آزاد کشمیر میں روائتی اور تاریخی طور پر ہمیشہ اسی جماعت کی حکومت رہی ہے جو پاکستان میں حکمران ہوتی ہے۔اسی روایت کے تحت پیپلز پارٹی اور ن لیگ آزاد کشمیر میں باری باری حکومت کرتی رہی ہیں۔کبھی بھی کسی بڑی دھاندلی کا شور نہیں ہوا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روایت رہی ہے۔تاہم حالیہ انتخابات میں چونکہ تحریک انصاف پاکستان میں پہلی دفعہ حکومت میں آئی ہے، اس لئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی ذہنی طور پر انہیں آزاد کشمیر میں حکومت دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔اسی لئے اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں نے الیکشن میں بھرپور تحریک چلائی اور زمین اور آسمان کے قلابے ملائے۔حیران کن بات یہ تھی کہ ان میں سے کسی جماعت نے اپنے اپنے دور کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش نہ کیا بلکہ پورا زور عمران خان کو کشمیر فروش اور یہودی لابی کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگایا۔باہمی احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خوب گالم گلوچ کی گئی اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی گئی۔البتہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں یہ فرق ضرور رہا کہ پیپلز پارٹی نے پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف کبھی ہرزہ سرائی نہیں کی۔پیپلز پارٹی کے سخت ترین ناقدیں بھی یہ جانتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بڑے سانحہ کے موقع پر بھی آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر نہ صرف اپنا سیاسی قد بڑھایا بلکہ پیپلز پارٹی کے لئے بھی مستقبل میں اقتدار حاصل کرنے کی راہ ہموار کی۔ن لیگ میں ایک ایسا دھڑا موجود ہے جو اقتدار نہ ملنے کی صورت میں ہر حد عبور کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اس دھڑے کے خیال میں شریف خاندان کے سامنے پاکستان کی حیثیت ثانوی ہے۔وہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے بیرونی طاقتوں کا سہارا لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔پاکستان سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کا ’’اعزاز‘‘ بھی اسی دھڑے کو حاصل ہے اور اس پر کبھی شرمندگی کا اظہار بھی نہیں کیا گیا۔افواج پاکستان پر بے جا تنقید اور الزام تراشی بھی ان کا شیوہ ہے۔نواز شریف نے بیماری کے بہانے لندن فرار ہونے کے بعد جس طرح افواج پاکستان کے کمانڈرز کا نام لے لے کر جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا اس کی دوسری مثال صرف ایم کیو ایم بانی کی صورت میں موجود ہے جو کہ مستند غدار وطن ہے اور بھارت کا دوست ہے۔آزاد کشمیر الیکشن میں مسلم لیگ ن کی قیادت محترمہ مریم نواز نے کی اور ن لیگ کے منتخب صدر جناب شہباز شریف کو عملی طور پر لاہور تک محدود کر دیا گیا۔مریم نواز نے محترم وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے خلاف خوب آگ اگلی اور زور خطابت میں عمران خان کو کشمیر فروش‘بزدل خان‘سلیکٹڈ اور نہ جانے کن کن خطابات سے نوازا۔افواج پاکستان بھی ان کے زور خطابت کی زد میں آئیں۔وہ خطابت کا فن خوب جانتی ہیں اور مجمع اکٹھا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں لیکن عمومی طور پر وہ سچ بولنے اور حقائق کا سامنا کرنے سے گریز کرتی ہیں۔اپنی جائیداد کے بارے میں ان کے بیانات اب ضرب المثل کی حیثیت حاصل کر چکے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی اس پر شرمندگی محسوس نہیں کی اور نہ ہی کبھی کوئی تاویل پیش کی ہے۔انہیں قوم کی زود فراموشی پر مکمل بھروسہ ہے اور ان کا خیال ہے کہ پاکستانی آبادی کا بیشتر حصہ پٹواریوں پر مشتمل ہے۔آزاد کشمیر کے لوگ نسبتاً پڑھے لکھے ہیں اور اپنا برا بھلا خوب سمجھتے ہیں۔وہ چونکہ بارڈر پر زندگی بسر کرتے ہیں۔وہ فوج کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔اہل کشمیر آزادی کی قدروقیمت کو جانتے ہیں اور افواج پاکستان کے خلاف کسی بھی طرح کے بیانیے سے وہ نفرت کرتے ہیں۔وہ خود بھی شہادتیں دیتے ہیں اور فوج کی شہادتوں کے بھی چشم دید گواہ ہیں۔