مدد دیں۔جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری کے خلاف بھی عمران خان نے غیر محتاط زبان استعمال کی جس کا خمیازہ وہ اب بھگت رہے ہیں۔اگرچہ عمران خان نے اپنے حریف سیاستدانوں کی ویڈیوز دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی زبان دیگر لیڈروں کی نسبت مہذب اور ادب کے دائرے میں تھی۔پاکستان میں آ ج کل روایت بھی یہی ہے کہ اپنے خلاف الزام کا جواب دینے کی بجائے باقی لوگوں کے گناہ گنوائے جاتے ہیں لیکن بنیادی اصول یہی ہے کہ آپ نے اپنے الزام کا جواب دینا ہوتا ہے۔خاص طور پر عدالتی معاملات میں قانونی پوزیشن ہی دیکھی جاتی ہے۔عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اور دوسری بار اپنا جواب بھی جمع کروایا اور اپنی شرمندگی اور پچھتاوے کا اظہار تو کیا لیکن مکمل معافی مانگنے اور اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے گریزاں رہے۔ممکن ہے کہ وہ معافی مانگ لیتے تو نوٹس واپس لے لیا جاتا لیکن یہ بھی ممکن تھا کہ انہیں اپنا جرم ماننے پر سزا سنا دی جاتی۔اس صورت میں وہ اپیل بھی نہ کر سکتے کیونکہ وہ اپنا جرم قبول کر چکے ہوتے۔ویسے بھی عمران خان ہر جلسے میں ایاک نعبدو و ایاک نستعین کی دعا کرتے ہیں اور صرف اللہ کے آگے جھکنے کی تلقین کرتے ہیں۔شاید کسی انسان کے رحم و کرم پر اپنے آپ کو چھوڑنا ان کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا۔اب وہ فردِ جرم کا سامنا کریں گے اور قانونی جنگ لڑیں گے۔سپریم کورٹ میں جانے کی بھی آپشن شاید ان کے پاس موجود ہو، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس دفعہ اپنی ڈسٹرکٹ کورٹ کے لئے مضبوط سٹینڈ لیا ہے اور اسے اپنی ریڈ لائن قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس نے ڈسٹرکٹ جج کی توہین کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی توہین سے بھی بڑا جرم قرار دے کر انصاف کے لئے معیار قائم کر دیے ہیں۔اگرچہ عدالت کے اپنے مقرر کردہ معاونین فاضل وکلاء مخدوم علی خان اور منیر اے ملک نے بھی عدالت کو سفارش کی کہ عمران خان کی معذرت قبول کر لی جائے کیونکہ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور آئندہ محتاط رہنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ جناب مخدوم علی خان نے یہ بھی عرض کی کہ یہ تاثر بھی نہیں جانا چاہیے کہ یہ عدالت کسی سیاسی رہنما کو کارنر کرنے میں معاونت کر رہی ہے۔اس پر ایک فاضل جج نے فرمایا کہ کیا ہم کٹھ پتلی بن رہے ہیں۔جس پر مخدوم علی خان صاحب نے جواب دیا کہ وہ ہرگز یہ لفظ استعمال نہیں کر سکتے۔معاون وکلاء نے عدالت کو بڑے دل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا تاہم عدالتی بنچ نے اس معاملے کا سخت نوٹس لیا اور ماتحت عدلیہ کی عزت کی حفاظت کرنے میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔یہ فیصلہ عدلیہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔عدلیہ نے ثابت کر دیا کہ زمین پھٹے یا آسمان گرے ۔انصاف ہر صورت کیا جائے گا اور کسی کے عوام میں مقبول ہونے کی بنا پر کوئی استثناء نہیں دیا جائے گا۔یہ فیصلہ باقی ہائی کورٹس کے لئے بھی قابل تقلید ہے، اگر تمام ہائیکورٹس اپنی ماتحت عدالتوں کا اس قدر خیال رکھیں گی تو ہمیں وہ قابل شرم واقعات نظر نہیں آئیں گے، جہاں آئے دن ماتحت عدالتوں کے ججوں کو اپنی عدالتوں میں بند کر دیا جاتا ہے یا ان کے ساتھ گالم گلوچ کی جاتی ہے اور ماتحت عدالتوں کے جج اپنی عزت بچانے کے لئے بار کونسلز سے تعلقات بنا کر رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ماتحت عدالتوں میں مبینہ طور پر جو رشوت ستانی ہوتی ہے، اس کے سدباب کی بھی ضرورت ہے ،یہ بھی ضروری ہے کہ اعلیٰ عدلیہ ایسی عدالتی اصلاحات کرے کہ عام آدمی کے لئے انصاف کا حصول آسان اور سستا ہو جائے شاید ایسے اقدامات سے ہماری عدالتیں عالمی اداروں کی نظر میں 126ویں نمبر سے بہتر نمبر پر آ جائیں۔