وزیر اعظم عمران خان نے ایک تقریب میں کہا کہ ہماری حکومت کرنے کیلے تیاری نہیں تھی،وزیر اعظم نے کہا کہ کبھی بھی حکومت کو اس طرح پاور میں نہیں آنا چاہیے اسکی پوری تیاری ہونی چاہیے،نئی حکومت کو پوری طرح بریفنگ دینی چاہئے ،ہم جو چیزیں باہر سے بیٹھ کر دیکھ رہے تھے ،جب حکومت میں آئے تو ہر چیز مختلف تھی، تین مہینے تک تو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے، ڈیڑھ سال تک ہمیں اصل فیگرز کا ہی پتہ نہیں چلا کسی منسٹری سے کبھی کوئی فیگر آجاتی، کبھی کوئی ،ہم سمجھتے تھے اچھا جا رہا ہے پھر کوئی اور فیگر آجاتی ،پتہ چلتا بہت برا ہو رہا ہے،وزیر اعظم کے اسی بیان کو لیکر اپوزیشن جماعتوں نے ان پر بہت طنز کیا، مریم نے کہا کہ شیر وانی پہننے کی جلدی تھی سمجھ کچھ نہیں آیا، فضل الرحمان نے بھی تنقید کی ، تنقید بنتی بھی تھی ،وزیر اعظم اڈھائی سال بعد بتا رہے ہیں کہ ہمیں شروع میں کوئی چیز سمجھ ہی نہیں آئی۔ اب مریم نواز نے جس طرح تنقید کی وہ بنتی نہیں تھی کیونکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی تیسری باری میں ایسی ہی تقریر کی تھی کہ حکومت میں آتے ہیں تو کچھ سمجھ ہی نہیں آتی۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ پانچ سال کیلیے ہم لوگ آتے ہیں، ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی اور وقت گزر جاتا ہے لیکن اب مجھے تھوڑی تھوڑی سمجھ آنا شروع ہو گی ہے ۔مجھے جب سمجھ آنا شروع ہوئی، آنکھ کھلی تو پتہ چلا ایک سال گزر گیا، یہ اس وزیر اعظم کے الفاظ ہیں، جو تیسری بار وزیر اعظم بنے تھے،اور یہ الفاظ مریم نواز کے والد صاحب کے تھے جو تیسری بار وزیر اعظم بنے تھے لیکن اس وقت بھی انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔عمران خان نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کہا تھا کہ ہمارے پاس تجربہ کار ٹیم ہے ہمیں کے پی کے کی حکومت کا پانچ سالہ تجربہ ہے ، اسی طرح نواز شریف نے بھی 25 ستمبر 2012 کوایک انٹر ویو میں کہا تھا: میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس ایک ٹیم موجود ہے، تجربہ کار لوگوں کی ٹیم ہے ،پہلے دن جا کر میں یہ بریفنگ لونگا کہ کون کونسے محکمے ان کے اخراجات کیا ہیں ۔ ان کو کیسے کم کیا جائے، ہمیں پتہ ہے کیا کرنا ہے اور پھر جب انکی حکومت بن گی ،نواز شریف وزیر اعظم بن گے ، تو پھر 19 اگست 2013 کوانہوں نے کہا :کہ حکومت سنبھالنے کے بعد معاملات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ حالات میرے اندازوں سے کہیں زیادہ خراب ہیں، 15 دسمبر 2016 کو کہا : پالیسیوں کے نتیجے میں جو پاکستان کا حال ہو چکا تھا ، اس کو ٹھیک کرنے کیلیے بھی ایک وقت درکار تھا، ساڑھے تین سال ہماری حکومت کو ہو گے ہیں، آج تک ہم ملک کو ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے ہیں ہم بڑے تذبذب کا شکار تھے ، ہم اب کیا کریں، کیسے کریں؟ کربھی سکتے ہیں یا نہیں کرسکتے۔ 30 اپریل 2018 کو کہا : ہمارا جو ایجنڈا ہے اگر ہمیں 10 یا 20 سال مل جائیں تو ملکی تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہ تھے نواز شریف صاحب جو تیسری بار وزیر اعظم بنے تھے اور پھر بھی کہ رہے تھے سمجھ نہیں آ رہی ،تین چار بار حکومتیں اور ملیں تو ملک کو ٹھیک کرسکتے ہیں اور عمران خان سے مطالبہ ہے کہ 2 سال میں ملک کو ٹھیک کیوں نہیں کیا، نا تجربہ کار لوگ آ گئے ہیں،اپوزیشن نے پی ڈی ایم کی چھتری تلے ایک بھرپور انداز میں حکومت مخالف تحریک کا آعاز کیا تھا، جس کا آعاز ستمبر میں ہوا، پی پی،ن لیگ اور جے یو آئی سمیت کچھ اور چھوٹی جماعتیں اس میں شامل ہیں حکومت مخالف تحریک کا بھرپور انداز میں پلان کیا گیا، عہد کیا گیا کہ اس حکومت کو اس سال ہی ختم کردیا جائے گا ۔ دسمبر میں حکومت کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ آر یا پار کے نعرے بھی لگائے، گیم جیسے جیسے یہ تحریک آگے بڑھ رہی ہے واضح آثار سامنے نظر آرہے ہیں کہ اس میں اختلافات پیدا ہو رہے ہیں تحریک کی تیزی سست پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ پی ڈی ایم کا آخری جلسہ جو مردان میں ہوا، اس میں وہ انداز نظر نہیں آیا جو پہلے جلسوں میں تھا لوگوں کی حاضری بھی توقع سے بہت ہی کم تھی علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اس جلسے میں شریک نہیں تھی ، بلاول نہ خود شریک ہوئے نہ ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا، پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد یہ پہلا جلسہ تھا، جس میں پیپلز پارٹی شریک نہیں تھی کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ اور پی پی میں آئیندہ کی حکمت عملی پر اختلافات ہے ،تمام ارکان استعفعے دیدیں اور عمران خان کو مجبور کردیں کہ وہ حکومت ختم کردے، بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق پی پی کسی صورت بھی استعفے نہیں دے گی۔تمام اپوزیشن مل کر حکومت گرانے کی چکر میں ہے وہ اس لیے کہ ملک کے حالات خراب ہو گئے ہیں، اگر دیکھا جائے تو پچھلے کئی سالوں سے یہ ہی اپوزیشن حکومت کرتی رہی اور ملک کے حالات اس نہج پر لے کر آئی اور اب چاہتی ہے کہ ملک کے حالات فوری ٹھیک ہوں ورنہ عمران خان گھر جائیں،اپوزیشن کی جو جماعتیں ن لیگ اور جے یو آئی میں شامل، لوگوں نے اپنے حکمرانوں پر تنقید شروع کردی، خاص طور پر جے یو آئی کے بڑے ناموں نے فضل الرحمان کے حکومت کیخلاف لانگ مارچ اور دھرنوں کا ساتھ دینے سے انکا ر کردیا،اور یوں حافظ حسین احمد ،مولانا شیرانی ، مولانا شجاع الملک اور دیگر کو فضل الرحمان پر تنقید کرنے کی پاداش میں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان حکومت کو گرانے والوں کو ان کے اپنے لوگوں نے گرانا شروع کردیا ،اپوزیشن کا 2 باتوں پر اتحاد ہے کہ لانگ مارچ کرنا ہے اور استعفے دینے ہیں، لانگ مارچ پر سبھی حامی ہیں لیکن استعفوں پر تمام پارٹیوں میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں، خاص طور پر پیپلز پارٹی میں پی پی کے پنجاب کے عہدیدار استعفوں کے حامی ہیں لیکن سندھ کے ارکان تذبذب کا شکار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مولانا اور مریم کے پاس تو کوئی حکومت نہیں وہ استعفے دے بھی دیں تو انہیں فرق نہیں پڑے گا، لیکن پی پی کے پاس سندھ کی حکومت ہے اسے کیوں ختم کیا جائے ،اگر استعفوں سے بھی حکومت نہ گئی تو پی پی سندھ حکومت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی۔اسی طرح ن لیگ بھی مخمصے میں ہے کہ ارکان استعفوں کے حق میں نہیں۔ شہباز شریف کے بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی استعفوں کے حق میں نہیں ہیں ،محمد علی درانی اور بلاول نے شہباز شریف سے ملاقات کی دونوں کا کم و بیش یہی کہنا ہے کہ شہباز شریف مذاکرات کے حق میں ہیں، مذاکرات کس سے ہوں اس پر پھر اختلافات ہیں، ایک دھڑا حکومت سے مذاکرات کا حامی نہیں ، دوسرا کہتا ہے کہ حکومت سے مذاکرات نہیں، تو پھر کس سے ہونگے،فضل الرحمان اور مریم کا کہنا ہے کہ نہ حکومت اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے بات ہوگی ،تو پھر کس سے ہو گی لانگ مارچ اور دھرنے پر بھی رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی پرو گرام میں کہا کہ فروری میں لانگ مارچ ہوگا ،دھرنا نہیں دینگے موسم سرد ہے اور موسم میں دھرنا نہیں دیا جاسکتا لیکن مارچ سے اکتوبر کے درمیان کسی وقت بھی پھر سے لانگ مارچ کرینگے اور دھرنا دینگے ،یعنی اپوزیشن نے حکومت کو اکتوبر تک کا وقت دیدیا ہے،بلاول اور مریم پہلے کہتے رہے کہ اس حکومت کو دسمبر میں چلتا کرینگے،دسمبر نہیں دیکھنے دینگے پھر کہا جنوری کا سورج نہیں دیکھنے دینگے پھر کہا فروری میں زبر دست تحریک چلا کر حکومت کو ختم کردینگے، اب خود ہی کہا جا رہا ہے اکتوبر تک حکومت کو چلتا کرینگے۔ یعنی حکومت کے پاس کافی وقت ہے۔