متبسم لبوں اور مہربان آنکھوں والا وہ شفیق چہرہ بھولنے والی چیز نہیں ہے! میں نے اس چہرے کو ٹی وی پر دیکھا تھا یا اخبار میں، بس اتنا پتہ تھا کہ ادب کی دنیا میں یہ میرے عہد کا سب سے قدآور نام ہے۔نئے ہزاریے کا پہلا سال تھا۔ایم اے کے کورس کا سب سے مشکل پرچہ تھا مگر ذہن بغاوت پر آمادہ تھا۔ شماریاتی تحقیق کی کتاب سامنے کھلی تھی مگر قلم سے افسانہ برآمد ہورہا تھا۔ تخلیق کی حرکیات بھی عجیب ہیں ،کیسا باغیانہ مزاج رکھتی ہیں۔آپ لاکھ آنکھیں چرائیں،وفورِ تخلیق کے آگے ہتھیار ڈالتے ہی بنتی ہے۔امتحانات کے بعد اچانک خیال آیا کہ کچھ نیا لکھا تھا، اب اسے اشاعت کے لیے کہاں بھیجوں۔ عطا الحق قاسمی معاصر نکالتے تھے۔ان سے پوچھا تو کہنے لگے نیا پرچہ پریس میں ہے، اگلے شمارے کے لیے خاصا انتظار کرنا پڑے گا۔ فنون سب سے معتبرادبی رسالہ تھا ، مگر اپنا لکھا ہؤا معتبر نہ لگتا تھا۔ پھرنجانے کہاں سے اعتماد آگیا کہ کوئی بات نہیں زیادہ سے زیادہ مسترد ہوجائے گا،مگرپہلے ایک بار ان کے دفتر جاتی ہوں، سنا ہے وہاں منصورہ احمد بھی ہوتی ہیں۔ اور ایک دن ایڈریس لے کر مجلس ترقی ادب کے دفتر ون کلب روڈ پہنچ گئی۔ وسیع اور سرسبز احاطے سے گزر کر پرانی مختصر سی بلڈنگ کے آگے گاڑی رکی۔ دروازے پر تختی لگی تھی، صدرمجلس ترقی ادب، احمد ندیم قاسمی۔ سب اعتماد ہَوا ہوگیا۔ میں نے گارڈ کو پاس بلایا اورپوچھا ،قاسمی صاحب۔۔۔؟ جی جی، وہ فوراً بولا، آجائیے ۔اب قدم پلٹتے کیسے! صرف ایک دروازے کے بعد اس کمرے میں جہاں بڑی سی چوبی میزتھی، اس میز کے پارقاسمی صاحب بنفسِ نفیس تشریف رکھتے تھے۔ چہرے پر شفیق مسکراہٹ اور اس مسکراہٹ میں جیسے برسوں کی شناسائی۔ اس طرف منصورہ بیٹھی تھیں۔ بڑے بے تکلف ماحول میں تعارف ہوا گپ شپ لگی اور میں جیسے ہلکی پھلکی ہوگئی۔پھر کچھ روز بعد میں نے اپنی چند تحریریں لفافے میں ڈالیں، اچھا سا خط لکھا جس میں پہلی ملاقات کا خوشگوار تاثر رقم کیا، اندر باہر پتہ لکھا اور دوبارہ گئی تو دروازے پر وہی دربان کھڑا تھا۔ میں نے گاڑی میں بیٹھے ہی اسے لفافہ پکڑا یا۔’’یہ قاسمی صاحب کو دے دیں‘‘۔ اس نے ایک نظر لفافے کو دیکھا پھر مجھے، اور بولا’’وہ اندر موجود ہیں، آپ خود دے دیں‘‘۔’’ میں خود۔۔۔نہیں نہیں بس آپ دے دیجیے گا‘‘دل میں سوچاوہ کیا کہیں گے پھر آگئی، اورجلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو چلنے کااشارہ کر دیا۔ مگر میری یہ بچگانہ حرکت پکڑی گئی تھی! ٹھیک چار روز بعد مجھے ڈاک سے ان کا پہلا خط موصول ہؤا۔ القاب و آداب کے بعد پہلی سطر یہ لکھی تھی: ’’آپ کا خط ملا، ساتھ ہی آپ کی ادبی تخلیقات بھی ملیں۔ ممنون ہوں۔ اگر لفافہ آپ کا ڈرائیور یا کوئی اور صاحب پہنچا گئے تو ٹھیک ہے، لیکن اگر آپ خود تشریف لائیں اور دفتر میں داخل ہونا مناسب نہ سمجھا تو مجھے اس کا رنج رہے گا‘‘۔