وہ حب الوطنی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔بھارت کی زبان بولنے والے انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔آزاد کشمیر میں ن لیگ کی حکومت کی موجودگی میں ن لیگ کو حالیہ الیکشن میں جو عبرت ناک شکست ہوئی ہے‘اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے لیکن اب بھی لگتا ہے کہ ن لیگ سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کا پاکستان کے آئندہ الیکشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن آزاد کشمیر کی جو سیٹیں تحریک انصاف نے پنجاب میں جیتی ہیں وہ ایک نئے رجحان کی عکاسی کر رہی ہیں۔ سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن میں ن لیگ نے جس طرح اپنی جیتی ہوئی سیٹ کھوئی ہے وہ بھی مریم نواز کے بیانیے اور تکبر کی شکست ہے۔اس نشست کے بارے میں مریم نواز کے بیانات نہایت متکبرانہ تھے۔ان کے ایک حواری عطااللہ تارڑ نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگر وہ یہ نشست ہار گئے تو وہ اپنا نام تک بدل دیں گے۔الیکشن کے بعد ایک ٹاک شو میں انہیں یہ بیان یاد دلایا گیا،تو وہ واقعی اپنا نام بدلنے پر تیار ہو گئے۔اصل بات یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کو اتنے بلند بانگ دعوے نہیں کرنے چاہئیں کہ بعد میں لوگوں کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے۔تکبر اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔وہ تکبر کرنے والوں کو معاف نہیں کرتا۔کہنے کو سیالکوٹ کی یہ سیٹ ایک سیٹ ہے لیکن اس سیٹ کا فیصلہ رجحان ساز ثابت ہو سکتا ہے۔سبحانی خاندان اس سیٹ پر بھی کئی عشروں سے جیت رہا تھا۔اب طارق سبحانی کا ایک نووارد نوجوان احسن سلیم بریار سے ہار جانا حیران کن ہے۔مریم نواز کا بیانیہ اور ن لیگ کااندرونی خلفشار اس کی بڑی وجہ ہے۔اس رزلٹ کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی نے ڈسکہ کی شکست سے سبق سیکھاہے۔پی ٹی آئی نے اپنے روائتی خلفشار کو ختم کیا اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور ان کے دست راست کالا راواں کے چودھری منور حسین نے دن رات محنت سے پی ٹی آئی کے تمام دھڑوں کے اختلافات دور کئے اور پوری پارٹی نے یکسو ہو کر اسے تقریباً ناممکن کام کو ممکن بنا دیا۔ن لیگ کے گڑھ میں پی ٹی آئی ایک بڑا شگاف ڈالنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔اس سے پہلے ن لیگ اپنے ممبران اور بیورو کریسی کو یہ یقین دلانے میں کامیاب نظر آتی تھی کہ پی ٹی آئی کی حکومت عارضی ہے اور جلد ہی ن لیگ دوبارہ اقتدار میں آئے گی۔تین سال بعد پی ٹی آئی کی کارکردگی قدرے بہتر ہوئی ہے اور اب ن لیگ میں ایک ناامیدی کی کیفیت نظر آ رہی ہے۔اگر ن لیگ نے حالات کا صحیح تجزیہ نہ کیا اور اپنے بیانیے میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ کی تو ن لیگ میں شکست و ریخت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔شہباز شریف گروپ کو دیوار سے لگانے کا عمل اگر بند نہ ہوا تو جماعت کو متحد رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ نواز شریف کی افغانستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ سے ملاقات نے بھی ن لیگ کی آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں شکست میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔اس ملاقات کے بعد حمد اللہ کا امریکی نشریاتی ادارے سے انٹرویو اور پاکستان مخالف بیان نے بھی اس تاثر کو پختہ کیاہے کہ پاکستان کے بارے میں منفی معلومات شاید نواز شریف نے فراہم کی ہوں۔اگر ن لیگ نے اپنی یہی روش جاری رکھی اور پارٹی کی پالیسی کو مریم نواز کی فہم و فراست پر چھوڑ دیا تو پارٹی کے لئے پنجاب میں بھی اپنی حیثیت برقرار رکھنی مشکل ہو جائے گا۔پی ٹی آئی نے اپنی کارکردگی میں کافی بہتری دکھائی ہے اگر پی ٹی آئی نے باقی ماندہ دو سال میں معیشت کی بہتری اور عام آدمی کی ضروریات کا خیال رکھا تو عین ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات میں بھی وہ حکومت بنا سکے۔عمران خان کو اپنے غیر منتخب شدہ مشیران پر خاص طور پر نظر رکھنی چاہیے۔ایک مشیر کا استعفیٰ بھی خبر ہے۔چند مزید ازکار رفتہ مشیروں سے استعفیٰ لینا بھی پی ٹی آئی کے لئے سودمند ہو سکتا ہے۔