لاہور ہائیکورٹ ملتان بنچ کے جج جسٹس چودھری محمد اقبال نے اربوں روپے مالیت کی تھل میں موجود سرکاری اراضی جعلسازی ، دھوکہ اور جعلی کلیموں کے ذریعے الاٹ کرانے والے مافیا کے خلاف دائر رٹ کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے 6ہزار 656 کنال اراضی جو کہ ضلع لیہ (تھل) کے مختلف علاقوں میں جعلی اور آر ایل ٹو کے ذریعے الاٹ کرائی گئی۔ الاٹمنٹ ، تمام انتقالات اور رجسٹریاں منسوخ کرتے ہوئے ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ فیصلہ چالیس سال کے بعد سامنے آیا ہے اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس طرح کے سینکڑوں مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں کہ وسیب کے علاقے تھل میں ناجائز الاٹمنٹوں کے حوالے سے اتنی بڑی جعلسازی ہوئی کہ دنیا کے بڑے بڑے جعلساز ان جعلسازیوں کو دیکھ کر حیران اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ تھل میں جعلسازی صرف سرکاری زمین پر نہیں بلکہ نجی زمینوں پر بھی ہوئی ہے اور اس سارے مسئلے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر میں اس علاقے کی تاریخ کی بات کروں تو یہ حقیقت ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے بھکر کا بیشتر علاقہ ریگستان ’’ تھل ‘‘ پر مشتمل ہے۔ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے اور جنوب میں وسیع صحرا’’ تھل ‘‘ دور تک پھیلا ہوا ہے۔ صحرا کو آباد کرنے کیلئے 1949ء میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی ۔ بھکر اس کا صدر مقام رہا، تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے تھل کو آباد کرنے کے نام پر تھل کے لوگوں سے حق ملکیت چھین لیا اور محکمہ مال کے ریکارڈ میں ان کے ملکیت نامے ختم کر کے کہا گیا کہ تھل کینال بنے گی ، ایک تہائی رقبہ تھل کینال کے اخراجات کے طور پر لیا جائے گا اور نہر بننے کے بعد دو تہائی رقبہ مالکان کو واپس کر دیا جائے گا۔ نہر بننے کے بعد یہ ہوا کہ نہر کے آس پاس کے رقبے غیر مقامی آبادکاروں کو دیدیے گئے اور تھل کے قدیم باشندوں کو ایک بار پھر سے دور دراز ٹیلوں پر پھینک دیا گیا جو کہ شاید سو سال بعد بھی آباد نہ ہوں۔ تھل کے لوگ غیر منصفانہ اقدام کے خلاف عدالتوں میں گئے ، سول مقدمے کی بناء پر ان کی تیسری نسل عدالتوں میں ہے ، مگر اب تک انصاف نہیں ملا۔ تھل کا جغرافیہ ایک مثلث کی شکل میں ہے جس میں میانوالی ، بھکر ، خوشاب، جھنگ، لیہ اور مظفر گڑھ کے اضلاع آتے ہیں ، بھکر ضلع کا حصہ زیادہ ہے جبکہ مظفر گڑھ تھل کا ٹیل ہے، تھل کے لوگ سیدھے سادے اور سچے لوگ ہیں ان میں انسانوں سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ،بھیڑ بکریاں پالناان کی گزر اوقات ہے، گائے بھی رکھتے ہیں۔ جبکہ اونٹ کو تھل میں بہت اہمیت حاصل ہے اونٹ ان کی کمزوری بھی ہے اور اونت سے وہ ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں ، خواجہ فرید کا کلام ان کے جذبات کا عکاس ہے: نازو جمل جمیل وطن دے راہی راہندے راہ سجن دے ہوون شالا نال امن دے گوشے ساڈے ہاں دے ہِن وسیب بنیادی طور پر دریائوں کی سرزمین ہے، ، چھ اضلاع کے تھل سے کئی دریا گزرتے ہیں مگر یہ دریا تھل کو پیاسا چھوڑ کر گزر جاتے ہیں ۔ اس لئے نا امیدی غم اور ملال خطے کے باسیوں کا نصیب ٹھہرا، جب دکھ ہوں ،غم ہو ، ملال ہو تو دکھ بھری شاعری اور موسیقی ساتھی بن جاتی ہے ،تھل کے انسانوں کیلئے خواجہ فرید کے دکھ بھری کافیاں ان کے دکھوں کا مداوا ہیں ۔ خواجہ فرید نے اپنے کلام میں 50 سے زائد مقامات پر تھل کا ذکر کیا ہے ۔ ایک جگہ امید کا پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ تھل مارو دا پینڈا سارا ، تھیسم ہِک بلہانگ‘‘ ۔ اکثر جگہوں پر اسے محبت کے ساتھ ’’ تھل مارو‘‘ کا نام دیا ہے۔ ایک کافی میں خواجہ فرید کہتے ہیں کہ میں ویرانے کو میں نے اپنا گھر بنا لیا ہے ، میں تھل جاؤں گا : تھی راہی تھل مارو جُٖلساں لانڈھی تے لس بیلہ رُلساں سُنج ، بر ، بار ، کیتم گھر بار پچھلے دنوں اپنے ساتھیوں سید حسنین رضوی ایڈووکیٹ اور غلام مرتضیٰ خان گورمانی کے ساتھ تھل گیا تو ہمیں تھلوچی دوست محمد خان بلوچ نے تھل کی سیر کرائی اور تھل کے دوستوں سے ملوایا ۔ اس موقع پر تھل کے باسی ملک غلام نبی بھیڈ وال نے بھی بہت محبتیں دیں ۔ میں نے دیکھا کہ تھل کے ٹیلے اور ریت کی رنگت بھی چولستان جیسے ہیں ، اور لوگوں کے مزاج بھی ایک جیسے ہیں ۔ کرنل اقبال ملک کی کتاب ’’ روہی اور خواجہ فرید‘‘ کو میں نے پڑھا اس کتاب میں خواجہ فرید نے جگہ جگہ روہی یعنی چولستان کی سرزمین سے محبت کا اظہار فرمایا ہے ۔ آج میں دیکھ رہا ہوں تو تھل کے بارے میں بھی انہوں نے اس قدر محبت کا اظہار فرمایا کہ اس سرزمین کو وادی ایمن اور اس کے ٹیلوں کو کوہ طور سے تشبیہ دیکر اسے تقدس سے بھی سرفراز فرمایا ، خواجہ فرید فرماتے ہیں : وادی ایمن تھل دے چارے جتھاں بروچل کرہوں قطارے ککڑے ٹبڑے ہِن کوہ طور تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ خوش ہیں کہ بھکر کیلئے یونیورسٹی کا اعلان ہوا ہے۔ ایک ملاقات پر انہوں نے بتایا کہ ہم تھل کو ڈویژن کا درجہ دینے کی امید کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی توجہ درکار ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بھکر میانوالی کی تحصیل تھی ، یکم جولائی 1982ء کو اسے ضلع کا درجہ ملا، بھکر کے شمال میں میانوالی ، مشرق میں خوشاب و جھنگ اور جنوب میں ضلع لیہ ہے۔ ضلع بھکر کی مغربی سرحد کے ساتھ دریائے سندھ بہتا ہے، دریا کی دوسری طرف وسیب کا نہایت ہی ثقافتی و ادبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ہے، اور ساتھ ضلع ٹانک ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ ادب نواز آدمی ہیں وسیب سے تعلق رکھنے والے وہ پہلے ایم این اے ہیں جو اسمبلی میں سرائیکی اشعار پڑھتے ہیں اور وہ ہر موقع اور مقام پر کہتے ہیں کہ میں ذاتی طور پر سرائیکی صوبے کے حق میں ہوں کہ اس سے پاکستان کو استحکام ملے گا۔