اس کے بعد میرے افسانوں کو بخوشی فنون میں شائع کرنے کا لکھا بلکہ ایک افسانے کی بنت میں مہارت کی بطور خاص تعریف کی، ایک نظم بتایا کہ کمپوز کروا بھی لی ہے۔ میں نے جواباً خط میں شکریے کے ساتھ معذرت کی اورلکھا کہ دروازے سے ملے بغیر چلے آنا محض آدابِ رسم شناسائی سے ناآشنائی تھی اور کچھ نہیں۔ پھر وہ شفقت بھرے ، ہاتھ سے لکھے خطوط کئی بارملے، جن پہ نام پتہ بھی ان کے ہاتھ کا لکھا ہوتا تھا۔ہر بار تحریر بھیجنے پر خط کے ذریعے رسید دیتے۔ خط اتنی سہولت سے لکھتے تھے جیسے ہم آجکل ٹیکسٹ کرتے ہیں۔ کل خط لکھا ہے کوئی بات رہ گئی تو آج دوبارہ لکھ دیا۔اس کے باوجود آغاز سے اختتام تک خط نویسی کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے۔کسی استفسار کا مکمل جواب دیتے اور اپنی کہی بات کی پوری ذمہ داری لیتے۔انسان سے محبت کے علمبردار تھے تو کردار میں بھی یہ محبت بولتی تھی: کتنا مجبور ہوں میں حسنِ نظر کے ہاتھوں مجھ کو ہر شخص نے دیوانہ بنا رکھا ہے کبھی ملنے چلی جاتی تو جتنا وقت ان کے دفتر میں گزرتا، ادبی حلقوں سے لوگ آتے رہتے۔بلندو بالا قدیم گھنے درختوں میں گھریان کے کولونیل طرز کے دفترمیں بیٹھے اپنا آپ کسی داستان کا حصہ محسوس ہوتا۔ ایک بار تفصیلی خط لکھ کرمجھے یہ خبر دی کہ خواتین کے پاپولر ڈائجسٹوں میں سے ایک نے آپ کے ایک بہترین افسانے کا چربہ شائع کیا ہے۔ انہیں یہ خبر فنون پڑھنے والوں میں سے کسی نے دی تھی، جس کے خط کی سطریں بھی انہوں نے میرے لیے ہاتھ سے نقل کرکے درج کر دی تھیں۔ایک افسانہ اور جدید لہجے کی نظم فنون کے ایک ہی شمارے میں شائع ہوئیں تو مجھے خط میں بتایا کہ دیگر بہت سے اچھے تبصروں کے ساتھ ایک صاحب نے آپ کی تحریروں پر قصیدہ نما تبصرہ کیا ہے۔ میں محسوس کرتی تھی کہ کسی لکھنے والے کو دریافت کرکے اسے آگے بڑھتا دیکھنا ان کے لیے طمانیت اور خوشی کا باعث ہوتا ہے، انہیں زندگی دیتا ہے۔ شعری مجموعہ شائع ہونے کا مرحلہ آیا تو انہوں نے پیش لفظ لکھنے کی میری درخواست کو پذیرائی بخشی، بلکہ مجموعے کا نام منتخب کرنے میں بھی میر ے لکھے ناموں میں سے ایک کو ترجیح دے کر میرا کام آسان کردیا۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ میں کتاب پیش کرنے گئی۔ انہوں نے معروف ادیبوں کے ناموں کی فہرست پتے اور فون نمبروں کے ساتھ اپنے ہاتھ سے لکھ کر تیار کی ہوئی تھی جو مجھے اس تاکید کے ساتھ تھمائی کہ انہیں اپنی کتاب ضرور ارسال کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر مجھے محترمان افتخار عارف، ڈاکٹر سلیم اختر، ثاقبہ رحیم الدین کے خوبصورت خطوط ملے، زہرہ نگاہ نے کتاب ملنے کی رسید بطور خاص فون کر کے دی۔ قاسمی صاحب کاآخری خط میں نے ان کی وفات سے محض چند ماہ پہلے وصول کیا۔ خدا انہیں غریقِ رحمت کرے ، اب ان کی بے غرض محبت کی گونج انہی جیسی وضع دار اورمشفق انکی صاحبزادی ڈاکٹر ناہید قاسمی کے لہجے میں ملتی ہے۔