غربت ،محرومی اور استحصال سیاسی بے چینی اور مسلح تصادم کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ عمران خان حکومتی وسائل انسانوں پر خرچ کر کے نچلے طبقے کو اوپر اٹھا کر تبدیلی لانے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ اسے سیاست کی کرشمہ سازی ہی کہا جا سکتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد تبدیلی لانے والوں کے خود رنگ بدلنا شروع ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی انصاف کی تحریک اقتدار میں آ کر ایسے رنگ بدل رہی ہے کہ اقتدار کے دربار میں نواز‘ زرداری‘ عمران ایک ہونے والا معاملہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ وزیر اعظم کے وسیم اکرم پلس نے جو سلوک کسانوں کے ساتھ کیا وہ کسی لحاظ سے بھی ستمبر 2016ء میں خادم اعلیٰ شہباز شریف کے دور میں کسانوں کے ساتھ پنجاب پولیس کی بربریت سے مختلف نہ تھا۔2016ء میں بھی پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہزاروں کسان لاہور میں جمع ہوئے اور حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کے خلاف پنجاب اسمبلی تک مارچ کا اعلان کیا تھا مگر خادم اعلیٰ کی پولیس نے لاہور پہنچنے والے ہزاروں کسانوں پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے 600کو گرفتار کر لیا۔ مسلم لیگ ن کے ہی دور میں جب ملک بھر سے کسان اپنے جائز مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج تھے تو اسلام آباد پولیس نے ان پر دھاوا بول کر ان پر بدترین تشدد کیا اگلے روز اخبارات یں پولیس تشدد سے 160کسانوں کے زخمی ہو کر ہسپتال پہنچنے اور 200کی گرفتاری کی خبریں سرخیاں بنی۔ حکومت کا کسانوں سے سلوک کا ہی نتیجہ تھا کہ کسانوں نے آلو کی بوریاں لاہور مال روڈ پر الٹ دیں اور ہزاروں ایکڑ پر ٹماٹر کی تیار فصل پر کھیتوں میں ہی ہل چلا دیے۔ یہ اناج کی بے قدری اور کسان کے استحصال کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ٹماٹر 400روپے اور آلو 70روپے میں فروخت ہو رہے ہیں۔پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات اپنی جگہ مگر یہ کریڈٹ بہرحال پیپلز پارٹی کو دینا پڑتا ہے کہ اس کے دور اقتدار میں گندم کی قیمت 600روپے من سے 1300روپے تک بڑھائی گئی اور یہ لوٹ مار کرنے والی پیپلز پارٹی کی کسان دوست پالیسیوں کا ہی ثمر تھا کہ مسلم لیگ ن کے اقتدار میں گندم کی قیمت نہ بڑھائے جانے کے باوجود ملک میں وافر مقدار میں گندم موجود رہی اور عوام کو 35روپے کلو آٹا ملتا رہا۔ مگر جب کسان کی حالت بقول جوش ملیح آبادی یہ ہو کہ : سیم وزر نان و نمک آب و غذا کچھ بھی نہیں گھر میں ایک خاموش ماتم کے سوا کچھ بھی نہیں تو پھر یہ خاموش ماتم بھی اپنا رنگددکھاتا ہے اور وطن عزیز میں حکومتی پالیسیوں کے خلاف مسلسل دکھا بھی رہی ہے۔ کسانوں کے استحصال کی وجہ سے دنیا میں کپاس پیدا کرنے والے چو تھے ے بڑے ملک کی پیداوار 30فیصد کم ہو چکی ،دنیا کے دس بڑے گندم پیدا کرنے والے ملکوں میں شمار ہونے کے باوجود آج گندم روس سے منگوانی پڑ رہی ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کا کسان ہے، نہ وطن کی زرخیز مٹی بلکہ حکومتی پالیسیاں ہیں۔ یہ سہرا بھی مسلم لیگ ن کے سر ہی جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے گندم کی پیداوار اور اس کی منڈی پر سے سرکاری اختیار ختم کرنے کا عوام دشمن فیصلہ کیا۔فروری 2018ء میں زرعی منڈی میں اصلاحات کے نام پر عالمی بنک کے ساتھ ایک منصوبے کا آغاز کیا تھا جسے اسٹرینتھنگمارکیٹ فار ایگری کلچر اینڈ رورل ٹرانسفارمیشن ان پنجاب یا سمارٹ پروگرام کہا گیا۔ اس منصوبے کے تحت پنجاب حکومت نے مرحلہ وار گندم کی خریداری کم کر کے سرکاری ذخائر کو دو ملین ٹن تک محدود کرنا ہے۔اس منصوبے کے تحت ہی 2017-18ء میں مقررہ ہدف سے کم گندم خرید ی گئی جسے 2019ء میں تین ملین ٹن تک محدود ہونا اور 2021ء میں گندم کی خریداری سے پنجاب حکومت کو مکمل طور پر الگ ہونا تھا۔ مسلم لیگ ن نے تو جو کیا سو کیا افسوسناک بات تو یہ ہے کہ تبدیلی سرکار نے بھی اس کسان دشمن پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے جس کا اندازہ تحریک انصاف کے وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جوان بخت کے فروری 2019ء میں دیے گئے اس بیان سے ہو جاتا ہے فرماتے ہیں پنجاب حکومت گزشتہ دس برسوں میں کسانوں سے گندم کی خریداری ‘ اسے ذخیرہ کرنے اور فروخت کرنے کے عمل میں 447بلین روپے کی مقروض ہوئی ہے ۔،غذائی اجناس کے اس سارے عمل میں زیادہ سے زیادہ ہر دس میں سے ایک کسان کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن حکومت کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ انہوں نے بھی خادم اعلیٰ کی زبان بولتے ہوئے نجی شعبے کے کردار کی بات کی۔ یہ غذائی اجناس میں نجی شعبے کے کردار میں اضافے کا ہی نتیجہ ہے کہ 35روپے کلو فروخت ہونے والا آٹا ایک سال میں 70روپے اور 55روپے میں بکنے والی چینی تحریک انصاف کے ایک ہی سال میں 105روپے تک پہنچ چکی ہے۔یہ تو نجی شعبے کے کردار کا آغاز ہے اگر حکومت غذائی اجناس کو سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑے رکھنے کی مسلم لیگی ن کی پالیسی کو جاری رکھتی ہے تو پھر حکومت کو گندم روس سے ٹماٹر ایران سے منگوانا پڑتے رہیں گے مگر کب تک ؟۔سرمایہ دار تو اس کھیل میں زرعی اجناس کی برآمد اور پھر درآمد کر کے اربوں کماتے رہے ہیں۔مگر عام پاکستانی فاقوں مرنے اور پاکستانی کسان بھی بھارت کی طرح خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ کسان ہی ہے کہ: لہر کھاتا ہے رگ خاشاک میں جس کا لہو جس کے دل کی آنچ بن جاتی ہے سیل رنگ بو افسوس اسی کسان کا لہو سڑکوں پر بہایا گیا ہے۔ ابھی تو عمران کی تحریک انصاف کے دامن پراشفاق لنگڑیال کے خون کے چھینٹے ہیںاگر عمران خان کسان دشمن پالیسیوں کو جاری رکھتے ہیں تو پورا دامن کسانوں کے خون سے داغدار ہو گا۔ اب یہ حساب عمران خان کو لگانا ہے کہ غذائی اجناس کی خریدنے، ذخیرہ کرنے اور تقسیم کرنے پر دس سال میں 447ارب روپے کا نقصان بچانا ہے یاغذائی اجناس کے شعبہ کو ن لیگ کی طرح تاجروں کے حوالے کرکے محض ایک سال میں عوام پر صرف چینی کی مد میں ہی 250 ارب کا بوجھ ڈالنا بڑا نقصان ہے۔ آٹے گھی سبزیوں کی قیمتیں بڑھا کر سرمایہ دار طبقہ کتنا لوٹ رہا ہے وہ الگ ہے۔