وسیب کے عظیم صحرا چولستان میں 2005 ء سے چولستان ڈیزرٹ جیپ ریلی کے نام سے بین الاقوامی ایونٹ ہر سال منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی گزشتہ چار سالوں سے وسیب کے دوسرے صحرا تھل میں بھی تھل ڈیزرٹ جیپ ریلی کے نام سے ایونٹ شروع ہوا ہے۔ روزنامہ 92 نیوز ملتان کی خبر کے مطابق تھل میں ہونے والی ریلی میں دو خواتین ڈرائیورز کھلاڑیوں سمیت بہت سے کھلاڑیوں نے حصہ لیا ۔ تھل جیپ ریلی میں نوشیرواں ٹوانہ سر فہرست ہیں ۔ ریلی کے دوران اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی معروف خاتون ریسر سلمیٰ خان کی گاڑی کو حادثہ پیش آنے کے بعد گاڑی کو آگ لگ گئی ، جس سے وہ خود تو محفوظ رہیں البتہ وہ پہلی کامیابی حاصل کرنے سے محروم رہیں ۔ اس موقع پر ایک شاندار ثقافتی تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا ۔ ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ علی شہزاد نے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کی اور کامیابی حاصل کرنے والوں کو مبارکباد دی ۔ ڈی پی او صادق علی ڈوگر نے کہا کہ ریلی کے موقع پر حفاظتی صورتحال اور امن و امان کو مکمل کنٹرول میں رکھا گیا، ایلیٹ فورس اور ڈولفن اسکواڈز کا گشت بھی موجود ہے اور ہماری سکیورٹی راستہ بھول جانے والے کھلاڑیوں کی رہنمائی کر رہی ہے۔ تھل ڈیزرٹ ریلی کا ایونٹ ہو یا چولستان ڈیزرٹ ریلی ، اس سے کسی کو اعتراض نہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تھل اور چولستان کے مسائل کا ادراک بھی ضروری ہے کہ ایک طرف صحرا کے لوگ پیاس سے مر جائیں اور دوسری طرف دولت مند کروڑوں روپے اپنی فضول خرچی پر اڑا دیں تو یہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ تھل کی تاریخ ثقافت اور جغرافیے کا ادراک بھی بہت ضروری ہے کہ تھل ریت کا ایسا دریا ہے جو وسیب کے اضلاع میانوالی ، بھکر ،خوشاب ، لیہ ، جھنگ سے گزر کر مظفر گڑھ آ پہنچتا ہے۔ وسیب کے ریت کے دریا تو کیا ریت کے ایک ایک ذرے سے پیار کرتے ہیں ۔ تھل کا جغرافیہ ایک مثلث کی شکل میں ہے جس میں میانوالی ، بھکر ، خوشاب، جھنگ، لیہ اور مظفر گڑھ کے اضلاع آتے ہیں ، بھکر اور ضلع کا حصہ زیادہ ہے جبکہ مظفر گڑھ تھل کا ٹیل ہے، تھل کے لوگ سیدھے سادے اور سچے لوگ ہیں ان میں انسانوں سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ،بھیڑ بکریاں پالناانکی گزر اوقات ہے، گائے بھی رکھتے ہیں ۔ جبکہ اونٹ کو تھل میں بہت اہمیت حاصل ہے، اسے صحرائی جہاز کہا جاتا ہے، اونٹ ان کی کمزوری بھی ہے ، اور اونت سے وہ ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں۔ تھل کے بارے میں بہت سی روایات ہیں ، ایک روایت کے مطابق صدیوں پہلے یہاں دریا بہتا تھا ، دریا نے رخ بدلا تو یہ علاقہ صحرا میں تبدیل ہو گیا ،یہ بھی روایت بیان کی جاتی ہے کہ یہ علاقہ ہزاروں برس پہلے سمندر کا حصہ تھا، تھل میں آپ جائیں تو تھلوچی یا تھلوچڑوں کو اب بھی امید ہے کہ روٹھا ہوا دریا ایک دن مان جائے گا اور دریا بہتا رہے گااور تھل ایک بار پھر سرسبز شاداب وادی بنے گا ، یہ سن کر مجھے چولستان یاد آیا کہ چولستان کے باشندے بھی نسل در نسل اس آس امید پر زندہ ہیں کہ ’’ رس گیا ہاکڑہ ول واہسی ‘‘ یعنی روٹھ جانے والا دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر بہے گا۔ جغرافیائی لحاظ سے بھکر کا بیشتر علاقہ ریگستان ’’ تھل ‘‘ پر مشتمل ہے۔ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے اور جنوب میں وسیع صحرا’’ تھل ‘‘ دور تک پھیلا ہوا ہے۔ صحرا کو آباد کرنے کیلئے 1949ء میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی ۔ بھکر اس کا صدر مقام رہا، تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے تھل کو آباد کرنے کے نام پر تھل کے لوگوں سے حق ملکیت چھین لیا اور محکمہ مال کے ریکارڈ میں ان کے ملکیت نامے ختم کر کے کہا گیا کہ تھل کینال بنے گی ، ایک تہائی رقبہ تھل کینال کے اخراجات کے طور پر لیا جائے گا اور نہر بننے کے بعد دو تہائی رقبہ مالکان کو واپس کر دیا جائے گا۔ نہر بننے کے بعد یہ ہوا کہ نہر کے آس پاس کے رقبے پنجاب کے آبادکاروں کو دیدیے گئے۔تھل جو کہ محبت کی سرزمین تھی آج یہاں زمینوں پر قبضوں کا کاروبار ہوتا ہے یا پھر پرندوں کا شکار ۔ تھل میں ڈیزرٹ ریلی کرانے والوں کو ناجائز شکار پر پابندی کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کرانا چاہئے۔ شوقیہ لوگ جیپ ریلی کراکر چلے جاتے ہیں مگر وہ نہیں سمجھتے کہ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی تھل و چولستان اور وسیب کے دوسرے علاقوں میں مسافر پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ پرندے سائبریا اور دوسرے علاقوں سے ہجرت کر کے امن کی تلاش میں آتے ہیں مگر افسوس کہ شکاری قاتل ان کے آنے سے پہلے ہی مورچہ زن ہو جاتے ہیں ۔ سابقہ ادوار میں جتنے بھی حکمران آئے یا تو وہ خود شکاری تھے یا پھر مراعات یافتہ طبقے کو شکار کی سہولتیں دینے والے ، جیسا کہ عرب شہزادے۔ موجودہ حکومت تبدیلی کے نام پر برسر اقتدار آئی ہے ، وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پرندوں کو شکار ہونے سے بچائیں خصوصاً روہی و تھل جو کہ پرندوں اور قیمتی جانوروں کے لئے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ اگر آج بھی وسیب کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو پھر کون سا ایسا وقت آئے گا جب وسیب کے مسئلے حل ہونگے ۔ ہماری صرف اتنی درخواست ہے کہ تھل و چولستان کو شکاریوں کے ساتھ ساتھ لینڈ مافیا سے بھی بچایا جائے ۔ تھل اور چولستان کا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے۔ دریاؤں کی فروختگی کے بعد وسیب کے صحراؤں میں مزید صحرا وجود میں آ رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بار ہا عرض کیا کہ پانی کا نام زندگی اور زندگی کا نام پانی ہے، دریا ہندوستان کو دیکر ظلم کیا گیا۔ قدرت کے اجزاء ناقابل فروخت ہوتے ہیں ، اسی طرح ہوا، روشنی ، دریا اور پانی فروخت نہیں کئے جا سکتے ۔ اس حوالے سے پاکستانی دریاؤں کا سودا نظام قدرت کے خلاف بغاوت ہے۔ ہندوستان سے مذاکرات کرکے زیادہ نہیں تو اتنا تو پانی حاصل کر لیا جائے کہ علاقے کی تہذیب اور آبی حیات زندہ رہ سکے۔ ڈیزرٹ ریلی منعقد کرنے والوں کو ان کے مسائل کا ادراک کرنا چاہئے، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ تھل چولستان میں ناجائز الاٹمنٹیں خطے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ صدیوں سے جن لوگوں نے تھل اور چولستان میں پیاس و افلاس کا مقابلہ کیا پانی کے بغیر تڑپ تڑپ کر جان دیدی مگر تھل اور چولستان کو نہ چھوڑا آج پانی کا انتظام ہوا ہے تو رقبوں کے وارث اَپر پنجاب سے آئے ہوئے وہ لوگ بن گئے ہیں جو وہاں کی زبان نہیں سمجھتے اور وہاں کے رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت سے آشنا نہیں ۔ وسیب کو روہ روہی تھل دمان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ روہی چولستان کا نام ہے، چولستان اور تھل میں شکار بہت ہے لیکن شکاریوں نے وسیب سے نایاب پرندوں اور جانوروں کو ختم کر دیا ہے۔